ایک نظراِدھربھی!

پاکستانی عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ووٹ دئیے ‘یہی بات تبدیلی کے نعرے کی اساس تھی اوراسی وعدے نے وزیراعظم عمران خان کو اقتدار کی مسند تک پہنچایا۔ حکومت سنبھالنے کے بعد انہوں نے بلاشبہ احتساب کے عمل کوتیز کیا ‘ اپوزیشن کے ساتھ کئی حکومتی اراکین بھی اس کی زد میں آئے‘ بعض کو وزارتوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے ‘ کئی بیوروکریٹس بھی احتسابی عمل سے گزرے‘ پھر آٹے اورچینی کی رپورٹیں بھی سامنے آگئیں اور وزیراعظم نے غیروں کے ساتھ اپنوں کو بھی معاف نہ کیا اور قوم سے وعدہ کیاکہ تمام مافیاز کے خلاف بلاتفریق سخت کارروائی کی جائے گی۔آگے چل کرکیاہوتا ہے ‘یہ تو وقت ہی بتائے گا‘ لیکن ابھی تک اٹھائے گئے اقدامات سے نظرآتاہے کہ کپتان کی نیت ٹھیک ہے اوراس بار مافیا بچ نہیں پائے گا۔مافیا ہرشعبے میں موجود ہیں اور حتیٰ کہ کھیل کے میدان بھی ان سے محفوظ نہ رہ سکے‘ کیونکہ جہاں بھی پیسے کاعمل دخل زیادہ ہوتا جاتاہے تو پھر وہاں اصول‘ قاعدے اورضابطے پس پشت چلے جاتے ہیں اور بدعنوانی جڑ پکڑنا شروع کردیتی ہے‘ کھیلوں میں بھی جب سے پیسہ آیا تو پھر آہستہ آہستہ کھیل سے کھلواڑ شروع ہوگیا ۔ پہلے تو کھیلوں میں جذبہ‘ جوش اورجنون شامل ہوتا تھا‘ لیکن وقت کے ساتھ جب سپانسرز نے مختلف کھیلوں اورکھلاڑیوں کی سرپرستی شروع کی تو ہرکوئی خوش تھا کہ اب ‘معیار زیادہ بہتر ہوگا ‘کیونکہ کھلاڑی خوشحال ہوں گے تو زیادہ محنت اورلگن سے مقابلوں کی تیاری کرکے آئیں گے‘ لیکن بدقسمتی سے سپورٹس میں جوں جوں کمرشل ازم بڑھتاگیا‘ تو پہلے پہل کھلاڑیوں کاجنون جنگی طرز کاہوتاگیا اور مقابلہ جیتنے کیلئے اتھلیٹس نے ادویات اوردیگر ذرائع کاسہارا لینا شروع کردیا‘ پھر وقت کے ساتھ جب کرکٹ کے کھیل کوتیزی سے عروج ملنا شروع ہوا تو سپانسرز کو اس کھیل میں لوگوں کارجحان دیکھ کر زیادہ فائدہ نظرآیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کرکٹ کاکھیل دنیا کے کونے کونے تک دوسرے کھیلوں کی جگہ لینے میں کامیاب ہوگیا‘ جوں جوں پیسہ زیادہ ملوث ہوتاگیا تو کھیل میں منفی رجحانات بھی بڑھتے گئے ‘مافیاز مضبوط ہوتے گئے اور بات جنگی جنون سے جوئے تک پہنچ گئی۔ انفرادی کھلاڑیوں سے لے کر ٹیموں‘ بلکہ بعض شواہد کی بنیاد پرتو یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ اس بدعنوانی میں کئی ممالک کے منتظمین تک بھی ملوث دکھائی دیتے ہیں۔ اولمپکس سمیت دنیائے کھیل کے کئی عالمی مقابلوں میں شہرت کی بلندیوں کوچھونے والے کئی نامور اتھلیٹس ممنوعہ ادویات کااستعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے اورپابندیوں وسزائوں کاسامنا کرناپڑااور متعدد کو اپنے اعزازات سے بھی ہاتھ دھونا پڑگیا۔ 
پیسے کے لالچ میں کرکٹ کے تین بڑوں نے بھی مناپلی قائم کرنے کیلئے گٹھ جوڑ کرلیا‘جس کے بعد انگلینڈ‘ آسٹریلیا اورانڈیا کرکٹ کی دنیا میں 'بگ تھری‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔ کسی ملک کے ساتھ سیریز کھیلنے یا نہ کھیلنے میں من مانیاں شروع ہوگئیں‘ لیکن بات یہاں تک بھی رہتی توشاید قابل قبول تھی‘ بات میچوں کے نتائج تبدیل ہونے اورپھر ورلڈکپ جیسے سب سے بڑے اعزاز پر ڈکیتی تک پہنچ گئی۔ کہتے ہیں کہ زبان ِخلق کو نقارہ خدا سمجھو‘ پہلے یہ بات عام تھی کہ بگ تھری نے آخری تینوں کرکٹ ورلڈکپ بندربانٹ کے ذریعے آپس میں تقسیم کئے ‘ 2019ء میں آخری ورلڈکپ سے قبل ہی یہ خبریں سامنے آگئی تھیں کہ ٹرافی میزبان کے پاس ہی رہے گی ‘ پھر یہ سچ ثابت ہوا لیکن حالیہ دنوں میں سابق سری لنکن وزیر کھیل نے ورلڈ کپ 2011ء کے فکسڈ ہونے کادعویٰ کرکے کھیلوں کے شائقین کے خدشات کودرست ثابت کردیا‘ نو سال بعد سری لنکا کے سابق وزیر کھیل مہندا نند التھاگامیج نے چونکا دینے والا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ورلڈ کپ 2011ء کا فائنل میچ فکسڈ تھا‘ فائنل میچ سری لنکا جیت سکتا تھا‘ لیکن بھارت نے کامیابی حاصل کر لی‘ 2011ء کے فائنل میں بھارت نے سری لنکا کو سنسنی خیز فائنل میں چھ وکٹوں سے شکست دی تھی۔ سری لنکا نے چھ وکٹ پر 274 رنز سکور کیے تھے‘بھارت نے 49 ویں اوور میں ہدف چار وکٹوں پر حاصل کر لیا تھا۔ جے وردھنے نے 103 ‘جبکہ دھونی نے 91 رنز بنائے تھے۔ سری لنکا ٹیم کے کپتان کمار سنگاکارا تھے اور دھونی بھارت کی قیادت کر رہے تھے‘اسی طرح پھر 2015ء کاکرکٹ ورلڈکپ آسٹریلیا میں ہوا تو یہ ٹرافی میزبان ملک میں رہی‘ اس بارے بھی دنیا کے تحفظات موجود ہیں اور 2019ء کے آخری کرکٹ ورلڈکپ کے آغاز سے قبل ہی قارئین کو بتادیا تھا کہ اس بار بھی بگ تھری کی بندربانٹ کے تحت ٹرافی انگلینڈ میں رہے گی اورپھر وہی ہوا۔ اب‘ سری لنکا حکومت نے کرکٹ ورلڈ کپ 2011ء کے فائنل کی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے‘ جس کے متعلق انکشاف کیا گیا کہ سری لنکا نے یہ میچ بھارت کے ہاتھوں فروخت کردیا تھا‘ تاکہ سابق سپورٹس منسٹر مہندا آنندا الوتھ گماگے کے اس دعوے کی حقیقت سامنے آسکے کہ سری لنکن ٹیم کی بھارت کے ہاتھوں شکست فکسڈ تھی‘ جس میں کچھ مخصوص عناصر کا ہاتھ تھا۔سری لنکا کے وزیر کھیل دولاس الاہاپیروما اور سپورٹس سیکرٹری کے ڈی ایس روان چندرا نے وزارت کے انوسٹی گیشن یونٹ کو باضابطہ تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ اس حوالے سے ہونے والی پیشرفت سے متعلق ہر دو ہفتے کے بعد رپورٹ دی جائے ۔
ہمارے لیے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں پر بھی نا صرف میچ فکسنگ کے الزامات لگے ‘بلکہ متعدد نے تو اعتراف جرم بھی کیا۔ یہ الزامات سب سے زیادہ کرکٹ میں ہی نظرآتے ہیں اوراس کی وجہ پیسہ ہی ہے ‘جو دیگر کھیلوں کے مقابلے میں کرکٹ میں زیادہ ہے‘ لیکن کاش یہ پیسہ مثبت رجحان کو زیادہ فروغ دیتا۔ پاکستانی کرکٹرز سلیمان بٹ‘ محمدعامر‘ محمدآصف‘ سلیم ملک‘ دانش کنیریا اورشرجیل خان سمیت کئی کھلاڑی پابندیوں کاسامنا کرچکے ہیں‘ اکمل برادران پر بھی الزامات سامنے آتے رہے اورآج کل بھی عمراکمل پابندی کاسامنا کررہے ہیں ‘جبکہ ایسی خبریں بھی عام رہی ہیں کہ میچ فکسنگ اورسپاٹ فکسنگ میں ملوث کئی بااثر کھلاڑی ہمیشہ بچ جاتے ہیں اور کسی کمزور کوقربانی کابکرا بنادیاجاتاہے۔ 
پاکستان کی کھیلوں کی تاریخ میں جسٹس قیوم کی رپورٹ نے بھی بڑی شہرت پائی ‘لیکن اس رپورٹ پر بھی آج تک مختلف آراء سامنے آرہی ہیں؛ سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی نے جسٹس قیوم رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن نے محض تجاویز دی تھیں ‘مگر کوئی فیصلہ نہیں سنایا تھا اور وہ اس حوالے سے کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے کسی بھی فرد کو چیلنج کرنے کے لیے تیار ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ بدعنوانی کے خاتمے کے لیے جو نئے قوانین بنا رہا ہے‘ ان کی بنیاد پر ہی ملکی کرکٹ سے کرپشن کا خاتمہ ممکن ہے ۔
وزیراعظم عمران خان‘ صرف پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن اِن چیف ہی نہیں ‘بلکہ ورلڈچیمپئن ٹیم کے کپتان بھی رہے ہیں‘ جب انہیں حکومت ملی تو امید کی ایک کرن پیداہوئی کہ اب پاکستان کھیلوں میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرے گا اور دنیابھر کے میدانوں میں سبزہلالی پرچم لہرائے گا‘ مگر بدقسمتی سے پہلے دہشت گردی‘ پھر وسائل کی کمی اور اب کورونا وائرس نے کھیل کے میدانوں کوویران کررکھاہے ‘لیکن اب سابق سری لنکن وزیرنے میچ فکسنگ کاجو پنڈورا باکس کھول دیاہے تو وزیراعظم عمران خان کوبھی چاہیے کہ سپورٹس مافیاز پربھی ہاتھ ڈالیں‘ کیونکہ ان سے زیادہ حقائق کوئی نہیں جانتا‘ وہ بہتر جانتے ہیں کہ کھیلوں میں بدعنوانی کو کہاں سے اورکیسے روکناہے ‘لہٰذا اب قوم امید کرتی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کانعرہ لگاکر اقتدار حاصل کرنے والے وزیراعظم عمران خان کم ازکم کرکٹ سے توکرپشن کامکمل خاتمہ کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں