پنجاب گروپ آف کالجز کے ساتھ ادارتی اور سفارتی تعلقات کے بعد اس وقت آناجانا کچھ زیادہ ہی شروع ہوگیا ‘جب اپنے بچوں نے میٹرک پاس کرنے کے بعد باری باری کالج میں داخلہ لیا۔ پہلے تو کالج کے ڈائریکٹر یا پرنسپل صاحبان کی جانب سے کسی ایونٹ کیلئے دعوت ملتی تو ملاقات کابہانہ بنتاتھا‘لیکن جب اپنے بچے کالج پہنچے توپھر آئے روز کسی نہ کسی بہانے آمدورفت لگی رہتی‘ لیکن جب بھی پنجاب گروپ کے کسی کالج میں جاناہوا‘ تو وہاں ایک بات نوٹ کی کہ کالج انتظامیہ اورفیکلٹی سب سے زیادہ زور طلبا وطالبات کی سو فی صد حاضری یقینی بنانے پر دیتے ہیں ‘کیونکہ سٹوڈنٹ کالج آئے‘ لیکچر سنے‘ ٹیچر سے سوالات کرے‘ اگر کچھ سمجھ نہ آئے تو دوبارہ پوچھے ‘ یہی اس کی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے اوراگر کوئی طالب علم ایک دن بھی کسی وجہ سے غیرحاضر ہو توپھر اس کیلئے اس دن کے سبق کی کمی کوپورا کرنا مشکل ہوجاتاہے‘ چاہے وہ اضافی وقت میں ٹیچر سے رہنمائی حاصل کر بھی لے‘ کیونکہ دوسرے دن باقی طلبا وطالبات اس کاانتظار کئے بغیر اگلے سبق کی جانب بڑھ چکے ہوتے ہیں۔ یوں ایک دن کی غیرحاضری‘ طالبعلم پر بلا مبالغہ اضافی بوجھ کاسبب بنتی ہے ‘جس کااثر اس کی تعلیمی کارکردگی پر ضرورپڑتاہے۔
میں نے اکثر والدین کو دیکھا‘ جو سارا سال کالج کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر بھیجے جانے والے ایس ایم ایس کے باوجود اپنے بچوں کی کارکردگی پر توجہ نہیں دیتے اور جب امتحان قریب آتاہے تو بچہ والدین کو پوری حقیقت کے بغیر ادھوری بات بتاتاہے کہ کالج والوں نے اس کاداخلہ روک لیاہے اورجب والدین جب کالج انتظامیہ سے رابطہ کرتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ ان کی لاڈلی اولاد نے چھٹیاں بہت زیادہ کیں اور اس کی حاضریوں کی تعداد مطلوبہ معیار سے کم ہے۔کورونا وائرس نے ملک میں قدم رکھے تو تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہوگئے‘ لیکن یہ اندازہ کسی کونہ تھاکہ یہ بندش شاید ملکی تاریخ میں سب سے طویل ہوجائے گی اور وہ بچے جو چھٹی کیلئے آئے روز بہانے تلاش کرتے تھے ‘ وہ بھی سکول اورکالج کھلنے کا شدت سے انتظار کرنے لگیں گے۔ پہلے دو ہفتے‘ پھرایک ماہ کیلئے تعلیمی ادارے بند ہوئے‘ پھر لاک ڈائون کو زبردستی موسم گرما کی تعطیلات میں تبدیل کردیاگیااورسرکاری طورپر اعلان ہوا کہ سکول‘ کالجز اورجامعات اکتیس مئی کے بعد کھلیں گے‘ حالات مزید خراب ہونا شروع ہوئے تو نیاحکم آیا کہ اب پندرہ جولائی تک چھٹیاں بڑھا دی گئی ہیں ‘لیکن ابھی جون کا مہینہ شروع ہی ہوا ہے کہ تعلیمی ادارے اگست تک بند رکھنے کی باتیں ہورہی ہیں اورساتھ ہی یہ بھی کہاجارہاہے کہ جب تک حالات معمول پر نہیں آجاتے‘ اس وقت تک تعلیمی ادارے بند ہی رہیں گے۔ عجیب زمانہ ہے کہ جو اساتذہ ہر وقت سکول اورکالج بروقت آنے‘ حاضری یقینی بنانے اورچھٹی نہ کرنے کی تلقین کرتے تھے‘ اب وہی کہتے ہیں کہ بچوں کوہرگز گھر سے نہ نکلنے دیں‘ ایک دوسرے سے نہ ملیں اور روز مرہ امور میں سماجی فاصلے کویقینی بنائیں ‘ یعنی اساتذہ کہتے ہیں کہ چھٹی کرکے گھر میں بیٹھیں ‘لیکن اب بچے گھر بیٹھ بیٹھ کر تنگ آچکے ہیں اورپوچھتے ہیں کہ چھٹیاں کب ختم ہوں گی؟
