دنیا بھر میں کورونا وائرس قابو میں آتا جارہا ہے‘ جبکہ ہمارے ملک میں بے قابو ہوتا جارہاہے۔ شاید اس کی وجہ عوام اورحکومت دونوں کی جانب سے غیرسنجیدگی کامظاہرہ ہے‘ عوام کی تو بات ہی کیاہے‘ روزانہ ہمارے اردگرد ہزاروں افراد اس عالمی وبا سے متاثر ہورہے ہیں ‘جبکہ اموات کی اوسط شرح بھی سوا سو روزانہ تک پہنچ چکی اور ایک رپورٹ کے مطابق ‘پاکستان کورونا مریضوں کی بڑھتی ہوئی شرح کے لحاظ سے دنیا کے پہلے تین ممالک میں آچکاہے ‘جو کوئی مانے یانہ مانے ‘لیکن یہ ہماری ریاستی ناکامی کا منہ بولتاثبوت ہے۔ پاکستان میں اس موذی وبا نے قدم رکھے تو ایک طرف انتظامیہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق ‘ایس اوپیز پر عمل کرنے کی اپیل کررہی تھی تو دوسری جانب حکومتی شخصیات طفل تسلیاں دے رہی تھیں‘ پھر ملک بھر میں مرحلہ وار لاک ڈائون شروع ہوا تو بھی صرف کاروبار بند کرادئیے گئے‘ لیکن عوام کو کھلی چھٹی دے دی گئی‘ شٹرڈائون ہونے کی وجہ سے رمضان المبارک کے تیسرے ہفتے تک بازاروں میں رش تو کم رہا‘لیکن لوگوں کے گھروں سے باہرنکلنے پر پابندی نہ ہونے کے باعث سڑکوں پر ٹریفک کم نہ ہوئی ‘ گلی محلوں میں لوگوں نے سماجی فاصلے کاذرا بھی خیال نہ رکھا‘ ماسک کااستعمال بھی پچاس فی صد تک رہا ‘ پھر عید قریب آتے ہی حکومت نے اچانک لاک ڈائون میں نرمی کردی ‘ عوام تو پہلے ہی گھروں سے باہرتھے‘ بس بازار کھلنے کی دیرتھی کہ لوگوں نے ایس اوپیز کو پیروں تلے روند ڈالا ؛ چونکہ اس وقت تک کورونا کے ٹیسٹ کی سہولیات بھی کم تھیں اور پرائیویٹ بہت مہنگی تھیں‘ اس لیے جولوگ متاثرہوچکے تھے ‘وہ بھی ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مرض سے لاعلم تھے اورایسے متاثرین نے بازاروں میں عید شاپنگ کیلئے دھکم پیل کاحصہ بن کر ہزاروں شہریوں کووائرس لگادیا‘ جس کے نتائج عید کے چند روز بعد سامنے آنا شروع ہوگئے اور آج ہم اسی نرمی کاخمیازہ بھگت رہے ہیں ۔
دنیا تجربات اورمشاہدات سے سبق سیکھتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ انفرادی یااجتماعی غلطیوں کو دوبارہ نہ دُہرایاجائے ‘لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تلخ تجربات سے سبق سیکھنے کی بجائے صرف سیاست کی جاتی ہے اورایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں جس قدر اضافہ ہوا اوراموات کی شرح جس تیزی سے بڑھی ‘ ہم نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا اورنہ ہی سنجیدگی اختیار کی۔ کورونا وائرس کی وبا نے ایک عام گلی محلے سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک ہلچل مچا دی۔ سپیکرقومی اسمبلی اسدقیصر‘ وفاقی وزیرریلوے شیخ رشیداحمد‘ صوبائی وزیرراجہ راشدحفیظ‘ سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی‘ سابق وزیراعلیٰ پنجاب وصدر مسلم لیگ (ن) شہبازشریف‘ احسن اقبال‘ مریم اورنگ زیب‘ سعیدغنی‘ مرتضیٰ وہاب‘ متعدد ارکان اسمبلی ‘ کئی نامور صحافی‘ ڈاکٹر‘ وکلاء‘ تاجراورعام شہریوں سمیت قریباًدو لاکھ پاکستانی اس عالمی وبا سے متاثر ہوچکے ہیں۔انگلینڈ ٹور کی تیاریوں میں مصروف پاکستان کرکٹ ٹیم کے تین اہم کھلاڑی شاداب خان‘ حارث رئوف اورحیدرعلی بھی اس وبا کاشکار ہوچکے ہیں‘ کئی پارلیمنٹیرینز اور سیاسی رہنمائوں سمیت روزانہ کئی اہم شخصیات اس وبا کے ہاتھوں شکست کھا کر دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔چھوٹی عید سے قبل کاروبار کھلنے سے خوش افضل چچا بھی بازار کے رش میں وائرس کوگلے لگابیٹھے اورآج ہم میں نہیں رہے۔ رمضان المبارک اورعید کے موقع پر ہزاروں مستحق خاندانوں تک مفت راشن پہنچانے میں مصروف سیاسی شخصیت حاجی گلزاراعوان صاحب کوبھی اس عالمگیر موذی وبا کورونا وائرس نے نگل لیا ۔ ہمارے دائیں بائیں روزانہ اموات واقع ہورہی ہیں‘ لیکن پھر بھی یہ قوم سنجیدہ نہیں ہورہی۔
ہمارے وزیراعظم عمران خان ہمیشہ لاک ڈائون کے خلاف ہی بیان دیتے ہیں اورکہتے ہیں کہ سخت لاک ڈائون ہماری کمزور معیشت کوتباہ کردے گا‘ یقینا وزیراعظم صاحب کی نیت ٹھیک ہوگی ‘لیکن زمینی حقائق یہ کہتے ہیں کہ لاک ڈائون کے سوا کوئی چارہ نہیں ‘کیونکہ اگر زندگی ہی نہ رہی تو پھر معیشت کس کام کی؟ حکومت کی چھوٹی چھوٹی غلطیاں دیکھ کر کبھی کبھی گمان ہوتاہے کہ شاید ہمارے حکمران بھی سنجیدہ نہیں اورانہیں شہریوں کی جان سے زیادہ معیشت کی فکر لاحق ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں چین سمیت دنیابھر میں جتنے ممالک نے بھی اس وبا کو کنٹرول کیاہے۔ انہوں نے سخت لاک ڈائون کرکے ہی کورونا وائرس پرقابو پایا ہے اورجہاں بھی غیرسنجیدگی اورلاپروائی کامظاہرہ کیاگیا تو وہاں تباہی وبربادی مقدر بنی۔ پاکستان میں موجودہ حالات انتہائی سخت ہیں اورہرطرف تباہی پھیل رہی ہے ‘ حکومت نے ملک بھر میں ایک بار پھر سمارٹ لاک ڈائون کے نام پر مختلف علاقوں میں سخت لاک ڈائون کاسلسلہ شروع کردیاہے ‘جو دو ہفتوں کیلئے کیاجارہاہے ‘لیکن سب سے بڑا خطرہ جو اس وقت مستقبل قریب میں نظر آرہاہے‘ وہ بڑی عید (عیدالاضحی) کے موقع پر حکومت کی جانب سے پھر لاک ڈائون میں نرمی کامتوقع فیصلہ ہے اوراگر ایسا کیاگیا تو پھرخدانخواستہ حکومت کی یہ پیش گوئی بالکل صحیح ثابت ہوسکتی ہے کہ جولائی کے آخری عشرے میں کورونا وائرس کی وبا پاکستان میں اپنے عروج پر جاسکتی ہے اورلاکھوں افراد موت کی گود میں جاسکتے ہیں۔
