موجودہ حکومت کے دو سالوں میں تبدیلی تو واقعی بہت آئی مگر ابھی تک یہ غریب عوام کو راس نہیں آ رہی کیونکہ ساری تبدیلی امیرکو امیر ترین اورغریب کو قبر نشین ہی کرتی چلی جا رہی ہے بلکہ اگر صاحبانِ اختیار برا نہ مانیں‘ تو غربت کی چکی میں پسنے والے اب زندہ درگور ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ستر برسوں بلکہ انگریز دور سے محرومی کا شکار طبقہ تبدیلی کے نعرے سے بڑا متاثر ہوا تھا اور سوچتا تھاکہ شاید اب سے جدید سہولتوں کے لئے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا اور پُرفضا دیہی مقامات پر تمام بنیادی سہولتیں اور آسائشیں میسر ہوں گی، پریشانیاں ماضی کا قصہ بن جائیں گی، ہر شخص اپنے اہل خانہ کے ساتھ پُرسکون زندگی گزارے گا، پینے کے صاف پانی، گیس اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات سبسڈی کے ساتھ پیداواری لاگت سے بھی کم پر دستیاب ہوں گی، کوئی بھوکا نہیں سوئے گا، دودھ نہ ملنے سے کسی کا بچہ نہیں روئے گا اور لوگ یورپ و امریکا کی باتیں بھول جائیں گے کیونکہ وہاں عوامی فلاح و بہبود کی بات تو ہوتی ہے لیکن اس میں مذہبی رنگ نہیں بھرا جاتا اور حقیقت میں وہ سب کچھ ہوتا بھی نہیں‘ جو بظاہر ہمیں نظر آتا ہے لیکن یہاں تو معاشی طور پر تباہ حال ملک کو ریاستِ مدینہ بنانے کا نعرہ لگایا گیا۔ لہٰذا یہاں انصاف ہو گا، مساوات ہو گی، امن و سکون ہو گا، کسی سے انتقام نہیں لیا جائے گا، کسی بے گناہ کو تنگ نہیں کیا جائے گا، نوکریاں میرٹ پر ملیں گی، نئے ڈیم بنیں گے، زراعت کا شعبہ ترقی کرے گا، یکساں نظام تعلیم رائج ہو گا۔ حکمران سرکاری محلات کے بجائے اپنے آبائی گھروں میں رہیں گے اور سرکاری تام جھام اور پروٹوکول سے کوسوں دور ہوں گے۔ چوروں اور ڈکیتوں کو فی الفور سخت سزا ملے گی اور بدعنوانوں کے خلاف سیاسی مصلحتوں اور اپنے‘ پرائے کی تفریق کے بغیر کارروائی ہوگی، اشیائے خور و نوش پر ٹیکس لگانے کے بجائے سبسڈی دی جائے گی، جس سے بنیادی اشیائے ضروریہ انتہائی سستی داموں ملیں گی جبکہ ٹیکس صرف سامانِ تعیش پر ہی لگائے جائیں گے۔
عام آدمی کی سوچ تو بالکل یہی تھی، ہمیں بھی کسی حد تک خوش فہمی تھی کہ بائیس برس سے انصاف، مساوات، امانت، دیانت اور فلاحی ریاست کے لئے جدوجہد کرنے والا کپتان کم ازکم اپنے پہلے دورِ اقتدار میں اپنے منشور پر عمل درآمد کی بھرپور کوشش کرے گا، بدعنوانوں کو قریب نہ پھٹکنے دے گا، سرکاری افسران خودکو عوام کا ماتحت سمجھیں گے، اعلیٰ پولیس افسران میں قرونِ اولیٰ کی جھلک نظر آئے گی، قانون مظلوم کا محافظ اور ظالم کے لئے موت کا پروانہ تصور ہو گا اور ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ گا، لیکن ایسا توکچھ بھی نہ ہوا بلکہ تبدیلی آئی تو صرف یہ کہ غریب کو پہلے اپنا اور بچوں کاپیٹ پالنے کے ساتھ اچھی تعلیم و صحت کی فکر ہوتی تھی لیکن اب تو گھر کے یوٹیلٹی بلز ہی پورے کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
انصاف کا مطلب اب محض سیاسی مخالفین کے خلاف مقدمات قائم کرنا اور انہیں کسی نہ کسی طرح جیلوں میں رکھنا بن چکا ہے، مساوات کا مطلب ہے کہ امیر‘ امیر تر اورغریب غریب تر ہوتا چلا جائے، میرٹ پر نوکریوں کا مطلب عالمی اداروں کے تجویز کردہ نمائندگان کو وزرا کے برابر عہدہ مع تمام تر مراعات اور اختیارات کے عطا کرنا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی لاکھوں غریب ڈیلی ویجز ملازمین کو برطرف کرکے گھر بھیج دیا۔ اب بے روزگاری کے ساتھ مہنگائی کاگراف بھی روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی گرانی کو دو سال سے ضرب دیں تو مہنگائی کا درست تناسب خود بخود سمجھ آ جاتا ہے۔ کرپشن کو عملی طور پر روکنے کے لئے ملک بھر میں تمام ترقیاتی منصوبے ہی روک دیے گئے اور سابق دورِ حکومت کی جاری ترقیاتی سکیموں کو بھی‘ ان میں شفافیت لانے کی خاطر اس قدر سست رفتار کر دیاگیا ہے کہ اگر کوئی افسر چھ ماہ تک بھی سکیم کا دورہ یا معائنہ نہ کرے تو بھی وہ کام کے معیار اور رفتار کے بارے میں آسانی سے بتا سکتا ہے۔
