ہمارے ملک میں پٹرولیم مصنوعات جب اورجتنی بھی سستی ہوتی ہیں تو اشیائے ضروریہ سمیت کسی چیز کی قیمت کم نہیں ہوتی‘ لیکن اگر تیل کے نرخوں میں معمولی اضافہ بھی ہوجائے تو قیمتوں کوخودبخود پر لگ جاتے ہیں اورمہنگائی میں اضافہ ہوجاتاہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں منفی ہوگئیں تو پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات مرحلہ وار سستی کی گئیں‘ تیل کی قیمتوں میں چالیس روپے تک کمی واقع ہوئی‘ لیکن اس کافائدہ عام آدمی تک نہ پہنچ سکا۔ تیل اتنا سستاہوا تو ٹرانسپورٹیشن چارجز چالیس فی صد تک کم ہوگئے ‘لیکن ٹرانسپورٹ کرایوں میں کوئی خاص کمی نہیں کی گئی۔ کورونا لاک ڈائون کے دوران کاروبار بند ہوئے تو لوگوں کی مشکلات مزید بڑھ گئیں ‘ پہلے ہی مہنگائی وبیروزگاری سے ستائے عوام کے معاشی مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے‘ پھر جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں صفر سے بھی نیچے گرگئیں تو غریب عوام کے لئے امید کی ایک کرن پیداہوئی کہ اب پاکستان میں بھی تیل سستاہونے پر ہرچیز کی قیمت میں کمی واقع ہوگی اور مہنگائی کاخاتمہ ہوگا‘ لیکن حسبِ روایت ایک عام پاکستانی شہری کایہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ‘ تیل سستابھی ہوا لیکن مہنگائی کازور نہ ٹوٹا‘ فضائی پابندیوں کے باعث جہازوں کے کرائے میں کمی بارے توکسی نے سوچاہی نہیں تھا‘ لیکن پاکستان ریلوے نے بھی‘ جو کہ ایک سرکاری محکمہ ہے ‘ ٹرین کرایوں میں کمی یہ کہہ کر مسترد کردی کہ کورونا وائرس کے باعث پچاس فی صد بکنگ کی جارہی ہے اورایسی صورتحال میں کرایہ کم کریں تو خسارہ بہت زیادہ بڑھ جاتاہے اور تنخواہوں کی ادائیگی بھی ممکن نہیں رہے گی۔جب ریلوے ہی کرائے کم کرنے سے انکار کردے تو پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیوں سے کیا امید کی جا سکتی ہے؛چنانچہ مقامی اورانٹرسٹی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی کورونا ایس اوپیز کی آڑ لے کر کم نہیں کئے گئے حالانکہ بسوں‘ ویگنوں اوردیگر پبلک ٹرانسپورٹ میں ایس اوپیز کی کھلی خلاف ورزی عام دیکھی جاسکتی ہے اور دو سیٹوں پر ایک سواری بٹھانے کی بجائے اوور لوڈنگ سر عام جاری ہے‘ لیکن کرایہ کم نہیں کیاجا رہا۔
بعض نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے سستا تیل خرید کر ذخیرہ کرلیا اور ملک بھر میں سپلائی روک دی اورصرف سرکاری آئل مارکیٹنگ کمپنی پی ایس او کے پٹرول پمپوں پرہی پٹرول کی مسلسل سپلائی جاری رہی۔ آئل مارکیٹنگ کی اس بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے ملک بھر میں پٹرولیم مصنوعات کا مصنوعی بحران پیداہوگیا اور پٹرول کی مصنوعی قلت کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کرائے کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گئے ۔ایک طرف ٹرانسپورٹ کی کمی تھی تودوسری طرف رکشہ اورٹیکسی کے کرائے بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوگئے تھے اور پٹرول سستاہونے کے باوجود ٹیکسی ڈرائیوروں کے پاس پٹرول کی قلت کابہانہ موجودتھا۔پھر آخر کار وہی کچھ ہوا جس کے خدشے کااظہار کیاجارہاتھا ‘ یکم جولائی سے قبل ہی اچانک پٹرول کی قیمت میں یکدم پچیس روپے فی لٹر اضافہ کردیاگیا‘ عوام حکومت کے اس فیصلے پر حیران وپریشان تھے کہ ابھی تک تیل کی قیمتوں کافائدہ عام آدمی تک پہنچا ہی نہیں تھا کہ مہنگائی کابم گرادیاگیا۔ پھر ایک امید کی کرن پیداہوئی کہ شاید حکومت یکم جولائی سے پٹرولیم لیوی میں کمی کرے گی‘ جس سے قیمت پھر کم ہوگی اورشاید عوام کوریلیف ملے لیکن یہ بھی خام خیالی ثابت ہوئی اور حکمرانوں نے عوام کے زخموں پرمرہم نہ رکھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے حکومت کو آگاہ کیا تھا کہ اس سے انہیں مالی نقصان ہو گا۔ مزید ستم یہ کیا گیاکہ تیل کے بعد ایل پی جی کے نرخ بھی بڑھا دئیے‘ یوں ٹرانسپورٹروں سمیت ہرکسی کو مہنگائی کاایک جواز بھی فراہم کردیا۔