بڑی عید پر اس لئے بھی بڑا خطرہ ہے کہ ایک طرف تو بازاروں میں پہلے جیسا رش جمع ہوسکتاہے اوروائرس پھر اس تناسب سے پھیلے گا تودوسری طرف قربانی کے جانوروں کی خرید وفروخت کیلئے مویشی منڈیوں میں آنے والے لاکھوں افراد کے متاثر ہونے کاخطرہ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔ ایک خبر یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس بار شاید مختلف شہروں میں بڑی منڈی مویشیاں لگانے کی بجائے مختلف علاقوں میں سیل پوائنٹ بنا دئیے جائیں‘ اگر ایسا کیاگیاتو یہ زیادہ خطرناک ہوسکتاہے‘ کیونکہ اس طرح شدید متاثرہ علاقوں کی تعداد بڑھے گی ‘ لہٰذا حکومت کوچاہیے کہ معیشت سے زیادہ عوام کی جان بچانے پرتوجہ دے۔ عیدالاضحی کے موقع پر عام بازاروں اور مویشی منڈیوں کیلئے سخت ایس اوپیز بنائی جائیں اور پھر ان پر سوفی صد عمل درآمد بھی کرایاجائے‘ کیونکہ اگر بازاروں میں کھلی چھوٹ دی گئی توپھر ہماری عوام نے چھوٹی اوربڑی عید میں کوئی تفریق نہیں کرنی اور وہی کچھ ہوگا‘ جس کے نتائج عید الفطر ہپر چھوٹ ملنے کی وجہ سے ‘ہم آج بھی بھگت رہے ‘ پھر اس بار بازاروں کے ساتھ قربانی کے جانوروں کی منڈیوں میں بھی بے پناہ رش ہوسکتاہے ‘اس لئے ڈبل خطرہ ہے۔
ایک اورتازہ خبر ہے کہ کورونا سے جاں بحق افراد کے ورثا غسل‘ جنازے اور تدفین میں شامل ہو سکیں گے‘ جبکہ میت کو تابوت میں رکھ کر دفنانے کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔عالمی وبا سے انتقال کرنے والوں کی تدفین کے معاملہ پر حکومت نے ایس او پیز میں نرمی کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی سفارشات این سی او سی کو ارسال کر دی ہیں۔پنجاب حکومت کی جانب سے بھجوائی گئی سفارشات میں کہا گیا ہے کہ اس وقت انتقال کرنے والوں کی تدفین تابوت میں رکھ کی جا رہی ہے‘ تاہم اب میت کو پلاسٹک میں کور کیا جائے گا۔اہل ِخانہ اور رشتہ دار بھی نماز جنازہ میں شریک ہو سکیں گے‘ جبکہ میت کو کندھا بھی دیا جا سکے گا۔ غسل کیلئے حفاظتی لباس کا استعمال کیا جائے گا۔ایس او پیز کے تحت میت کوچھونے کی اجازت نہیں ہوگی ‘تاہم ورثا اپنے پیاروں کا چہرہ دیکھ سکیں گے اور خاندان کے افراد میت کو غسل دے سکیں گے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کاکوئی عزیز کورونا وائرس سے انتقال کرجاتاتو انہیں تدفیق میں کئی قسم کی مشکلات کاسامنا کرنا پڑتاتھا اوریقینا یہ فیصلہ لوگوں کی مشکلات میں کمی کیلئے ہی کیاجارہاہے ‘تاہم فیصلہ سازوں کو یہ پہلو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ ایسی میت کوغسل دینے اورتدفیق میں ایس اوپیز پر مکمل عمل درآمد کیسے ممکن ہوگا ؟کیونکہ اگر ایس اوپیز کاخیال نہ رکھاگیاتو پھر لوگوں کی سہولت کیلئے کیاجانے والا یہ فیصلہ بھی خدانخواستہ مزید مشکلات کا سبب بن سکتاہے ‘لہٰذا اب ہمیں حقیقی معنوں میں سنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے عالمی ادارۂ صحت کی ہدایات پر من وعن عمل کرناہوگا۔