حزبِ اختلاف اور اقتدار کی سیاست میں فرق

سوچاتھا کہ شریفوں کی سیاست بارے لکھاجائے ‘جی ہاں ! شریفوں کی سیاست بارے لکھنے کامطلب صرف شریف فیملی کے قصیدے نہیں‘ بلکہ ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور شریف النفس سیاستدانوں کے حوالے سے چند سطور لکھنے کاارادہ کیا ‘جو اپنی شرافت‘ ایمانداری اور خودداری کی وجہ سے پاکستانی طرزِ سیاست میں آج تک کامیاب نہیں ہوسکے۔ اس کایہ مطلب بھی نہیں کہ پاکستانی سیاست میں کوئی بھی شریف یا اعلیٰ تعلیم یافتہ لیڈر کامیاب نہیں‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ صادق اورامین کی سو فی صد آئینی شقوں پرپورا اترنے والوں کوچھوڑیں اورصرف ظاہری طورپر شرافت اورایمانداری کیلئے مشہور سیاستدانوں کو بھی ڈھونڈنا شروع کریں تو فہرست کچھ زیادہ طویل نہیں بنے گی ۔ یہی میرے ساتھ بھی ہوا‘ بڑی تحقیق کے بعد بھی فہرست دُہرے ہندسے کے قریب تک نہ پہنچی‘ کئی صحافی دوستوں سے مدد بھی لی‘ کئی سیاسی کارکنوں سے مشاورت بھی کی‘ طویل سوچ بچار کے باوجود ٹارگٹ پورا نہ ہوا تو فی الحال موضوع بدلنے میں ہی خیر پائی ۔ سوشل میڈیا پر سابق وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا ایک ٹویٹ دیکھا تو یہ سوچنے لگا کہ پاکستان میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی سیاست میں کتنا فرق ہے؟ ہمارے سیاستدان اپوزیشن میں عوام کاجتنا درد رکھتے ہیں‘ جیسی باتیں کرتے ہیں‘ جو مطالبات پیش کرتے ہیں‘ جتنے اچھے مشورے دیتے ہیں‘ جو اقتصادی پالیسیاں بیان کرتے ہیں‘ جتنے اچھے اخلاق کامظاہرہ کیاجاتاہے‘ جس طرح وہ مہنگائی کیخلاف بولتے ہیں‘ جس قدر ملک میں بیروزگاری سے پریشان دکھائی دیتے ہیں‘ جو منصوبے ان کے ذہن میں ہوتے ہیں‘ افواجِ پاکستان کو ملکی مفاد میں سیاسی کردار ادا کرنے کیلئے جتنا اکسائے ہیں ‘ عوامی فلاح وبہبود میں جوکچھ کرنا چاہتے ہیں‘ شرح سود کو جتنی کم ترین سطح پر لانے کاسوچتے ہیں‘ اداروں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے اورانتقامی سیاست کوجتنا برا سمجھتے ہیں‘ بجلی وگیس اورپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جتنی کمی کی خواہش ظاہرکرتے ہیں‘ پولیس اصلاحات اور تھانہ کلچر میں جومثبت تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں‘ خواتین کو جتنا بااختیار بنانے کی بات کرتے ہیں‘ جس قومی اتحاد ویکجہتی کی خواہش رکھتے ہیں‘ جس میرٹ اورانصاف کے خواب دکھاتے ہیں‘ ظلم وناانصافی کے خلاف جو نعرے لگاتے ہیں‘ آزاد میڈیا اوراظہار رائے کے جتنے معترف ہوتے ہیں‘ عوام پر بوجھ بننے والے ٹیکسوں کوختم کرنے کے جوجو مطالبے دُہراتے ہیں‘ غرض عوامی جلسوں اور اجلاسوں میں دودھ اورشہد کی جوجو نہریں بہانے کیلئے انتہائی پراثر میٹھی میٹھی تقریریں کی جاتی ہیں اور ارضِ پاکستان کو جنت کا ایک ٹکڑا بنانے کیلئے پرکشش اعلانات ودعوے کئے جاتے ہیں اورسادہ لوح عوام کو جو خواب دکھائے جاتے ہیں ‘وہ سارے کے سارے اقتدار میں آتے ہی چکنا چور ہوجاتے ہیں۔حکومت ملتے ہی انہی سیاستدانوں کی آنکھیں ماتھے پر آجاتی ہیں اور زبان تلخ ہونا شروع ہوجاتی ہے‘ اپنے ہی پیش کردہ مطالبات بھول کر سابق حکومت کی لوٹ مار اور خزانہ خالی ملنے کی صدیوں سے چلی روایتی باتیں دُہرائی جاتی ہیں ۔ مہنگائی اور بیروزگاری پر عوام کو صبر کا درس دیاجاتاہے‘ اپنی پارٹی اورمرضی کے لوگوں کو ''ایڈجسٹ ‘‘ کرنا ہی میرٹ اورانصاف بن جاتاہے‘ مزید ٹیکس لگانے کیلئے نئے نئے بہانے تلاش کئے جاتے ہیں‘ بجلی وگیس اورپٹرولیم مصنوعات سستی کرتے وقت کئی سابقہ معاہدے آڑے آجاتے ہیں اور وہی میڈیا جانبدار دکھائی دینا شروع ہوجاتاہے‘ یعنی حزبِ اختلاف والی اپنی ہی سوچ حزبِ اقتدار میں بالکل بدل جاتی ہے ۔