ادھر تیل مہنگا ہوا تو اُدھر آئل کمپنیوں نے سستا خریداہوا تیل مہنگے داموں فروخت کرنے اورراتوں رات اربوں روپے منافع حاصل کرنے کے لئے ذخیرہ شدہ تیل کی سپلائی بحال کردی ‘جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ملک میں تیل کی قلت مصنوعی طور پر پیداکی گئی تھی ‘ ذرائع کاکہناہے کہ ذخیرہ اندوزی کرنے پر جن کمپنیوں کو چند کروڑ روپے جرمانہ کیاگیا انہوں نے نرخ بڑھنے پر راتوں رات اربوں روپے کمالئے۔دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتے ہی ملک بھر میں ٹرانسپورٹروں نے من مانیاں شروع کردی ہیں اور کرایوں میں فوری طور پر ازخود اضافہ کردیاہے۔ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی سمیت متعلقہ محکمے صرف دکھاوے کی کارروائیاں ہی کررہے ہیں‘ جبکہ عملی طورپر ٹرانسپورٹروں کوکھلی چھٹی ملی ہوئی ہے کہ وہ مرضی کاکرایہ وصول کریں۔ پٹرول کی قیمت میں تقریباًچالیس روپے تک کمی کے باوجود کرایہ کم نہ کرنے والے گاڑی مالکان نے تیل مہنگا ہونے پر ازخود کرائے بڑھادئیے ہیں۔کرائے میں اضافے پر لوگ سراپا احتجاج توہیں لیکن ان کے احتجاج کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا کیونکہ حکومت کی طرف سے آج تک کسی مافیا کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہ ہونے پر ملک میں آئے روز نیا سے نیا مافیا سامنے آرہاہے اور جس مافیا کے بھی کرتوت دیکھیں تو وہ پہلے سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ملک میں ادویات‘ آٹا اورچینی مافیا کے خلاف بروقت اور مؤثر کارروائی ہوئی ہوتی تو پھر شاید پٹرول مافیا کوبھی اتنی دیدہ دلیری سے مصنوعی قلت پیدا کرنے کی ہمت نہ ہوتی اور اگر عوام کو چند ماہ ہی سستے تیل کافائدہ پہنچاہوتا توان کے معاشی حالات میں ضرور کچھ نہ کچھ بہتری آئی ہوتی۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتے ہی پاکستان بھر میں مہنگائی کا جن بے قابو ہوچکاہے ‘ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ٹرانسپورٹروں نے اندرون و بیرون شہر کرایوں میں من مانے اضافے کر دیئے ہیں‘ ٹرانسپورٹ چارجز بڑھنے کی بدولت پھلوں اورسبزیوں سمیت مختلف اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھنے لگی ہیں۔
ملک میں مہنگائی کاجن اس قدر بے قابوہے کہ چینی کی قیمت میں راتوں رات مرضی سے اضافہ توکردیاگیا لیکن پھر اس کے نرخ کم نہیں کئے جاسکے۔ جب چینی فی کلوگرام 80روپے تھی تو حکومتی اقدامات سامنے آئے‘ لیکن غریب کی پریشانی میں اس وقت اضافہ ہوگیاجب قیمت 80روپے سے کم ہونے کی بجائے 85روپے تک پہنچ گئی۔ شوگر کمیشن کی رپورٹ تو کسی طرح سامنے آگئی لیکن کسی ذمہ دار کے خلاف آج تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی اور نہ ہی چینی کے نرخ دوبارہ کم ہوسکے‘ اسی طرح آٹا مافیا نے بھی بھاری منافع کما لیا اور جب چاہیں مصنوعی قلت پیدا کرکے اپنا ٹارگٹ پورا کرلیتے ہیں۔ آئی پی پیز مافیا تو اتنا طاقتور ہے کہ ان کے خلاف کارروائی کے لئے تو کسی نے توقع ہی نہیں رکھی ۔ اب بھی ذرائع یہی کہتے ہیں کہ بالآخر حکومت اس طاقتور مافیا کے ساتھ مذاکرات کا راستہ ہی اختیار کرنے پرمجبور ہوگی۔
اسی طرح پٹرول مافیا کوبھی معمولی جرمانہ کرکے جس طرح ان کے عوام دشمن اورغیرقانونی اقدام کوقانونی تحفظ دیاگیا اس کی مثال بھی نہیں ملتی۔ ملک میں جب بھی ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کاآغاز ہوتاہے تو آٹا‘ چینی‘ گھی اور دیگر اشیائے ضروریہ کے ہول سیل ڈیلروں کے گوداموں پر توچھاپے مار کر نہ صرف ان کاسٹاک ضبط کرلیاجاتاہے بلکہ تاجروں کے خلاف مقدمات درج کرکے بھاری جرمانے بھی کئے جاتے ہیں‘ لیکن ذخیرہ اندوزی کرنے والی آئل کمپنیوں کو چند کروڑ روپے جرمانہ کرکے اربوں روپے کی ناجائز منافع خوری کو قانونی تحفظ دے دیاگیا ہے ‘جس سے بااثر مافیاز کومزید تقویت ملے گی اورمہنگائی کاجن مزید بے قابو ہوتا چلاجائے گا۔تیل کی قیمتوں میں اضافے کے لئے حکومت نے جو طریقہ اختیار کیا ہے‘ اس سے ملک میں لاقانونیت اور بلیک مارکیٹنگ کی حوصلہ افزائی ہو گی جس سے معاشرے میں شدید بے چینی پیدا ہو گی۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے اس فیصلے کے منفی اثرات کا ازالہ کرنے کے لیے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کے خلاف مثالی کارروائی کرے۔