انتظار ختم‘ نیا امتحان شروع

ملک بھر میں تعلیمی ادارے پہلے مرحلے میں کھل گئے ہیں اور 187 دنوں کے بعد تعلیمی سرگرمیوں کا دوبارہ باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔ تدریسی عمل کی بحالی بڑی کلاسوں سے ہوئی، سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں ماسک، ہینڈ سینی ٹائزر اور فاصلہ برقرار رکھنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں۔ درسگاہوں میں تعلیم و تربیت کے لئے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرل سنٹر نے ایس او پیز جاری کر دیے ہیں جن کے مطابق والدین بچوں کو ماسک پہنا کر بھیجیں گے۔ کھانسی یا بیماری کی صورت میں طلبہ کو ہرگز سکول نہیں بھیجا جائے گا۔ اگر طبیعت زیادہ خراب ہو تو فوری کورونا ٹیسٹ کروایا جائے گا۔ بچے کا کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں فی الفور تعلیمی ادارے کو مطلع کیا جائے گا۔ طلبہ و طالبات ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھیں گے۔ ہاتھ با قاعدگی سے دھوتے رہیں گے۔ این سی او سی نے سکولوں کے لئے بھی ہدایات جاری کی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے درمیان سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچے اپنے ہاتھ باقاعدگی سے دھوتے رہیں اور ہینڈ سینی ٹائزر کا استعمال کریں۔ فیس ماسک کا استعمال لازم قرار دیں۔ ڈرائیور حضرات جو بچوں کو اسکول یا کالج لے کر جاتے ہیں‘ وہ اپنی گاڑیوں میں سماجی فاصلہ یقینی بنائیں۔ گاڑی میں بٹھاتے وقت یقین کریں کہ بچوں نے فیس ماسک پہنے ہوں۔ پنجاب کے وزیر ہائر ایجوکیشن راجہ ہمایوں یاسر کے مطابق ایک ڈیسک پر دو طلبہ نہیں بیٹھیں گے۔ کلاسز روزانہ ہوں گی، متبادل دنوں کی کوئی پالیسی نہیں ہو گی۔
بات یہاں تک تو بڑی تسلی بخش ہے، سرکاری و نجی تعلیمی اداروں نے بظاہر انسدادِ کورونا وائرس کے لئے انتظامات بھی اچھے خاصے کر رکھے ہیں، حکومت بھی احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عمل درآمد کروانے کے لئے مسلسل ہدایات جاری کر رہی ہے اور پُرعزم دکھائی دیتی ہے، طلبہ و طالبات بھی طویل چھٹیوں کے بعد بڑے اہتمام کے ساتھ خوشی خوشی سے کالجز و یونیورسٹیوں میں گئے، اس طرح طویل، کٹھن اورصبر آزما انتظار تو ختم ہوا اور تدریسی عمل کا پہلا مرحلہ شروع ہو گیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی اور دوسروں کی جان کورونا وائرس سے بچانے کے لئے ایس او پیز پر سو فیصد عمل درآمد کا امتحان بھی شروع ہو چکا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے اعلانات پر عمل کرانے میں کتنی دلچسپی لیتی ہے۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کہاں تک سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے، والدین بچوں کی رہنمائی کس انداز سے کرتے ہیں اور سب سے اہم‘ طلبہ خود احتیاطی تدابیر کو کہاں تک اور کب تک برقرار رکھتے ہیں؟ کیونکہ اصل امتحان تو ایس او پیز پر مسلسل عمل درآمد کا ہے۔
دوسری جانب تعلیمی ادارے بھی طلبہ کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، راولپنڈی میں واسا اور راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے تعلیمی اداروں میں بھاری مشینری کے ذریعے جراثیم کش سپرے کیا ہے، آ ر ڈبلیو ایم سی نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کی خصوصی ہدایت پر تمام تعلیمی اداروں میں صفائی کے انتظامات بھی مثالی انداز میں کئے جو حوصلہ افزا بات ہے۔ بعض درس گاہوں کے انتظامات کو مثالی قرار دیا جا سکتا ہے جن میں سرفہرست اسلام آباد کی کیپٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی دکھائی دیتی ہے جس کی انتظامیہ بھرپور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمی وبا سے نمٹنے کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے، یونیورسٹی میں ڈِس انفیکشن ٹنل نصب کی گئی ہے، پہلے روز انٹری گیٹ پر طلبہ کو ہینڈ سینی ٹائزر اور ماسک دیے گئے۔ فیکلٹی سمیت انتظامیہ، سکیورٹی اور دیگر سٹاف کو بھی کورونا کے حوالے سے مکمل ٹریننگ دی گئی جبکہ طلبہ کو فاصلے پر بٹھانے کے اقدامات بھی پہلے سے مکمل کر لئے گئے تھے۔ کیپٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی(CUST) کے اقدمات کی نہ صرف عالمی سطح پر تعریف کی گئی بلکہ وزیراعظم عمران خان نے بھی وائرس سے بچا ئوکے لئے کیپٹل یونیورسٹی کی بھرپورکاوش کو شیئر کیا۔ گلف نیوز نے بھی کیپٹل یونیورسٹی کے طلبہ کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے اقدامات کو اپنے پیج پر بھرپور جگہ دی، جو ملک کے دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں کے لئے ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔
پاکستان میں تعلیم و تربیت کے سب سے بڑے نیٹ ورک‘ پنجاب گروپ آف کالجز کی جانب سے بھی اپنے طلبہ و طالبات کی حفاظت کے لئے مثالی اقدامات کیے گئے ہیں، صفائی ستھرائی کے ساتھ ڈس انفیکشن کا عمل ایک روز قبل ہی مکمل کر لیا گیا تھا جسے روزانہ کی بنیاد پر دہرانے کے انتظامات بھی کئے گئے ہیں۔ پہلے روز طلبہ و طالبات کو فیس ماسک اور سینی ٹائزر فراہم کئے گئے۔ فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے جگہ جگہ نشانات لگائے گئے، کلاس رومز کے باہر سِٹنگ پلان بھی آویزاں کر دیا گیا اور ایس او پیز کے حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کی گئیں جبکہ اساتذہ کو سپیشل فیس شیلڈ بھی دی گئی اور اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ تمام اساتذہ حفاظتی فیس شیلڈ پہن کر کلاس رومز میں جائیں، اس کے ساتھ اساتذہ کو بھی ماسک اورسینی ٹائزر فراہم کئے گئے، کاش دیگر تعلیمی ادارے اور گروپس بھی ایسے ٹھوس اقدامات کریں تو ہم یقینا کووڈ 19 کو مکمل شکست سے دوچار کر سکتے ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ سرکاری ادارے بھی طلبہ کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومت نے تعلیمی اداروں کو ایس او پیز پر سختی سے عمل پیرا ہونے کی ہدایت کی ہے جس کے لیے نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں نے بھرپور انتظامات تو کیے ہیں؛ تاہم ان پر مکمل عمل درآمد والدین اور تعلیمی اداروں کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں۔
ملک بھر میں شادی ہال بھی کھل گئے ہیں اور کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمدکرتے ہوئے تقریبات کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ہالز انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ گنجائش سے50 فیصد کم افراد کو تقریب میں شمولیت کی اجازت دی جائے۔ پنجاب حکومت نے شادی ہالز کھولنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے اور انتظامیہ کو ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایات کی گئی ہیں۔ محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر پنجاب کے مطابق مہمانوں کے آپس میں مصافحہ نہ کرنے، بغل گیر نہ ہونے، موبائل فون اور دوسری ڈیوائسز شیئر نہ کرنے کے پوسٹر بھی چسپاں کیے گئے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں بھی شادی ہالز کھل گئے ہیں۔ حکومت کے اعلامیہ کے مطابق تمام سٹاف کے لئے کورونا ٹیسٹ لازمی ہے۔ سماجی فاصلے کا خاص خیال رکھا جائے گا اور ہالز کے داخلی راستے پر ہینڈ سینی ٹائزر، صفائی اور سپرے کا انتظام کیا جائے گا۔ شادی ہالز رات 10 بجے بند ہو ں گے، ایس او پیز پر عمل نہ کرنے پر کارروائی ہوگی۔ سندھ میں کاروباری مراکز ہفتے میں6 روز کھلیں گے، اس حوالے سے 15 اکتوبر تک کے لئے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔ کاروباری مراکز صبح6 سے رات 8 بجے تک کھلیں گے، اس حوالے سے ایس او پیز جاری کیے گئے ہیں اور تاجروں کوسختی سے ان پر عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔
اب دوسرے مرحلے میں مڈل اور پرائمری سکول بھی کھل جائیں گے اور چھوٹے بچے بھی اپنا تدریسی عمل دوبارہ شروع کر سکیں گے لیکن اس دوران سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہو گی کیونکہ چھوٹی کلاسز کے بچے تعلیم کے ساتھ تربیت کے مراحل سے بھی گزر رہے ہوتے ہیں لہٰذا پہلے مرحلے میں کھلنے والے تعلیمی اداروں اور بڑی کلاسز کے طلبہ و طالبات کو چھوٹے بچوں کے لئے مثال قائم کرنا ہو گی تاکہ یہ تعلیمی سلسلہ اب چلتا رہے اور خدا نخواستہ بے احتیاطی سے دوبارہ کورونا پھیلنے کے باعث کہیں دوبارہ لاک ڈائون کی جانب نہ جانا پڑے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق نومبر‘ دسمبر میں اس وبا کی ایک نئی لہر بھی آنے کاخدشہ ہے جو پہلے سے زیادہ خطرناک قرار دی جا رہی ہے، اس لئے اب ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ تعلیمی ادارے مرحلہ وار کھلنا شروع ہو گئے ہیں اور 187 روز سے جاری طلبہ و طالبات اور اساتذہ کرام کا انتظار تو ختم ہو چکا ہے لیکن اب حقیقی معنوں میں ایک نیا امتحان شروع ہو چکا ہے اور وہ کورونا وائرس سے بچائو کی احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عمل پیرا ہونے کا ہے۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو کورونا وائرس کو ناکام و شکست سے دوچار کر دیں گے لیکن اگر خدا نخواستہ ہم نے اس مرحلے پر سنجیدگی کے ساتھ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کیا تو پھر ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا جو پہلے سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا ہو سکتا ہے اور دوبارہ لاک ڈائون بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لئے دوبارہ معاشی و سماجی رابطے منقطع کرنے اور لاک ڈائون سے بچنے کے لیے اب ہمیں پہلے سے زیادہ محتاط رہنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں