ملک میں مہنگائی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عام آدمی دو وقت کی روٹی کے لئے پریشان ہے۔ مزدور کے لئے اپنی اجرت میں بچوں کی تعلیم و صحت کا خیال رکھنا تو دور کی بات‘ گھر میں دال اور آٹا پورا کرنا بھی محال ہو چکا ہے۔ نوبت گھروں میں فاقوں تک آ پہنچی ہے بلکہ اب تو سفید پوش طبقے کے چولہے بھی ٹھنڈے ہونے لگے ہیں۔ ان حالات میں اگر دو‘ چار فیصد کوئی حوصلے والی بات ہے تو وہ صرف یہ کہ مہنگائی اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال سے وزیراعظم عمران خان پوری طرح آگاہ ہیں اور انہیں قوم کی مشکلات کا بھرپور احساس ہے، وہ اس معاملے پر متعلقہ سرکاری اداروں سے مسلسل اپ ڈیٹس لے رہے ہیں اور انہیں میڈیا کے ساتھ ساتھ‘ پارٹی ارکان کے ذریعے بھی ملک بھر سے رپورٹیں موصول ہو رہی ہیں۔ عام آدمی کی طرح وزیراعظم صاحب بھی روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی سے سخت پریشان ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح مہنگائی کنٹرول ہو سکے اور قیمتیں واپس اپنی جگہ پر آ جائیں، خصوصاً ادویات اور اشیائے خور و نوش کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کے حوالے سے ایوانِ حکومت میں کافی اضطراب پایا جاتا ہے؛ تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وزیراعظم صاحب کی جانب سے ایک درجن سے زائد نوٹس لینے کے باوجود مہنگائی کم ہونا تو درکنار‘ کنٹرول ہونے کا نام بھی نہیں لے رہی۔
چینی کی قیمت پچاس روپے سے بڑھنے لگی تو وزیراعظم نے نوٹس لیا، شوگر مافیا کے کافی ٹرائلز ہوئے، انکوائریاں اور رپورٹیں بھی منظر عام پر آئیں لیکن شاید شوگر مافیا حکومت سے بھی زیادہ طاقتور ہے جس کی وجہ سے چینی کے نرخ کنٹرول ہی نہیں ہو پا رہے اور عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پسنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ اس وقت آٹا بحران بار بار سر اٹھا رہا ہے، کہیں آٹا دستیاب نہیں تو کہیں حکومت کے جاری کردہ ریٹ سے دُگنی قیمت پر فروخت ہو رہا ہے، انڈے دو سو روپے فی درجن کے عدد کو چھو رہے ہیں، ڈیڑھ سو روپے میں دھڑی (پانچ کلوگرام) ملنے والے آلو اور پیاز بھی اب سو روپے سے زائد ہو چلے ہیں۔ غرض آٹا، چینی، گھی، دالیں، پھل، سبزیاں، مرغی، گوشت، مسالا جات، خشک میوہ جات، دودھ، دہی اور دیگر تمام اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اب تو قیمتوں میں کمی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔
بات ہو رہی تھی وزیراعظم صاحب کے مہنگائی پر درجن بھر نوٹسز کی‘ تو اس میں ان کے خلوص اور سنجیدگی پر نہ تو کسی کو شک ہے اور نہ ہی ہونا چاہئے کیونکہ حکومت خود اس بات سے سخت پریشان ہیں کہ مہنگائی کنٹرول کیوں نہیں ہو رہی؟ حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم اور ان کے رفقا ملک میں بڑھتے ہوئے مہنگائی کے طوفان کو حکومت کے خلاف سوچی سمجھی سازش سمجھتے ہیں لیکن اب اس حکومت کو اقتدار میں آئے دو برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اور اگر اب بھی وہ یہ سمجھیں کہ اپوزیشن جماعتیں کسی سازش کے تحت مہنگائی کر رہی ہیں تو یہ بیانیہ کچھ زیادہ مقبول نہیں ہو سکتا کیونکہ تمام پالیسیاں حکومت بنا رہی ہے، پالیسی ساز اداروں کا کنٹرول حکومت کے ہاتھ میں ہے، مارکیٹ کمیٹی سے لے کر پرائس کنٹرول مجسٹریٹس تک‘ سبھی حکومت کے ماتحت ہیں، وزارتِ خوراک و زراعت، تجارت، صنعت، گودام اور سپلائی سے متعلقہ تمام محکمے حکومت کے ماتحت ہیں تو پھر سازش کون اورکیسے کر سکتا ہے؟
اب حکومت نے مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کی نشاندہی کا ٹاسک ٹائیگر فورس کو دینے کا فیصلہ کیا ہے‘ لیکن میرے خیال میں یہ فیصلہ زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس سے پہلے بھی سابق حکومتوں نے سیاسی کارکنوں اور بیروزگار وں پر مشتمل جو کمیٹیاں یا فورسز تشکیل دی تھیں‘ ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ویسے بھی ٹائیگر فورس پر ایک مخصوص سیاسی جماعت کی چھاپ ہے اور کسی سیاسی جماعت کے کارکنان کو اس قسم کا ٹاسک دینا بالکل بھی درست اقدام نہیں، بلکہ اس سے تو اس بات کے خدشات تقویت پکڑ رہے ہیں کہ وہ اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والوں کو نظر انداز اور مخالفین کو بلیک میل کر سکتے ہیں جبکہ فورس کے ارکان تاجروں کو تنگ اور پریشان بھی کر سکتے ہیں۔ اس آڑ میں رشوت و بدعنوانی کا بازار گرم ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ کئی جعلساز بھی خود کو ٹائیگر فورس کا کارکن ظاہر کرکے چھوٹے تاجروں اور دکانداروں کو مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کے نام پر بلیک میل کرکے بھتہ وصولی میں سرگرم ہو سکتے ہیں لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ کسی رضاکار فورس کے بجائے نوجوانوں کو کنٹریکٹ پر بھرتی کرے اور انہیں باقاعدہ تربیت دے کر مارکیٹ میں پرائس چیکنگ کا کام سونپے اور ان کی نگرانی انتظامیہ کے افسران کے ذریعے کی جائے اور شکایات موصول ہونے کی صورت میں متعلقہ اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے ورنہ یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ٹائیگر فورس کو یہ ہدایت کی جائے کہ وہ خفیہ طریقے سے معلومات اکٹھی کرکے پورٹل پر ڈالے اور دکانداروں یا متعلقہ افراد سے براہِ راست رابطہ نہ کرے تاکہ کسی قسم کی کرپشن کے خدشات باقی نہ رہیں۔
وزیراعظم صاحب نے مہنگائی کے خلاف کریک ڈائون کا جو اعلان کیا ہے‘ اس سے عام آدمی کے لئے ایک بار پھر امید کی کرن پیدا ہو گئی ہے لیکن یہ کریک ڈائون حسبِ سابق‘ صرف گلی محلے کی چھوٹی دکانوں اور پھل و سبزی فروشوں کے خلاف نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس کا آغاز فیکٹریوں اور تھوک کی منڈیوں سے کرنا چاہئے کیونکہ اگر ایک چھوٹا دکاندار کوئی چیز تھوک منڈی سے ہی ایک سو روپے فی کلوگرام خریدتا ہے تو اس نے دو‘ چار روپے اپنا منافع رکھ کر اسے فروخت کر دینا ہے۔ اس لئے متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ ہول سیل مارکیٹ میں ریٹس کم کرائے جائیں، تبھی عام مارکیٹ میں سستا مال پہنچے گا، آٹے اور چینی سمیت اشیائے ضروریہ کے ایکس مل ریٹ پر توجہ دی جائے ورنہ گلی محلوں میں چھاپے مارنے اور چھوٹے دکانداروں کو جرمانے کرنے سے صرف غریب کی دکانیں بند ہوں گی‘ مہنگائی کم نہیں ہو گی۔
مہنگائی کے اصل اسباب فیکٹری اونرز اور مل مالکان کی جانب سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ ہے‘ اس لیے اس کا تدارک کرنا ہو گا وگرنہ ماضی کی طرح اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کر کے من مانے نرخ وصول کرنے کا رجحان برقرار رہے گا۔ درآمدات اور برآمدات کی پالیسیاں قومی ضروریات کو مدنظر رکھ کر از سر نو ترتیب دینا ہوں گی، حکومتی ذمہ داران کو اس بات پر خصوصی توجہ دینی چاہئے کہ جس شے کے حوالے سے پالیسی بن رہی ہو‘ اس کی کمیٹی میں کوئی بینی فشری یعنی مل و فیکٹری کا مالک یا اس کا نمائندہ نہ بیٹھا ہو‘ ورنہ پالیسیاں عوامی مفاد کے بجائے صنعتکاروں کے مفادات کو سامنے رکھ کر بنتی رہیں گی اور پھر تمام کوششوں کے باوجود حکومت قیمتوں کو کنٹرول نہیں کر پائے گی۔ ایک وفاقی وزیر کئی بار کہہ چکے ہیں کہ آٹے اور چینی کے حوالے سے جب بھی کوئی بڑا فیصلہ ہونے لگتا ہے تو اس کمیٹی میں اکثر دو چار مل مالکان بیٹھے ہوتے ہیں‘ جن کی موجودگی میں کوئی صحیح عوامی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔
اس وقت قوم کی دعائیں اور نیک تمنائیں حکومت کے ساتھ ہیں اور یہی وہ مسئلہ ہے جو حکومت اگر حل کر لے تو عام آدمی کبھی بھی اپوزیشن کے کہنے پر باہر نہیں نکلے گا، اسی طرح معیشت بھی دوبارہ مستحکم ہو پائے گی اور ترقی کا پہیہ بھی رواں رہے گا، عام آدمی کو ریلیف بھی ملے گا اور راوی بھی چین لکھ پائے گا لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اس بار نوٹس لینے کے بجائے سخت احکامات جاری کیے جائیں اور اگر کوئی آرڈیننس بھی جاری کرنا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اب نوٹس سے کام نہیں چلے گا‘ اب آرڈر کریں!