ترقی و خوشحالی کے حوالے سے تواب عام آدمی نے خواب دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے بلکہ یہ بھی کہنا غلط نہ ہو گا کہ عوام ایسی غلط فہمیوں سے اب کوسوں دور ہو چکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد پہلی بار حقیقت پسند سوچ پروان چڑھ رہی ہے کیونکہ اب تو بنیادی ضروریاتِ زندگی بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہونے لگی ہیں، تبدیلی کا مطلب ہر روز کوئی بری خبر ہی سمجھا جانے لگا ہے‘ بالکل ایسے ہی جیسے چند ہفتے قبل وزیراعظم نے قوم کو سستی بجلی فراہم کرنے کی خبر دی تھی لیکن شاید پھر اپوزیشن نے سازش کرکے سمری الٹی بھجوا دی، حکومتی نمائندے اور سرکاری حکام تو وزیراعظم کی مرضی کے خلاف ایساقدم اٹھا نہیں سکتے تھے‘ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اپوزیشن کی ہی سازش ہوگی جو اخبارات میں اس خبر کی صورت شائع ہوئی ہے کہ ''صارفین کیلئے بُری خبر، بجلی کی قیمت میں 98 پیسے فی یونٹ اضافے کا امکان‘‘۔ خبر کی تفصیل یوں ہے کہ ''بجلی کی قیمت میں ماہِ اگست کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 98 پیسے فی یونٹ اضافے کا امکان ہے۔ سی پی پی اے نے بجلی مہنگی کرنے کی درخواست نیپرا میں جمع کرا دی، جس کا نیپرا30 ستمبر کو فیصلہ کرے گا۔ اگست میں پانی سے 37.39 فیصد اور کوئلے سے 17.30 فیصد بجلی پیدا کی گئی، مقامی گیس سے9.59 فیصد اور درآمدی ایل این جی سے 20.90 فیصد بجلی پیدا کی گئی جبکہ مہنگے فرنس آئل سے 5.42 فیصد بجلی پیدا ہوئی، فرنس آئل سے پیدا شدہ بجلی کی قیمت 12.23 روپے فی یونٹ رہی‘‘۔
مذکورہ بالا خبر تو آئندہ ماہ میں مزید اضافے کے حوالے سے ہے لیکن ایک اورخبر نے مجھے سخت پریشان کرکے رکھ دیاہے ۔ یہ خبر تلہ گنگ کے ایک ایسے دیہات سے آئی ہے جہاں کھلی آب و ہوا میں بجلی کا استعمال ویسے ہی بہت کم ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہاں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ بھی بے حساب ہوتی ہے، یعنی بجلی قسمت سے ہی ملتی ہے۔ خبر یہ ہے کہ ایک اسّی سالہ ریٹائرڈ بزرگ‘ جو اپنی اہلیہ کے ساتھ گائوں میں رہتے ہیں، کے گھر میں صرف ایک پنکھا چلتا ہے اور رات کو دو چار گھنٹے کے لئے ایک بلب جلایا جاتا ہے، ان کا خالص گزارہ اپنی پنشن پر ہے، اس پنشن میں بھی وہ خوشحال زندگی گزار رہے تھے کیونکہ پہلے ہمیشہ ان کا بجلی بل ایک سو یونٹ سے کم آتا تھا اور چند سو روپے تک ہوتا تھا جو وہ ہمیشہ بروقت جمع کرا دیتے تھے لیکن اس مہینے اسی ایک پنکھے اورایک بلب کا بل 980 یونٹ لگا کر بھیج دیا گیا اور ہمیشہ چند سو روپے آنے والا بل اس بار 23000 روپے آیا جس پر ساری زندگی رزق حلال سے سفید پوشی میں گزارہ کرنے والے بزرگ کے لئے اپنی دو ماہ کی پنشن جمع کرکے بھی ایک ماہ کا بجلی بل ادا کرنا ممکن نہیں رہا اور اگر وہ کسی سے ادھار پکڑ کر بل جمع بھی کرا دیں تو اگلے ماہ کیسے گزارہ کریں گے؟
کاش کوئی اربابِ اختیار کو بتائے کہ ان کی ریاست مدینہ میں اب غریب آدمی کے لئے جینا محال ہوتا جا رہاہے۔ مذکورہ بالا خبر صرف ایک مثال ہے، یہ حقیقت چہار سو پھیلی ہوئی ہے، جسے ظلم کی انتہا ہی کہا جا سکتا ہے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ ظلم جب بڑھتا ہے تو پھر مٹ جاتا ہے‘ لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ غریب کو زندہ درگور ہونے سے بچایا جائے اور عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