رمضان المبارک بھی کورونا لاک ڈائون میں ہی گزر گیا‘ اس بار پہلے تو افطار پارٹیاں چھوٹ گئیں اورپھر عید کی شاپنگ بھی متاثر ہوئی‘ ایک دوسرے کو عید ملنے میں بھی سردمہری نظر آئی اورلوگوں نے گھروں میں ہی عید گزاری۔ پہلے گھر میں لیٹے رہنے والے کو نکما‘ نکھٹو اور ناکارہ جیسے القابات سے نوازا جاتا تھا اور اب گھر میں رہنے والے کو سمجھ دار اورباشعور کہاجاتاہے۔پہلے بازاروں میں رش کو کاروبار میں بہتری اورسڑکوں پر رش کو رونق سمجھا جاتاتھا ‘لیکن اب یہی سب کچھ خطرے کی علامت سمجھاجانے لگاہے۔ کورونا لاک ڈائون نے جہاں بچوں کو تعلیمی سرگرمیوں سے دور کررکھاہے وہیں کاروباری طبقہ اور ڈیلی ویجز پر کام کرنے ولے ملازمین بھی سخت پریشان ہیں ‘کیونکہ گزشتہ کئی ماہ سے کاروبار زندگی معطل ہوکر رہ گیاہے‘ بہت سارے کاروبار آج بھی مکمل بند ہیں اوران سے وابستہ لاکھوں افراد بیروزگاری کے عالم میں گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں اور وہ بھی بچوں کی طرح باربار سوال کرتے ہیں کہ چھٹیاں کب ختم ہوں گی ؟ فرق صرف یہ ہے کہ بچے تو اپنے دوستوں سے دوری اور اپنے معمولات زندگی کی معطلی سے بیزار آ چکے ہیں اور تعلیمی ادارے کھلنے کی دعائیں کررہے ہیں‘ تاکہ گھر سے نکل سکیں‘ لیکن بڑے تلاش روزگار کی وجہ سے گھر سے نکلنا چاہتے ہیں‘ کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ بچے گھر میں رہیں یا سکول جائیں‘ ان کی ضروریات کو پورا کرنا ان کافرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی روزگار ہی کی مرہونِ منت ہے۔ تعلیمی اداروں نے تو آن لائن ایجوکیشن سسٹم بھی اپنا لیاہے اورگزشتہ چند ماہ سے لاگو بھی ہوچکاہے‘ لیکن ابھی تک ہمارے ملک میں انٹرنیٹ سمیت جدید سہولیات کانیٹ ورک کمزور ہے اورہربچے تک آن لائن ایجوکیشن سسٹم کے فوائد ابھی نہیں پہنچ سکتے ‘ پھر بھی بچوں کومصروف رکھنے کیلئے آن لائن کلاسز بھی ایک بہترین تجربہ ہیں ‘جس سے بچے مستفید ہورہے ہیں ‘لیکن بڑے کیاکریں‘ گھر بیٹھے آن لائن بزنس کے مواقع ابھی زیادہ سے زیادہ پانچ فی صد لوگوں کیلئے بھی نہیں اوریہ پانچ فی صد بھی صرف شہری آبادی کے افراد ہی ہوسکتے ہیں اورباقی پچانوے فی صد شہری عالمی وبا کورونا وائرس کے خاتمے اور معمولات زندگی کی بحالی کے منتظر ہیں‘کیونکہ بچے تو چھٹیوں میں یکسانیت سے بیزار ہیں‘ لیکن بڑے فکر معاش سے پریشان ہیں۔
کورونا وائرس کاسدباب ایک خواب بنتاجارہاہے اور ہرگزرتے دن کے ساتھ اس کی شدت میں تیزی آتی جارہی ہے‘ متاثرین کی تعداد 94 ہزار تک پہنچ چکی ہے‘ جبکہ شرح اموات میں بھی خطرناک حدتک اضافہ ہوچکاہے اور اب یہ تعدادبھی خدانخواستہ (روزانہ)تہرے ہندسے کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ اب یہ بات تقویت پکڑتی جارہی ہے کہ ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھنا ہوگی اور اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم عالمی ادارۂ صحت اور حکومت کی جانب سے بتائی جانے والی ہدایات اور ایس اوپیز پر سختی سے عمل کریں ‘ فیس ماسک اورسینٹی ٹائزر استعمال کریں‘ غیرضروری گھروں سے نہ نکلیں‘ سماجی فاصلے کے اصول پر کاربند رہیں‘ مصافحہ کرنے اورگلنے ملنے سے اجتناب کریں‘ ہجوم سے بچیں اور اپنی خوراک میں بھی اعتدال لائیں ‘ اگر ہم ایس اوپیز پر مکمل عمل کریں گے تو پھر موجودہ حالات میں بھی ہماری مشکلات اورپریشانیاں کم ہونا شروع ہوجائیں گی ‘ بیماری کازور بھی ٹوٹ جائے گا اورکاروبار زندگی بھی معمول کی جانب گامزن ہوجائے گا‘ لیکن اگر خدانخواستہ عوام نے روش نہ بدلی اورایس اوپیز پر سختی سے عمل درآمد شروع نہ کیا‘تو اس کے بھیانک نتائج کو بھی بھگتنا پڑے گا اور شاید چھٹیاں بھی بڑھتی جائیں۔ عوام کوچاہیے کہ حکومت اورانتظامیہ سے مکمل تعاون کریں‘ تاکہ دوبارہ سخت لاک ڈائون کی جانب نہ جاناپڑے۔