پرویزمشرف کی جگہ پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو لوگوں نے بڑے شادیانے بجائے کہ حقیقی جمہوریت لوٹ آئی ہے‘ اب تو طاقت کا سرچشمہ عوام ہوں گے‘ لیکن زرداری دورِ حکومت میں بھی یہ سب کچھ خواب ہی رہا ‘ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی بجائے کرائے کے بجلی گھروں سے عوام پر مزید بوجھ ڈال دیاگیا‘ ترقیاتی منصوبے کہاں بنے اورکدھر گئے‘ کسی کو پتا ہی نہ چل سکا‘ پھر نوازشریف کی حکومت آئی تو کاروباری طبقہ بڑا خوش ہواکہ اب تو مہنگائی ختم ہوجائے گی اور معیشت مستحکم ہوگی‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نوازدور میں توانائی بحران پرکسی حد تک قابو پالیاگیا اورکئی میگاپراجیکٹس بھی مکمل ہوئے‘ لیکن عوام کو کوئی خاص ریلیف نہ مل سکا ‘کیونکہ مہنگائی کی شرح زیادہ بہتر نہ ہوسکی اوراسحاق ڈار نت نئے نئے ٹیکس لگانے کے فارمولے ہی پیش کرتے رہے‘ پھر تبدیلی کی بات ہوئی اورعوام کو صرف سو ایام میں ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر بناکر دینے کاخواب نظر آیا‘ لیکن جب عمران خان صاحب نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے بھی وہی پرانی باتیں دُہرائیں‘ عوام سمجھے کہ شاید ایوانِ اقتدار کے دروازے پر کوئی روایتی تحریر کنندہ ہے ‘جسے ہر نیا آنے والا حکمران پڑھ کر عوام کو سناتاہے کہ ''سابق حکمرانوں نے لوٹ مار کرکے ملکی معیشت کو بالکل تباہ کردیاہے‘ قومی خزانہ بالکل خالی ہے‘ بیرونی قرضے اتارنے کیلئے مزید قرضے لینے پڑیں گے‘ تباہ حال معیشت کے باعث مہنگائی اور بیروزگاری کاخاتمہ ممکن نہیں‘ امیر اورکاروباری طبقہ مزید ٹیکس دے جبکہ غریب عوام ‘ مزیدپانچ سال صبر اوربرداشت کامظاہرہ کریں ۔‘‘
بائیس برس سے میرٹ اورانصاف کیلئے جدوجہد کرنے والے کپتان سے عوام کوبڑی امیدیں تھیں کہ شاید حکومت تبدیل ہوتے ہی ملک میں بڑی تبدیلی نظر آئے گی‘ لیکن اس حکومت کے دو سال میں بھی ابھی تک تو وہی کچھ ہورہاہے‘ جس کا اوپر ذکر کیاگیا۔ کشکول توڑنے کاوعدہ کرنے والی جماعت نے بھی آئی ایم ایف کادروازہ کھٹکھٹایا ‘بلکہ گوڈے گٹے بھی پکڑے اور تمام شرائط قبول کرتے ہوئے مزید قرضہ لیا‘ ابھی عوام کو مزید صبر کرنے اوربھوک ننگ پر نہ گھبرانے کادرس ہی دیاجارہاتھا کہ اوپر سے کورونا وبا بھی پہنچ گئی‘ اب تو اللہ ہی دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ رحم فرمائے اور اس وباسے ہماری جان بچائے‘ اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ ہماری حکومت معیشت کو سدھارنے اورحقیقی تبدیلی کیلئے کیا اقدامات اٹھاتی ہے۔ 
بات اسحا ق ڈار کے جس ٹویٹ سے شروع ہوئی ‘ وہ آپ کی خدمت میں بھی پیش ہے: ''خدا خدا کر کے آج اس نا اہل حکومت نے ہمارا پالیسی ریٹ کو 9 فیصد پر لانے کا مشورہ تو مان لیا۔ اب‘ امید ہے کہ عوامی مفاد میں ہمارے پٹرولیم کی قیمت میں کمی اور روپے کو مضبوط/مستحکم رکھنے کے مطالبات کو بھی جلد تسلیم کیا جائے گا۔‘‘ 
عمران خان صاحب‘ اسدعمر اور دیگر حکمران بھی اپوزیشن میں ایسے ہی عوام کے دل کی باتیں کرتے تھے اورحکمرانوں سے مطالبہ کرتے تھے کہ پٹرولیم مصنوعات سے ٹیکس ختم کئے جائیں اور تعلیم وصحت مفت کی جائے‘ لیکن کاش ایسا ہوتا کہ اسحا ق ڈار بھی اپنے دورِ اقتدار میں نت نئے ٹیکسوں کی بجائے مہنگائی ختم کرنے کیلئے کوئی عملی قدم اٹھاتے تو آج انہیں ایسے ٹویٹ کرنے کی ضرورت نہ پڑتی‘ کیونکہ پھر موجودہ حکومت بھی ایسے ہی اقدامات پرمجبور ہوتی ۔ وزیراعظم عمران خان کے پاس اب بھی وقت ہے‘ عوام کو آج بھی ان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں ‘ وہ اب بھی نئے پاکستان کی بنیادرکھ سکتے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں