ہم آج تک صرف دہرے معیار ونصابِ تعلیم کارونا روتے آئے ہیں کہ پاکستان میں یکساں نصابِ تعلیم نہیں‘ امیروغریب کے بچوں کے لیے الگ الگ معیارقائم ہے‘ صاحبِ حیثیت کابچہ سکول میں روزِ اول سے ہی انگریزی میں پڑھتاہے‘ جبکہ غریب کابچہ ساری زندگی مارہی انگریزی کی وجہ سے کھاتاہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اعلیٰ معیار کے نجی تعلیمی اداروں نے یہ تفریق توکسی حد تک ختم کردی ہے اور غریب بچوں کو بھی معیاری تعلیم وتربیت فراہم کرنے کابیڑہ اٹھا رکھاہے جبکہ صحت کی سہولیات سے لے کر ہرشعبہ زندگی میں امیر وغریب کی تفریق موجود ہے بلکہ ہرروز بڑھتی جارہی ہے‘ حتیٰ کہ قبرستانوں تک وی آئی پی کلچر پایاجاتا ہے۔
راولپنڈی سمیت بڑے شہروں میں کئی قبرستانوں کے بھی دو‘ دو حصے ہیں‘ قبرستان کے ایک حصے میں کسی جدید ہائوسنگ سوسائٹی کی طرح قبروں کے باقاعدہ بلاک‘ اور پلاٹ ہوتے ہیں‘ ان قبروں کے درمیان گرین بیلٹ بھی ہوتی ہے‘ ہرقبر کے ساتھ دونوں اطراف راستہ موجود ہوتا ہے‘ پھول اورپودے ترتیب کے ساتھ لگائے جاتے ہیں جبکہ روزانہ کی بنیاد پرصفائی کابہترین انتظام بھی کیاجاتاہے‘ مگراسی قبرستان کادوسرا حصہ متعلقہ حکام کی توجہ کاطالب ہوتاہے ‘حالانکہ اس میں بھی ہمارے ملک کے شہری ہی دفن ہیں‘ ان میں بھی کئی اللہ کے بہت نیک اورعبادت گزار بندے بھی شامل ہوں گے‘ لیکن ہم نے بحیثیت انسان قبروں میں بھی تفریق کررکھی ہے جو یہ سوچنے پرمجبور کرتی ہے کہ کیاہمارے ملک میں کبھی امتیازی سلوک کا نظام ختم ہو سکتا ہے؟ جہاں قبرستان میں بھی وی آئی پی کلچر ہو وہاں عام زندگی میں کتنی تفریق ہوگی۔
ہماری حکومت اس بات کا اعتراف تو باربار کرتی ہے کہ ملک میں مہنگائی اوربیروزگاری زیادہ ہے‘ لیکن اس کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے۔ گزشتہ دنوں ایک چیزجس نے زیادہ پریشان کیا وہ یہ تھی کہ جب کوئی دکاندار ہول سیل کے لیے کسی چیزکاسٹاک جمع کرتاہے تو انتظامیہ اس کے خلاف کارروائی کرتی ہے اورسٹاک بھی ضبط کرلیا جاتا ہے‘ لیکن اس بار کیا دیکھنے کوملا کہ چند روز قبل یوٹیلٹی سٹور سے چینی‘ گھی اور چند دیگر اشیائے ضروریہ اچانک غائب ہوگئیں۔اس طرح ایک دم تمام یوٹیلٹی سٹورز سے سٹاک کا غائب ہوجانا کسی بحران کاپیش خیمہ معلوم ہورہاتھا اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہرکیا جارہاتھا کہ دو روز بعد مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیر صدارت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی(ای سی سی) کااجلاس ہوا اورای سی سی نے بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافے کی منظوری دے دی‘ جس کے مطابق کمرشل صارفین کیلئے قدرتی گیس کی قیمت میں 25فیصد یا گیس انفراسٹرکچر ڈ یو یلپمنٹ سیس کے ایک تہائی فیصد اضافہ کیاگیا ہے ‘جبکہ گیس کے گھریلو صارفین کے لیے گیس میٹر کا ماہانہ کرایہ 20روپے سے بڑھا کر 40روپے کردیا گیا ۔ گیس کی قیمت میں اضافہ کے فیصلے کا اطلاق گھریلو صارفین اور تنوروں کو فراہم کی جانے والی گیس پر نہیں ہوگا ۔ دوسری جانب بجلی کی پیداواری لاگت کی بنیاد پر سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ فارمولا کے تحت بجلی کی قیمت میں بھی ایک روپیہ30پیسے فی یونٹ اضافہ کرنے کی منظوری دی گئی‘ تاہم فیصلہ کیا گیا کہ 200یونٹ سے کم بجلی خرچ کرنے وا لے صارفین کے لیے نرخوں میں صرف 32پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا۔ ای سی سی کو بتایا گیا کہ نومبر 2019ء سے لے کر جون 2020ء تک سہ ماہی بنیادوں پر پیداواری لاگت کے مطابق بجلی کی قیمت کا ازسر نو تعین کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ جس سے بجلی کے تمام صارفین کے لیے بجلی کی قیمت میں ایک روپے 62پیسے فی یونٹ اضافہ ہو جائے گا اور وفاقی حکومت کی جانب سے مختلف کیٹیگریز کو بجلی پر فراہم کی جانے والی سبسڈی شامل کرنے کے بعد بجلی کی قیمت میں اضافہ کی شرح ایک روپے 30پیسے فی یونٹ تک آجائے گی۔ اس فیصلہ پر عملدرآمد کروانے یا بجلی کی قیمت میں یکسر کوئی اضافہ نہ کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کو سونپ دیا گیا ہے ۔ ای سی سی نے وزارت توانائی کی سمری پر ملک کی پانچ برآمدی صنعتوں کے لیے قدرتی گیس اور آر ایل این جی کی فراہمی کے پلان کی منظوری بھی دے دی ہے۔ ان صنعتوں کو قدرتی گیس کی فراہمی میں تعطل کو روکنے کے لیے سوئی سدرن گیس کمپنی کے نیٹ ورک پر پریشر کم کرنے کے لیے اکتوبر سے ہفتہ اور اتوار کو ان صنعتوں کو قدرتی گیس کی سپلائی میں 50فیصد کمی کر دی جائے گی اور تیسرے ہفتے میں اتوار کو گیس کی سپلائی کم رکھی جائے گی۔گھی کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ کیاگیا‘جبکہ چینی سمیت دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں‘ جو عام شہریوں کے لیے بڑی تشویش کا باعث ہے۔
وزیراعظم عمران خان صاحب کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف نے ملک سے کرپشن‘ اقربا پروری‘ ناانصافی‘ مہنگائی‘ بیروزگاری اور بدامنی کے خاتمے کے لیے تبدیلی کانعرہ لگاکر قوم سے ووٹ لئے اور وعدہ کیاتھا کہ منتخب ہونے کے بعد سو دنوں میں ہی عوام کی حالت تبدیل کردیں گے جس کے بعد غریب کے بچے کو میرٹ پرسکول میں داخلہ ملے گا‘ اعلیٰ تعلیم کاحصول بھی سفارش کے بغیر صلاحیتوں کے بل پرممکن ہوگا اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد نوکری کے لیے رشوت یا سفارش کاسہارا نہیں لیناپڑے گا بلکہ سو فیصد میرٹ کی بنیاد پر سرکاری ملازمت مل جائے گی۔ ہمیں وزیراعظم عمران خان کی نیت اور صلاحیتوں پرکوئی شک وشبہ نہیں‘ لیکن ایک بات کی سمجھ نہ آسکی کہ حکومت کی طرف انتخابی نعرے کے سو دن بھی گزر گئے‘ پھر ششماہی پوری ہوئی‘ ایک سال بیتا اوراب تو دو سال کاعرصہ مکمل ہوچکاہے لیکن ابھی تک مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوسکے ‘بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کی حکومت تاحال اپنے منشور کے مطابق عوام کو بہت کچھ ڈیلیور نہ کرسکی۔
بجلی وگیس سمیت یوٹیلٹی بلوں میں اضافے نے عام آدمی کو شدید پریشان کررکھاہے ‘ ایک عام چھوٹی فیملی کابجلی بل ایک ہزار روپے سے بڑھ کر دس ہزارروپے تک پہنچ چکاہے جو غریبوں کے لیے ناقابل برداشت ہے‘ لہٰذا وزیراعظم عمران خان صاحب کو سب سے پہلے تو یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ فوراً واپس لینا چاہئے تاکہ ماہانہ پندرہ سے بیس ہزار روپے کمانے والے لوگ بھی اپنی تنخواہ میں گزارہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھانے کی بجائے یوٹیلٹی سٹورز پر آٹا‘ گھی اورچینی جیسی بنیادی انسانی ضروریات پر زیادہ سے زیادہ سبسڈی دے کر غریب عوام کوریلیف دیاجائے کیونکہ ایک طرف کورونا وائرس کے باعث کاروبار تباہ ہوچکے ہیں اورعوام کی قوت خرید بہت کم ہوچکی ہے‘ ان حالات میں عوام حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور حکومتی امداد کے منتظر ہیں اوراگر ایسی صورتحال میں عوام کو ریلیف کی بجائے مہنگائی میں اضافہ کر کے مزید بوجھ ڈال دیاجائے تواس سے عوام میں بے چینی بڑھے گی ‘ افراتفری پھیلے گی ‘ عوام تو پریشان ہوں گے لیکن ساتھ حکومت کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ ہوگا ‘ صورتحال میں بہتری نہ آئی تو خدانخواستہ ملک میں خانہ جنگی جیسے حالات بھی پیداہوسکتے ہیں جو ہماری تباہ حال معیشت کے لیے مزید دھچکا ثابت ہوں گے۔ خیال رہے چند روز قبل بھی کوکنگ آئل اور مختلف برانڈز کے گھی کی قیمت میں اضافہ کیا گیا تھا جبکہ دیگر اشیا بھی مہنگی کی گئی تھیں‘ مسئلہ یہ ہے کہ اگر عوام کوریلیف دینے کی بجائے ذخیرہ اندوزی کرکے قیمتوں میں اضافے سے فائدہ اٹھانے کیلئے عوام پربوجھ ڈالاجائے گا توپھر غریبوں کے دکھوں کامداوا کون کرے گا؟ عام آدمی موجودہ حکومت سے بڑی امیدیں رکھتاہے ‘ لہٰذا وزیراعظم صاحب معاشی مجبوریوں کے باوجود غریبوں کو ریلیف دینے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں اور ایک ایساپیکیج اعلان کریں جس میں کسی غریب کو حقیقی ریلیف مل سکے۔