رحمتوں اوربرکتوں والا ماہِ مقدس رمضان المبارک شروع ہورہاہے‘ یہ وہ مبارک مہینہ ہے‘ جس میں قرآن مجید نازل ہوا‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کاقیام بھی عمل میں آیا‘ رمضان کی ایک رات کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیاگیا‘ اس مہینے میں مسلمان خاص اہتمام کرتے ہیں ‘ مساجد میں پانچ وقت نمازیوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے‘ چھوٹے بڑے سبھی دن کاآغاز تلاوتِ کلام پاک سے کرتے ہیں‘ بینکوں میں زکوٰۃ کی کٹوتی بھی یکم رمضان کو ہی کی جاتی ہے‘ لوگ دل کھول کرصدقات وخیرات دیتے ہیں‘ افطار پارٹیوں میں دوست احباب اورعزیزواقارب کی دعوتوں کے سلسلے چلتے ہیں‘ سحری وافطاری کاخاص اہتمام بھی اس مہینے کی شان کو دوبالا کرتاہے‘ زیادہ ترروزمرہ امور کیلئے صبح سویرے گھر سے نکلنا بھی اسی مہینے کاحسن ہے‘ احترامِ رمضان میں لوگوں کے اخلاق بھی خود بخود سدھر جاتے ہیں‘ عادات واطوار میں سادگی وشائستگی کاعنصر نمایاں دکھائی دیتاہے‘ عبادات کے ساتھ خاص اقسام کے پکوانوں کی بہاربھی آجاتی ہے‘ کھجوروں اوردیگر پھلوں کے ساتھ پکوڑے وسموسے کے سٹالز سج جاتے ہیں ‘ افطاری سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ پہلے بازاروں میں رش ماہِ مقدس کی خوبصورتی کے ساتھ لاکھوں لوگوں کے روزگار کا سبب بھی بنتاہے‘ دوپہر کے وقت سڑکوں پر ویرانی سی چھاجاتی ہے اورپھر سورج ڈھلتے ہی ریڑھی بانوں کی بولیاں روزے داروں کواپنی طرف متوجہ کرنے لگتی ہیں‘ کھجوریں وشربت تھامے اکثر بچے وبوڑھے مسافروں کو روزہ افطار کرانے کیلئے سڑکوں پر آجاتے ہیں ‘ پچھلے کئی سالوں سے فلاحی اداروں کے ساتھ تاجروں اوروکیلوں سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے افطاری کے وقت بازاروں میں مفت دسترخوان کا اہتمام ایک روایت بن چکی ہے‘ گلی محلوں میں عام ریڑھیوں کی جگہ باقاعدہ ماڈل سستے بازاروں کا قیام وانتظام سرکاری سطح پر ہونے لگاہے ‘جہاں ناصرف لوگوں کو پھل‘ سبزیاں ودیگر اشیائے خوردونوش ارزاں نرخوں پردستیاب ہوتی تھیں ‘بلکہ مقامی انتظامیہ معیار کابھی خاص خیال رکھتی۔ لاہور اورراولپنڈی جیسے بڑے شہروں (میٹروپولیٹن) کی ہربڑی آبادی یاعلاقے میں‘ جبکہ چھوٹے شہروں (میونسپل کمیٹیوں) میں ایک ایک سستا رمضان بازار قائم کیاجاتاتھا ‘جہاں انتظامیہ خریداروں کیلئے سکیورٹی‘ سائے اور پنکھے جیسی سہولیات کااہتمام بھی کرتی اور مقرر کردہ نرخ نامے پر عمل درآمد کیلئے کنٹرول روم بھی بنایا جاتاتھا‘یوں لوگ اطمینان کے ساتھ افطاری کے لوازمات خرید سکتے تھے۔سستے رمضان بازاروں کا قیام شعبان کے آخری ہفتے میں ہی عمل میں آجاتا تھا‘ لیکن اس بار تو کہیں رمضان بازار کی تیاریاں نظر نہیں آرہی ہیں ۔
کورونا وائرس پھیلنے کے خوف سے جب ملک بھر میں لاک ڈائون جاری ہے اورلوگ ہی گھروں تک محدود ہیں‘ جب عام بازار اورمارکیٹیں ہی بند ہیں تو رمضان بازاروں کا قیام ہوبھی کیسے سکتاہے ؟لیکن عام آدمی تو یہ سوچتاہے کہ جب کھانے پینے کی اشیا‘ یعنی سبزی وپھل‘ دودھ دہی‘ گوشت‘ پولٹری ‘ کریانہ اوربیکری وغیرہ کی دکانیں کھلی ہیں ‘رمضان بازاروں میں بھی تو انہی چیزوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے‘ پھر ان ماڈل بازاروں میں عوام کو معیاری وسستی اشیائے خورونوش کی خریدوفروخت سے محروم کیوں کیاجارہاہے؟ کچھ دیر سوچا تو خود ہی اس بات کاجواب بھی مل گیاکہ حکومت نے لاک ڈائون اپنے شہریوں کو سزا دینے کے لئے تو نہیں‘ بلکہ انہیں کورونا جیسی خطرناک وبا سے بچانے کیلئے کررکھاہے‘ کمزور ملکی معیشت کے باوجود عام کاروبار کی بندش کامقصد لوگوں کو فاقہ کشی پر مجبور کرنانہیں ‘بلکہ انہیں باہر نکلنے اور وبا کو پھیلنے سے روکناہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی بندش‘ دفاتر میں کم حاضری ‘ اجتماعات پر پابندی ‘ دفعہ 144کا نفاذ اور دیگر اقدامات صرف اورصرف اس لئے کئے گئے ہیں‘ تاکہ کسی بھی جگہ لوگوں کا رش نہ بن سکے‘ کیونکہ کورونا وائرس کی وبا سماجی میل جول‘ ایک دوسرے کوچھونے ؛حتیٰ کہ سانس کے ذریعے بھی ایک سے دوسرے شخص میں تیزی سے منتقل ہوتی ہے ۔
موجودہ حالات میں رمضان بازاروں کاقیام واقعی خطرناک ہوسکتاہے ‘کیونکہ تجربہ یہی بتاتاہے کہ رمضان بازاروں میں نوے فی صد خریدار افطاری سے ایک یا ڈیڑھ گھنٹہ پہلے آتے ہیں اور اچانک رش بنتاہے جو آج کل انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ حکومت نے ماہ مقدس میں سستے ماڈل بازار نہ لگانے کافیصلہ جہاں اورجیسے بھی کیا‘ اس فیصلے کو درست ہی مان لیتے ہیں‘ لیکن ان رمضان بازاروں کامتبادل انتظام کیا کیاگیاہے؟ مہنگائی نے پہلے ہی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیاہواتھا‘ پوری دنیا کے برعکس ہمارے ملک میں رمضان کے دوران مہنگائی کاگراف مزید اوپر چلاجاتاہے اور اب تو اس کورونا لاک ڈائون نے اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت کے جواز پر لوگوں کو مہنگے داموں اشیائے ضروریہ خریدنے پر مجبور کررکھاہے ‘ ان حالات میں رمضان بازار شہریوں کیلئے امید کی ایک کرن تھے ‘جہاں پھلوں و سبزیوں کے ساتھ آٹا‘ چینی ‘ گھی اور دیگر اشیائے خورونوش بھی کنٹرول ریٹ پر مل جاتی تھیں‘ انتظامیہ روزانہ کی بنیاد ان رمضان بازاروں کیلئے خصوصی نرخ نامہ جاری کرتی‘ جو عام مارکیٹ کے مقابلے میں ارزاں ہوتاہے اورمہنگائی کے مارے عوام کو بڑی حد تک ریلیف ملتاتھا۔ اس سوال کاجواب تلاش کرنے کے باوجود نہ مل سکاکہ حکومت نے عوام کو بابرکت مہینے میں ریلیف دینے کیلئے کوئی متبادل انتظام بھی کیاہے یانہیں ؟جس سے عام آدمی بھی مستفید ہوسکے؟
حکومت کوفوری طور پر رمضان المبارک میں مہنگائی‘ بیروزگاری‘ لاک ڈائون اور کورونا وائرس کی پریشان کن صورت ِ حال کے ستائے ہوئے عوام کیلئے بڑے ریلیف پیکیج کا اعلان کرنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ رمضان المبارک اور اس کے بعد عیدالفطر کو مدنظر رکھتے ہوئے احساس کفالت پروگرام میں توسیع کرے اور اس کادائرہ کار بڑھایاجائے‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوسکیں۔ اب تک ہونے والی ادائیگیوں کے دوران پیش آنے والے حالات وواقعات سامنے رکھ کر اس کے طریقہ کار کو مزید آسان اورشفاف بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں‘ تاکہ روزے کی حالت میں غریب بزرگ شہریوں کو مشکلات سے بچایاجاسکے۔ حکومت یوٹیلیٹی سٹورز پر مختلف اشیائے خورونوش پر مناسب سبسڈی دے رہی ہے اوررمضان پیکیج پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا‘ لیکن متعدد سٹوروں پر سبسڈی والی اشیا کی دستیابی سوالیہ نشان بنی رہتی ہے‘ اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو چاہیے کہ مانیٹرنگ کا عمل سخت کیاجائے اوراگر کسی بھی جگہ کوئی نقص پایا جائے تو اس کاسخت نوٹس لے کر ذمہ داروں کو نشان عبرت بنایاجائے‘ تاکہ آئندہ سبسڈی کا مکمل فائدہ عام آدمی تک پہنچ سکے ‘لیکن یہ امر بھی قابل غور ہے کہ یوٹیلیٹی سٹور ہرجگہ واقع نہیں اورنہ ہی یہ رمضان بازاروں کا مکمل متبادل ہوسکتے ہیں‘ اس لئے حکومت عوام کو ریلیف دینے کیلئے مزید اقدامات بھی کرے ۔
لاک ڈائون کے دوران تین ہزار روپے مالیت تک کے یوٹیلیٹی بل معاف کرنے کی تجویز بھی زیرگردش رہی‘ لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد کیلئے کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آسکی‘ حکومت کو تین ہزار روپے تک یو ٹیلیٹی بلوں پر فوری سبسڈی دینی چاہیے ؛ بلاشبہ ملک کی معاشی حالت نے حکومت کے ہاتھ پائوں بھی جکڑ رکھے ہیں‘ لیکن وزیراعظم عمران خان کورونا وبا کے باعث عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں میں ملنے والے ریلیف اور تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کافائدہ عوام تک پہنچا کر سرخرو ہوسکتے ہیں۔