ایک توہماری قدیم شہری آبادیاں اس بے ہنگم طریقے سے قائم ہوئی ہیں کہ بعض پرانی گلیوں میں آمنے سامنے سے دوافراد کوپیدل کراس کرنے کے لئے ریلوے پھاٹک کی طرح باری سے گزرناپڑتا ہے اوراگر دونوں بے صبرے ہوں تو کم ازکم کہنی کی ٹکر ضرور ہوتی ہے۔ بعض قدیمی گھر تو اس طریقے سے بنے ہوئے ہیں کہ ان کاراستہ بھی ہمسائے کے صحن سے گزرتا ہے، جب گلیوں میں پیدل گزرنے والوں کی آسانی کاخیال نہیں رکھا جاتا تھاتو پھر گاڑی کے گزرنے یاکراسنگ کاکس نے سوچاہوگا؟ قدیمی رہائشی محلے اوران سے ملحقہ بازارآج بھی تنگ وتاریک گلیوں پرمشتمل ہیں، گلی یامحلے میں پارکنگ ایریا تو دور کی بات‘ گاڑی کاگھر کے دروازے تک پہنچنا بھی آسان نہیں ہوتاتھا، نکاسیٔ آب کانظام تو سرے سے تھاہی نہیں۔ پاکستانی میں شاید وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سوا کوئی ایسا شہر نہیں جو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت تعمیر کیاگیاہو۔ ہاں! البتہ اب شہروں سے باہر جدید رہائشی سوسائٹیوں کوآباد کرنے کارواج زورپکڑ رہاہے اوراس کی وجہ بھی گنجان آبادیوں کے سنگین وپیچیدہ مسائل ہیں جونئی نسل کی سائنسی زندگی میں کسی رکاوٹ سے کم نہیں۔
مسئلہ صرف تنگ وتاریک گلیوں کاہی نہیں‘ بعض پرانی آبادیوں میں بھی وسیع وکشادہ راستے اورسڑکیں موجود ہیں جہاں سے دو‘ دو ٹرک بھی بیک وقت گزر سکتے تھے لیکن وقت کے ساتھ جوں جوں شہری زمین کی مالیت بڑھتی گئی تو تجاوزات وقبضہ مافیا بھی سرگرم ہوتاچلاگیا اور تجاوزکنندگان نے شہروں کی مختلف سڑکوں، گلیوں، فٹ پاتھوں، بازاروں، پارکنگ ایریاز اورسرکاری اراضی پر پہلے عارضی تجاوزات قائم کیں اورپھر کئی جگہوں پرتو پٹرول پمپ اورپلازے تک بنا لیے۔یہ مسائل صرف قدیمی آبادیوں تک ہی نہیں بلکہ راولپنڈی، لاہور اور کراچی سمیت ملک بھر کے تمام شہروں تک پھیل چکے ہیں بلکہ اب تو تجاوزات مافیا پوش علاقوں میں بھی پوری طرح قدم جما چکاہے اور اب آپ کو پوش علاقوں اورجدید کاروباری مراکز میں بھی گاڑی پارک کرنے کی جگہ تلاش کرنے کے لئے کئی چکر لگانا پڑتے ہیں ۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق راولپنڈی شہر وکینٹ کے 70فیصد سے زائد کمرشل پلازوں کے نقشہ جات میں بیسمنٹ کو پارکنگ ایریا ظاہر کیا گیا ہے لیکن بعد میں بیسمنٹ میں بھی پارکنگ کی جگہ دکانیں بنا کر فروخت کردی گئیں یا کرائے پر دے دی گئیں۔ اب متعدد کثیرالمنزلہ عمارات میں پارکنگ موجود ہی نہیں، مجبوراً شہریوں کو سڑک پریا کہیں دور دراز گاڑی پارک کرناپڑتی ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے چوری ہونے کی وارداتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لالچ واقعی بری بلاہے! پلازا مالکان نے لالچ میں آکر نقشے میں ظاہرکی گئی پارکنگ میں بھی تجاوزات قائم کرکے دراصل اپنی ہی جائیداد کی قیمت کم کردی ہے، جن پلازوں یا کاروباری مراکز میں پارکنگ کی بہتر سہولت موجود ہے، وہاں خریدار بھی اطمینان سے جاتے ہیں اورکاروبار بھی اچھا ہوتا ہے لیکن جن علاقوں میں تجاوزات مافیا نے سڑکوں اور بازاروں پہ قبضہ جما رکھا ہے، وہاں لوگ محض کسی مجبوری کے تحت ہی جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ تجاوزات مافیا کو اکثر و بیشتر مختلف سرکاری اداروں اور محکموں کی مکمل اشیرباد حاصل ہوتی ہے، جس کاایک ثبوت یہ ہے کہ جب بھی کوئی شریف آدمی اپنی ذاتی ملکیت والی جگہ پرگھر، دکان یافلیٹ تعمیر کرتا ہے تو اسے بجلی وگیس کے کنکشن کے حصول کے لئے بڑی خواری کاسامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی کئی ماہ بلکہ سال ہا سال انتظار کی زحمت بھی اٹھانا پڑتی ہے لیکن راولپنڈی جیسے شہر میں کئی جگہوں پر ریڑھی یا عارضی سٹال لگانے والے تجاوز کنندگان نے کسی بھی قسم کی ملکیتی دستاویزات کے بغیر نہ صرف بجلی کے کنکشن لگوا رکھے ہیں بلکہ بعض کو تو گیس کے کنکشن بھی میسر ہیں اورپھر انہی یوٹیلٹی بلز کی بنیاد پر اپنا قبضہ ظاہر کرکے سرکاری یاقبضہ شدہ اراضی غیرقانونی طورپر آگے فروخت کر دی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک الگ معاملہ ہے؛ تاہم ہمارا مقصد تجاوزات سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی ہے۔
