مائنس تھری؟

یہ صرف پی ٹی آئی یاوزیراعظم عمران خان ہی کامسئلہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی جتنی حکومتیں گزری ہیں اورجتنے بھی سیاسی حکمران برسراقتدار رہے ہیں‘ ان کو بھی کسی نہ کسی طرح مائنس ون جیسی مشکلات کاسامنا کرناپڑا۔ کسی کو تحریکِ عدم کاسامنا کرناپڑا تو کسی کو عدالت میں اپنی صفائی پیش کرناپڑی‘ کوئی سرخرو ہوا تو کسی کو گھر جانا پڑا ‘ کئی منتخب حکمرانوں کو ایوانِ اقتدار سے نکل کر جیل کی کوٹھڑی میں ٹھکانہ ملا‘ غرض پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) سمیت تمام سابق حکمران جماعتوں کو اقتدار بچانے کے لیے بڑے بڑے مسائل کاسامنا کرناپڑا اورکئی وزرائے اعظم انہی مسائل کاشکار بھی ہوئے۔ 
آج کل مائنس ون کی آوازیں پھر بلند ہوتی سنائی دے رہی ہیں‘ بلکہ اس حد تک پھیل چکی ہیں کہ متعدد وزراء کو ان چہ میگوئیوں کادفاع کرناپڑ رہاہے‘ جبکہ وزیراعظم عمران خان نے بذات خود بھی اس پر گفتگو کی ہے۔ایک تصور یہ ہے کہ جب کوئی بھی بات اس طرح زبانِ خلق پر آجاتی ہے تو پھر اس کاکچھ نہ کچھ نتیجہ ضرور نکلتاہے‘ موجودہ حالات بھی اس جانب اشارہ کررہے ہیں کہ آئندہ چند ہفتے اورخصوصاً عیدالاضحی کے بعد ملک میں سیاسی ہلچل شروع ہونے کا خدشہ واضح ہے۔ اپوزیشن مائنس ون کاپرزور مطالبہ کررہی ہے تو پی ٹی آئی بار بار سختی سے رد کررہی ہے‘ لیکن اسی دوران وزیرریلوے شیخ رشیداحمد کایہ انوکھا بیان سامنے آنا کہ 'اب اگر مائنس ہوا تو مائنس ون نہیں بلکہ مائنس تھری ہوگا‘ تمام سیاسی وعوامی حلقوں میں موضوع بحث بن چکاہے۔ ہر کوئی مائنس تھری کی اپنی تشریح کر رہا ہے اور اس بارے میں اپنی اپنی مرضی کی فہرست تیار کررہاہے اور ہرکوئی اپنی خواہش کے مطابق گنتی گن رہاہے۔ اپوزیشن کی جانب سے مائنس ون کامطالبہ تو یقیناوزیراعظم عمران خان کوتبدیل کرنے کی خواہش کااظہار تھا‘یہ الگ بات کہ قومی اسمبلی میں حالیہ وفاقی بجٹ کی منظوری کے وقت بھی متحدہ اپوزیشن کو اپنی طاقت کااندازہ ہوچکاہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانا اپوزیشن کے بس کی بات نہیں‘ لیکن جب اس طرح کی تحریکیں زور پکڑتی ہیں تو ان کے پس پردہ بھی کچھ نہ کچھ ہوتا ہے ‘یعنی کچھ تو ہوتا ہے جب خلق خدا کچھ کہتی ہے۔اب بھی عام آدمی کچھ ایسا ہی سوچ رہاہے ۔ 
سیاسی حلقوں کے بیانات میں بات مائنس ون سے مائنس تھری تک جاپہنچی ہے‘ لیکن ابھی یہ معاملہ سمجھ میں نہیں آرہاکہ مائنس ٹو اور تھری ہے کیا؟سوشل میڈیا کے کئی دانشور مائنس تھری کی فہرست میں کبھی وزیراعظم کے ساتھ صدر مملکت کو بھی شامل کرلیتے ہیں تو کبھی وزیراعلیٰ پنجاب کو‘ یعنی ہرکوئی اپنی سوچ ‘ سمجھ اور پسند نا پسند کے مطابق ون‘ ٹو ‘ تھری کی فہرست تیار کررہاہے‘ لیکن سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے حلقے مائنس تھری سے مراد پاکستان پیپلزپارٹی‘ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف لے رہے ہیں۔ سیاسی حلقے شیخ رشید کے اس بیان کی تشریح کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ اب اگر مائنس ون کی نوبت آئی تو پھر صرف وزیراعظم صاحب ہی تبدیل نہیں ہوں گے بلکہ پورے سیاسی منظر ہی بدل جائے گا‘ مگر اس کے آثار فوری طور پر نظر نہیں آرہے‘ تاہم یہ ضرور کہاجارہاہے کہ پی ٹی آئی کے پاس عمران خان صاحب کے متبادل کوئی قیادت نہیں ‘ لہٰذا جب تک پاکستان تحریک انصاف برسراقتدار رہے گی تو اقتدار کی کرسی پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان ہی رہیں گے اور اگر عمران خان صاحب کے مائنس کاوقت آگیا تو اس کا مطلب مائنس پی ٹی آئی ہی ہوگا۔ 
سیاسی حلقوں کے مطابق ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلزپارٹی اورپاکستان مسلم لیگ (ن) تو پہلے ہی طاقتور حلقوں کی نظر میں مائنس ہوچکی ہیں اورمستقبل قریب میں ان کی باری آنے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا اور اگر عیدالاضحی کے بعد ملک میں سیاسی گرماگرمی کچھ زیادہ بڑھتی بھی ہے اور آگے چل کر حالات تبدیلی کی طرف جاتے ہیں تو پھر مائنس ون کی بجائے مائنس پی ٹی آئی کی نوبت بھی آسکتی ہے ‘ اورچونکہ مائنس ٹو توپہلے ہی ہوچکاہے لہٰذا اب یہ تیسری جماعت مائنس ہونے کے بعد مائنس تھری کی گنتی مکمل ہوجائے گی۔ 
