ملک میں کورونا وائرس کی وبا اس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے کہ ہرشخص خود کو غیرمحفوظ سمجھنے لگاہے‘ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں شہری متاثر ہورہے ہیں ‘جبکہ شرح اموات بھی اوسطاً سواسو یومیہ تک پہنچ چکی ہے‘حالات انتہائی سنگین ہوچکے ہیں ‘ عام آدمی جو پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کی چکی میں پِس رہاہے‘ اس کیلئے اپنے کنبے کے تمام افراد کا پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرانا مشکل ہی نہیں‘ بلکہ ناممکن ہے‘ کیونکہ ہمارے برسرروزگار افراد کی اکثریت بھی وہ ہے‘ جن کی ماہانہ آمدن بیس ہزار روپے سے کم ہے اوروہ اپنی ایک ماہ کی پوری تنخواہ خرچ کرکے بھی اپنے تمام اہل خانہ کے ٹیسٹ نہیں کرا سکتا ‘جبکہ سرکاری ہسپتالوں اور قرنطینہ مراکز کی صورت ِحال ‘ سوشل میڈیا پر زیرگردش خبروں اور ویڈیوزکودیکھنے اورسننے کے بعد ایک عام آدمی بغیر ٹیسٹ کرائے اوروبا کو گلے سے لگائے گھر میں موت کو ترجیح دینے لگاہے ‘کیونکہ کورونا وائرس سے بچائو کیلئے ابتدا میں چلائی گئی آگہی مہم میں یہ تو کہاگیا کہ '' کورونا سے ڈرنا نہیں‘ لڑنا ہے‘‘ لیکن ساتھ ہی یہ بتایا گیا کہ اگر خدانخواستہ کوئی شخص لاکھ احتیاط کے باوجود کہیں سے اس وبا کاشکار ہوگیا تو پھر (اس کی خیرنہیں) اسے سرکاری اہلکار پکڑ کر ساتھ لے جائیں گے‘ اہل خانہ کو ملنے بھی نہیں دیں گے‘ بلکہ اس کی گلی ومحلے کو بھی سیل کردیاجائے گا اوراگر اس دوران وہ خالق حقیقی سے جاملا تو خاندان والوں کو میت بھی واپس نہیں کی جائے گی اورسرکاری اہلکار ہی اس کی تدفیق کریں گے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو کوئی جان لیوا انجیکشن لگانے کی خبریں (اللہ کرے کہ جھوٹ ہی ہو)بھی عام ہوچکی ہیں‘ لیکن آج تک حکومت کی جانب سے اس کی نہ تو واضح تردید کی گئی اورنہ ہی وضاحت کی گئی کہ وہ کون سا انجیکشن ہے اور مریض کوکیوں لگایاجاتاہے؟ حالات کی سنگینی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ جب راقم الحروف بھی سرکاری ذرائع سے اپنا کورونا ٹیسٹ کرانے جارہاتھا تو کئی عزیزوں اوردوستوں نے سرکاری ٹیسٹ نہ کرانے کا مشورہ دیا اور خدشے کااظہار کیاکہ خدانخواستہ ٹیسٹ رپورٹ پازیٹیو آئی تو پھر مسائل کاسامنا کرناپڑتا ہے۔یہ بات بتانے کامقصد حکمرانوں تک عام آدمی کے دل میں پائے جانے انجانے خوف کوپہنچانا ہے ‘ جب صورت حال اتنی گمبھیر ہوجائے تو پھر ایک عام آدمی کا گھبرانا تو بنتاہے۔
سکول‘ کالج اوریونیورسٹیاں بند‘تعلیمی ادارے کب کھلیں گے؟ کسی کو معلوم نہیں‘ سونے پہ سہاگہ یہ کہ حکومت نے میٹرک اورانٹرمیڈیٹ جو کسی بھی طالب علم کی زندگی میں سب سے اہم امتحانات ہوتے ہیں وہ تو پرچوں کے بغیر ہی پاس کردئیے ‘لیکن اب جامعات کے طلبا وطالبات کو یہ جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان میں ابھی انٹرنیٹ سروس ہرشہری تک نہیں پہنچی اور تمام طلبا اس سے مستفید نہیں ہوسکتے‘ اس کے باوجود آن لائن امتحانات پر مجبور کیاجارہاہے‘ جس پر طلباوطالبات (خصوصاً سرکاری پوسٹ گریجوایٹ کالجز وجامعات کے) میں سخت تشویش پائی جاتی ہے‘ کیونکہ ملک میں آبادی کی اکثریت غریب ہے اوربڑی مشکل سے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کیلئے یونیورسٹی تک پہنچاتی ہے اوروالدین بڑی توقعات وابستہ کئے ہوتے ہیں کہ اب ان کا پسر یا دختر ڈگری لینے کے بعد ان کی ضعیفی کا سہارا بنیں گے‘ لیکن اگر بغیرپڑھائی وتیاری سٹوڈنٹس سے ماسٹر لیول کاامتحان لیاجائے گا تو پھر نتیجہ سب ہی جانتے ہیں کہ اکثریت فیل ہوں گے اور والدین کو کم ازکم ایک سال کا مزید خرچ برداشت کرنے کے ساتھ اولاد کی کامیابی دیکھنے کیلئے انتظار بھی کرنا پڑے گا‘ جس کیلئے کئی ضعیف العمر والدین کے ہاں مہلت بھی نہیں ہوتی؛ ایسے حالات میں وطن ِعزیز کے مستقبل(نوجوان نسل) کا گھبرانا تو بنتاہے۔ادھردنیا بھر میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں صفر تک پہنچنے کے باوجود پاکستان میں مہنگائی کی شرح کاگراف اوپر ہی اوپر جارہاہے‘ ماضی میں جب بھی پٹرول کی قیمت میں معمولی اضافہ بھی ہوا تو اسے جواز بنا کر ہر چیز کی قیمت بڑھادی گئی اورکہاگیاکہ اس کی پیداواری لاگت کے ساتھ ٹرانسپورٹیشن چارجز بڑھ گئے ہیں‘ لیکن اب تیل کے نرخ پینتیس سے چالیس فی صد کم ہوئے‘ لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی؛حتیٰ کہ چینی اورآٹے کی رپورٹیں منظر عام پر آنے کے بعد خوشی سے شادیانے بجانے والے عوام کو یہ دو آئٹم بھی سستا ہونے کی خوشخبری نہ مل سکی‘ بلکہ چینی عام مارکیٹ میں اسی سے پچاسی روپے فی کلوگرام تک پہنچ گئی ‘جبکہ آٹے کے نرخوں میں بھی اضافہ ہی ہوا۔ ان حالات میں محدود آمدنی والے شہریوں کاگھبرانا تو بنتاہے۔
ملک میں فضائی آپریشن اورٹرانسپورٹ سروس ایس اوپیز کی ہدایات کے ساتھ بحال تو کردی گئی ‘تیل سستا ہونے کے باوجود کرایوں میں خاص کمی نہ ہونا اپنی جگہ‘ لیکن آج بھی کسی مجبوری کے تحت گھر سے نکلنے والے شہریوں کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ انہیں اپنی منزل مقصود کیلئے کوئی سواری ملے گی یا نہیں اوراگر مل بھی گئی تو کیا واقعی وہ منزل تک پہنچ پائے گا یا راستے میں ہی کسی جگہ روک کر بتایاجائے گا کہ اس علاقے میں لاک ڈائون کردیاگیاہے اور اب آپ یہاں سے آگے نہیں جاسکتے تو پھر ایک عام آدمی‘ جسے پچپن روپے والے ہیلی کاپٹر کی سہولت بھی میسر نہ ہوتو وہ گھر سے نکلتے ہوئے گھبراہٹ کا شکار تو ہوگا۔ملک میں بیشتر کاروبار کھول دئیے گئے ہیں اور اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی نرم سوچ ہر گز غلط بھی نہیں ‘ ان کا یہ فرمان بالکل درست ہے کہ سخت لاک ڈائون ہماری کمزور معیشت کوتباہ وبرباد کر دے گا‘ لیکن زمینی حقائق یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر ابتدا میں ہی دو ہفتے کیلئے سخت لاک ڈائون کرلیاجاتا تو شاید آج پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد نصف سے بھی کم ہوتی اور شرح اموات میں اضافہ بھی نہ ہوتا۔ عید سے قبل اچانک لاک ڈائون کھولنے سے بازاروں میں ایس اوپیز کو جس طرح پیروں تلے روندا گیا‘ اس کے نتائج حسب ِتوقع آج سامنے آرہے ہیں اور کورونا متاثرین کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ رہی ہے۔
یہ بھی کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر ہر شہری کو ٹیسٹ کی سہولت میسر ہو تو اس عالمی وبا کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ بھی دیکھنے کوملے۔ ملک میں اکثر کاروبار کھل تو گئے‘ لیکن آج بھی یہ بحث کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی کہ کون سا کاروبار کس دن اور کتنے بجے تک کھلے گا؟ کیونکہ پہلا مسئلہ تو وفاقی اورصوبائی حکومتوں میں رابطے کافقدان ہے اوردوسرا لاک ڈائون میں نرمی کاغیرحتمی وغیرسرکاری نتیجہ سمارٹ لاک ڈائون ہے‘ جس کے تحت ملک کے مختلف شہروں میں کورونا وائرس کے ہاٹ سپاٹ علاقوں کو دوبارہ دو ہفتوں کیلئے مکمل سیل کیاجارہاہے‘ لہٰذا اب صورت ِ حال اس قدر غیریقینی ہوچکی کہ اہل ِخانہ دفاتر میں اور دفاتر میں بیٹھے افراد گھروں میں فون کرکے پوچھتے ہیں کہ کہیں ہمارا علاقہ بھی سیل تو نہیں کردیاگیا ؟جب حالات اس قدر غیریقینی ہوں‘ جب کسی کو یہ ہی معلوم نہ ہو کہ وہ صبح گھر سے نکل پائے گا نہیں اور اگر روزی روٹی کے چکر میں گھر سے نکلتاہے تو پھر واپس گلی یامحلے میں داخل بھی ہوسکے گا یانہیں تو پھر کم ازکم گھبرانا تو بنتاہے۔
حکومت کوچاہیے کہ مذکورہ بالا زیرگردش افواہوں کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائے‘ تاکہ عوام کم از کم خوف سے تو نہ مریں‘ نیزاگر اب بھی عوام کے دکھوں کامداوا نہیں کیاجاتا ‘تو پھر گھبرانے ہی دیں‘کیونکہ گھبرانا تو بنتا ہے۔