راولپنڈی شہر و کینٹ کے مختلف علاقوں کاجائزہ لیا جائے تو راجہ بازار، باڑہ مارکیٹ، نرنکاری بازار، گنجمنڈی، اردو بازار، بوہڑ بازار، صرافہ بازار، اقبال روڈ، کمرشل مارکیٹ، صادق آباد، مسلم ٹائون، پیر ودھائی، سرسید چوک، ڈھوک کھبہ، کمیٹی چوک، صدر، گوالمنڈی، ٹینچ بھاٹہ، مصریال روڈ، ریلوے روڈ، بکرا منڈی، چونگی نمبر 22، سرکلر روڈ، سمیت متعدد علاقے قبضہ و تجاوزات مافیا کے کنٹرول میں ہیں اوران علاقوں میں تجاوزات کے باعث ہروقت ٹریفک جام رہنا ایک معمول بن چکاہے۔ اسی باعث آئے روز حادثات پیش آرہے ہیں جن میں مالی نقصان کے ساتھ قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہورہی ہیں۔
شہرمیں میٹروپولیٹن کارپوریشن جبکہ چھائونی کے علاقوں میں راولپنڈی اورچکلالہ کنٹونمنٹ بورڈز کے انسداد تجاوزات شعبوں کے ٹرک بھی نظرآتے ہیں لیکن ہرروز صبح سے شام تک یہ ٹرک بازاروں میں موجود رہنے کے باوجود آج تک تجاوزات میں کمی کے بجائے روزبروز اضافہ ان محکموں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ سابق دور میں راولپنڈی شہرکے گنجان آباد بازاروں میں تجاوزات کے سدباب اورروک تھام کے لئے میونسپل چوکیاں بھی قائم کی گئی تھیں، جن کے لئے لاکھوں روپے کے کیبن تیار کئے گئے تھے اورعارضی طورپر عملہ بھی تعینات کیاگیاتھا لیکن پھر ان چوکیوں کانام ونشان بھی مٹ گیا مگر تجاوزات مافیا وہیں کاوہیں ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے بھی راولپنڈی شہرمیں تجاوزات کے خلاف نوٹس لیا، انتظامیہ اورپولیس کوتجاوزات کے خاتمے کاحکم دیا، کئی سال تک اس کیس کی سماعت ہوتی رہی، اس نوٹس کا بہت زیادہ فائدہ بھی ہوا، شہر سے ہزاروں کی تعداد میں تجاوزات ختم بھی کی گئیں، سڑکوں پرقائم پختہ تجاوزات مسمار ومنہدم کی گئیں، گلیوں وبازاروں میں قائم غیرقانونی پختہ تھڑے بھی ختم کئے گئے، ہزاروں شیڈز مسمار کئے گئے، کئی بازار اورسڑکیں کشادہ بھی ہوگئیں، انتظامیہ کے افسران روزانہ اورہفتہ وار بنیادوں پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع کراتے رہے، شہریوں نے ایک بار سکھ کاسانس بھی لیا اورعدالت کودعائیں دیں لیکن جس دن سے عدالت نے یہ کیس نمٹا دیا اور سماعت ختم ہوئی‘ آہستہ آہستہ تجاوزات مافیا نے مبینہ طورپر سرکاری اہلکاروں کی ملی بھگت سے دوبارہ تجاوزات قائم کرنا شروع کردیں اور آج پھر شہرکے متعدد بازاروں سے پیدل گزرنا محال ہے خصوصاً خواتین اوربچوں کاگنجان آباد بازاروں میں جانا آسان نہیں رہا۔
موجودہ حالات میں جب پوری دنیا کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑرہی ہے، سماجی فاصلے سمیت مختلف ایس اوپیز پر عمل درآمد پر زور دیاجارہاہے تو اس صورتحال میں بھی بازاروں میں تجاوزکنندگان نے سماجی فاصلے کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے لوگوں کے لئے پیدل چلنا بھی محال کررکھاہے۔ رش اوررکاوٹوں کے باعث کورونا وائرس پھیلنے کے خطرات میں بھی اضافہ ہوگیاہے اور اس کاعملی نمونہ ہم عیدالفطر پر راولپنڈی کے راجہ بازار سمیت مختلف کاروباری مراکز میں دیکھ چکے ہیں جہاں لوگوں کے ہجوم نے کووڈ19کے بم کوپھاڑا اور ایک دم متاثرین کی تعداد میں اتنااضافہ ہوا کہ ہسپتالوں میں جگہ کم پڑگئی۔ آج بھی کورونا کی شدت کم ضرور ہوئی ہے لیکن وائرس ابھی ختم نہیں ہوا اوراگر تجاوزات مافیا کولگام نہ دی گئی اور قبضہ مافیا اسی طرح پھیلتاگیا تو نہ صرف لوگوں کے دیگر مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوگا بلکہ اس سے عالمی وبا کے دوبارہ پھیلنے کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں اور خدانخواستہ ہمیں دوبارہ سنگین صورتحال کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ بظاہرتو یہی نظرآتاہے کہ عدلیہ کوہی دوبارہ نوٹس لیناپڑے گا ورنہ متعلقہ عملے سے توقعات وابستہ کرنا شاید عقلمندی نہ ہوگی۔