کہنے والے تو کہتے ہیں کہ میڈیا نے پاکستانیوں کو بہت باشعور بنادیا‘ اب یہ قوم کسی کے بہکاوے میں نہیں آئے گی‘ ووٹ کا استعمال بھی سوچ سمجھ کر کرے گی‘ اچھے کو اچھا اوربرے کوبرا کہے گی‘ حقوق کوسمجھے گی اور اپنے حق پر کسی کو ڈاکا نہیں مارنے دے گی‘ عوامی نمائندوں اور سرکار سے اپنے بنیادی حقوق کامطالبہ ڈنکے کی چوٹ پر کرے گی ‘ سرکاری محکموں سے کرپشن کاخاتمہ ہوگا‘ عوامی شکایات کا فوری ازالہ ہوگا‘ لوگوں کے تمام مسائل ان کی دہلیز پر حل ہوں گے ‘ تھانہ اورکچہری کی سیاست اب نہیں چلے گی‘ اب ایک بھائی حکومت میں تو دوسرا اپوزیشن میں والی سیاست دم توڑ دے گی‘ غریب کے بچوں کو بھی سرکاری تعلیمی اداروں میں بہترین ماحول اوراعلیٰ معیار میسر ہوگا‘ ہرشہری کوسرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کی جدید سہولیات دستیاب ہوں گی‘ ذخیرہ اندوزی اورناجائز منافع خوری سے پہلے ہرکوئی ایک ہزاربار سوچے گا اورکسی کو مصنوعی مہنگائی کی جرأت بھی نہیں ہوسکے گی‘ عوام کو آٹے اور چینی کیلئے قطاروں میں کھڑا نہیں ہوناپڑے گا‘ بجلی اورگیس سستے داموں ملیں گی اور توانائی کا بحران کبھی پیدا نہیں ہوگا‘ معصوم بچوں کو تحفظ کا احساس دلایا جائے گا اور عام شہریوں کی جان ومال کاتحفظ یقینی بنایا جائے گا‘ سٹیزن پورٹل پر شکایت درج ہونے کے بعد نہ صرف فوری ازالہ ہوگا بلکہ متعلقہ محکمہ شہری سے معذرت خواہ بھی ہوگا‘ فارم ب رکھنے والے ہر نوجوان پاکستانی کو اٹھارہ برس کی عمر ہونے پر شناختی کارڈ خود بخود گھر کے دروازے پر مل جائے گا‘ رشوت اورسفارش کاکلچر ہمیشہ کیلئے دفن ہوجائے گا اور لوگوں کو روزگار انتہائی شفافیت کے ساتھ اور مکمل میرٹ کی بنیاد پر ملے گا‘ اورکوئی بھی شہری بھوکا نہیں سوئے گا۔کاش ایسا ہوسکتا!
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں آزاد میڈیا نے عوام کو بڑی حد تک شعور دیا‘ حقوق بتائے‘ فرائض سمجھائے‘ کرپشن کی غضبناک کہانیاں بے نقاب کیں‘ متعدد لوگوں کو انصاف بھی ملا‘ کئی لوگوں کو روزگار بھی دلایا‘ سرکاری اداروں میں تعلیمی معیار مثالی نہ سہی کم ازکم دیگر سہولیات تو بہتر ہوئیں‘ آج بھی بااثر وڈیرے خاندانوں کا فرد اقتدار میں ہوتا ہے تو دوسرا عزیز اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت پر تنقید کے نشتر چلارہاہوتا ہے ‘لیکن اس کے ساتھ پہلی بار یہ دیکھنے کوملا کہ ایک گھرانے سے الیکشن کے دن نکلنے والے ووٹروں نے اپنی اپنی پسند اورسمجھ بُوجھ کے مطابق حق رائے دہی استعمال کیا‘ لوگوں کے بنیادی مسائل بھی حل ہورہے ہیں ‘لیکن غیرجانبدار حقیقت یہی ہے کہ آج بھی پاکستانی قوم نہایت سادہ ومعصوم ہے‘آج بھی ہم سیاستدانوں کے بیانات کو ہی اپنی تقدیر سمجھتے ہیں‘ آج بھی جب مقتدر حلقوں کی جانب سے کسی عوامی مسئلے کانوٹس لیاجاتا ہے تو معصوم شہری یقین کر لیتے ہیں کہ بس اب تو ان کامسئلہ حل سمجھو‘ کبھی کبھی ایسا ہوبھی جاتا ہے لیکن اکثر اوقات بات نوٹس لئے جانے سے آگے نہیں بڑھتی اور متعلقہ محکموں نے نوٹس کاجواب اتنا اطمینان بخش تیار کرکے رکھا ہوتا ہے کہ انہیں پہلے سے دوگنا وقت مل جاتاہے۔
دیگر شعبوں کی طرح گاڑیوں کی پرانی رجسٹریشن بک کی جگہ سمارٹ کارڈ اور کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹیں بھی سکیورٹی کیلئے وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہیں‘ بڑے شہروں میں سیف سٹی پراجیکٹ کی کامیابی کیلئے بھی یہ ضروری ہے‘ ان سے جہاں گاڑیوں اورموٹرسائیکلوں کی چوری میں کمی واقع ہوسکتی ہے وہیں جعلسازی اوردھوکہ دہی کے امکانات بھی معدوم ہوجاتے ہیں‘ لیکن گزشتہ تقریباً ایک سال سے پنجاب میں کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹوں اور سمارٹ کارڈ کے حصول میں شہریوں کو شدید مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہاہے‘ روزانہ ایکسائز دفاتر کے باہر شہریوں کی طویل قطاریں لگی ہوتی ہیں‘ لیکن لوگوں کومایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا‘ پہلے تو یہ سب کچھ سست روی کاشکار تھا ‘لیکن اب تو تقریباً ایک ششماہی سے زیادہ عرصہ ہوگیا کہ ان کا اجرا مکمل طور پر بند ہے‘ لاکھوں شہریوں نے گاڑیوں اورموٹرسائیکلوں کی نئی رجسٹریشن اور ٹرانسفر کیلئے اپلائی کررکھا ہے ‘لیکن انہیں سمارٹ کارڈ اورکمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹیں جاری نہیں ہورہیں۔ گزشتہ دنوں ایک خبر شائع ہوئی کہ پنجاب بھر میں تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ سمارٹ کارڈ رجسٹریشن التوا کا شکارہیں‘گاڑیوں کے مالکان فیس کی مد میں کروڑوں روپے جمع کروانے کے باوجود سماٹ کارڈ رجسٹریشن سے محروم ہیں۔کروڑوں روپے سرکاری فیس تو وصول کرلی گئی مگر یہ کارڈ مالکان کو فراہم نہیں کئے جاسکے ہیں۔ گاڑیوں کی سرکاری کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹوں کا اجرا بھی بدستور بندہے‘کروڑوں روپے فیس کی مد میں وصولی کے باوجود مزید چھ ماہ تک نمبر پلیٹوں کا اجرا مشکل نظر آتا ہے‘ اطلاعات کے مطابق محکمہ ایکسائز نے سنگین صورتحال کی وجہ سے پولیس کو گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کے خلاف کارروائی نہ کرنے کیلئے مراسلہ بھی ارسال کردیاہے۔
مسئلہ صرف یہ نہیں کہ سمارٹ کارڈ یا سرکاری نمبر پلیٹ نہ ہونے پر ٹریفک پولیس گاڑی کو بند کردے گی یا چالان کے ساتھ جرمانہ ہوسکتا ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹیں اورسمارٹ کارڈ کی عدم موجودگی میں قیمتی گاڑیوں کی چوری کی وارداتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوچکاہے اورچور آسانی کے ساتھ مسروقہ گاڑیوں پر جعلی نمبر پلیٹ لگا کر غائب کرلیتے ہیں ‘ خریدوفروخت میں بھی لوگوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتاہے۔جب کوئی شخص لاکھوں روپے خرچ کرکے گاڑی خریدتا ہے تو وہ فوری طور پر اپنے نام پر رجسٹریشن کرانا چاہتاہے تاکہ کسی بھی قانونی پیچیدگی سے بچ سکے‘ اسی طرح جو لوگ استعمال شدہ گاڑی خریدتے ہیں وہ بھی فوری طور پرگاڑی یاموٹرسائیکل اپنے نام پر ٹرانسفر کرانا چاہتے ہیں‘ لیکن اس وقت صورتحال انتہائی سنگین ہوچکی ہے‘ لاکھوں شہریوں نے گاڑیوں کی رجسٹریشن اورٹرانسفر کیلئے اپلائی کررکھاہے‘ لیکن انہیں چھ مہینوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود سمارٹ کارڈ جاری نہیں کئے گئے۔ہزاروں لوگ ایسے ہیں جنہوں نے گاڑیاں اپنے نام ٹرانسفر کرانے کے بعد آگے فروخت بھی کردی ہیں اور انہوں نے نئے مالک کے نام پر ٹرانسفر لیٹر بھی جاری کردیاہے‘ لیکن اکثرخریداروں نے پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کی رقم بطور ضمانت روک رکھی ہے کہ جب فروخت کنندہ انہیں سمارٹ رجسٹریشن کارڈ مہیا کرے گاتو وہ یہ رقم ادا کریں گے‘ کیونکہ جب تک سمارٹ کارڈ جاری نہیں ہوجاتا اس وقت تک گاڑی نئے مالک کے نام پر ٹرانسفر نہیں ہوسکتی۔ اس طرح پنجاب میں اس وقت لاکھوں گاڑیوں کے مالکان اس مشکل کاشکار ہیں اورانہیں قانونی مسائل کاسامنا ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اس اہم عوامی مسئلے کا نوٹس لیا تھا اور ایکسائز حکام کو اس مسئلے کے حل کیلئے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی تھی‘ جس پر شہریوں نے بڑے اطمینان کااظہار کیاتھا‘ لیکن اس کے بعد اس معاملے پر کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔ پھر کورونا وائرس کے باعث دفاتر کی بندش ہوئی اس طرح یہ معاملہ مزید لٹک گیا‘ اب دفاتر تو کھل گئے ہیں لیکن نہ تو کسی نے عوامی مشکلات کاسوچا ہے اورنہ ہی اعلیٰ حکام کے نوٹس پر عمل ہوا ہے۔ 'نوٹس ملیاککھ نہ ہِلیا‘ والی صورتحال ہے‘ لگتا ہے پھر نوٹس لیناپڑے گا‘ تاکہ عوامی مسئلہ حل ہوسکے۔