سوال یہ پیداہوتاہے کہ پاکستان میں پہلے دو ہی بڑی سیاسی قوتیں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) تھیں جو باری باری اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھیں‘ پھر عوام تبدیلی لائے اور مذکورہ دونوں سیاسی جماعتوں کومائنس کرکے پاکستان تحریک انصاف تیسری بڑی سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئی‘ لیکن جس منشور یا جن انتخابی وعدوں اورنعروں پر عوام نے پی ٹی آئی کوووٹ دیے تھے وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے ‘ نہ تو عوام کوروزگار ملا اورنہ ہی کسی بھی سطح پرکرپشن کم ہوئی اورنہ ہی میرٹ کابول بالاہوا ‘ الٹا لاکھوں ملازمین بے روزگاری کی بھینٹ چڑھ گئے ۔آٹا اورچینی مافیا نے اربوں روپے کمالئے‘ پٹرول مافیا نے بھی راتوں رات اربوں روپے کاڈاکہ ڈال لیا‘ پٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کافائدہ بھی عوام تک نہ پہنچا اور نہ ہی شوگر کمیشن کی رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد عام مارکیٹ میں چینی کی قیمت کم ہوئی‘ جس کے بعد عوام سخت مایوسی کاشکار ہیں اور موجودہ حکومت سے آہستہ آہستہ بیزار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں‘ یوں نظر آرہاہے کہ حکومت عوام میں مقبولیت کھو رہی ہے اور شاید وہ دن بھی آجائیں جب عوامی سطح پربھی مائنس پی ٹی آئی کامطالبہ سامنے آجائے‘ لیکن یہ سوال پھر وہیں موجود ہے کہ مائنس تھری کے بعد وہ کون سی چوتھی سیاسی قوت ہوسکتی ہے جسے اقتدار منتقل کیاجائے گا یاکیاجاسکتاہے؟اگر آپ آج سے چند ہفتے پہلے کے قومی اخبارات اٹھا کردیکھیں تو آپ کو کئی وزراء کی جانب سے صدارتی نظامِ حکومت کے حق میں بیانات ملیں گے‘ ان بیانات پر غور کریں تو ان کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور دکھائی دیتی ہے کیونکہ برسراقتدار وزراء جمہوری پارلیمانی نظام کی بجائے اگر صدارتی نظام کی بات کررہے ہیں تو اس کامطلب ہے کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے‘ جبکہ وزیر ریلوے کے بیان کے بعد تو ساری دال ہی کالی دکھائی دینے لگی ہے‘ اور اب تو عوام مخلوط یا قومی حکومت کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ 
ایک بات طے ہے کہ ملک میں مارشل لاء کا توبالکل امکان نہیں اورہماری بہادر مسلح افواج کی ساری توجہ ملکی دفاع اور تعمیروترقی پرمرکوز ہے۔ فوجی قیادت ملک کی تعمیروترقی اوراستحکام کے لیے سول حکومت کے شانہ بشانہ ضرور کھڑی ہے‘ لیکن حکومتی معاملات میں مداخلت کے حق میں نہیں اور مائنس تھری کی صورت میں اقتدار میں فوجی مداخلت کا ہرگز کوئی امکان نہیں۔ زیادہ امکان یہ قومی حکومت کی صورت میں مخلوط سیاسی قیادت کو اقتدار سونپا جاسکتاہے‘ لیکن فی الحال یہ ساری باتیں قبل ازوقت ہیں کیونکہ عام آدمی کی یہی خواہش ہے کہ موجودہ حکومت اپنی اداؤں پر غور کرے‘ مافیاز کو کھلی چھٹی دینے اورصرف سیاسی بیان بازی سے عوام کو بیوقوف بنانے کی بجائے آٹا اورچینی مافیا کے خلاف ایسی ٹھوس کارروائی کی جائے جونظر بھی آئے۔ پٹرول بحران کی ذمہ دار کمپنیوں کومعمولی جرمانے کرنے کی بجائے نشان عبرت بنانا چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی جرأت نہ ہو۔ حکومت خود مافیا کی کارستانیوں کی شکایات کرتی ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے ان مافیاز کے تدارک کے لیے اب تک کیا کیا گیا ہے؟مہنگائی کم کی جائے‘ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت لائی جائے‘ لوگوں کوروزگار دیاجائے‘ عام انتخابات میں کئے گئے وعدے پورے کئے جائیں تاکہ عام آدمی تک ریلیف پہنچ سکے اورتبدیلی کے مثبت اثرات سامنے آسکیں۔
عوام آج بھی وزیراعظم عمران خان سے بڑی توقعات رکھتے ہیں اوریہ سمجھتے ہیں کہ اگر ملک میں کوئی انصاف کابول بالا کرسکتاہے تو وہ عمران خان صاحب ہی ہیں‘ لیکن اب وقت کم اورمقابلہ سخت ہے‘ عوام کے زخموں پرمرہم نہ رکھاگیاتو کورونا وائرس‘ لاک ڈائون‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور غیریقینی صورتحال سے عاجز عوام کاغصہ کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ سکتاہے اور مائنس تھری والی بات بھی سچ ثابت ہوسکتی ہے‘لہٰذا وزیراعظم صاحب کو منتخب ارکان اوراتحادی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فیصلے کرناہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں