ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر بے قابو ہوتی جا رہی ہے، اس بار اس کی شدت بھی زیادہ ہے اور شرح اموات میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے تو بہت پہلے پیش گوئی کر دی تھی اور ہم نے بھی اپنے قارئین کو بیس اگست کے کالم میں خبردار کیا تھا کہ نومبر‘ دسمبر میں کووڈ 19 کی دوسری لہر کا خدشہ ہے جو پہلی لہر سے زیادہ خطرناک ہو گی اوراس بار موسم سرما کے باعث کورونا متاثرین میں نمونیا جیسی علامات زیادہ پائی جائیں گی۔ اُس وقت جب پاکستان میں کورونا وائرس پر تقریباً قابو پایا جا چکا تھا اور کیسز میں واضح کمی آ چکی تھی‘ دوسری لہر کے بارے لکھنے کا مقصد صرف اورصرف لوگوں کو خبردار کرنا تھا کہ ہم نے کورونا وائرس کے خلاف جوکامیابی حاصل کی تھی‘ اسے برقرار رکھنے کے لئے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور حکومت پاکستان کی جانب سے جاری کردہ ایس او پیز پر سو فیصد عمل درآمد ضروری ہے‘ ورنہ یہ عالمی وبا دوبارہ (پہلے سے زیادہ) شدت کے ساتھ حملہ کر سکتی ہے، لیکن ہمارے لوگوں کو کون سمجھائے، ہم بہادر بھی بہت ہیں اور بہت بڑے دانشور بھی۔ عالمی ادارۂ صحت چاہے جو مرضی کہتا رہے‘ وفاقی اورصوبائی حکومتیں جیسے مرضی سمجھاتی رہیں، میڈیا جو مرضی لکھتا یا بتاتا رہے، ڈاکٹرز بے شک چیخ چیخ کر اس وبا کے خطرات سے آگاہ کرتے رہیں، انتظامیہ جتنی مرضی سختی کر لے، ہم نے قسم کھا رکھی ہے کہ کورونا ایس او پیز پر عمل نہیں کرنا، جب تک خدانخواستہ بیماری ہمیں اپنی لپیٹ میں نہ لے یا ہماری فیملی میں سے کسی کو متاثر نہ کرے‘ ہم اس کے وجود پر کیسے یقین کر سکتے ہیں؟
اگست میں جب پاکستان میں کورونا وائرس کے متاثرین کی شرح میں کمی واقع ہوئی تو دنیا ہماری اس کامیابی پر حیران تھی اور ہماری مثالیں دی جا رہی تھیں لیکن بیرونی دنیا کوکیا پتا کہ صرف دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں اور یہ پاکستان پر صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کا خاص کرم تھا کہ کورونا وائرس قابو میں آ گیا تھا ورنہ عوام نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ البتہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت واقعی ہمارے دل و دماغ پر اس وبا کا خوف طاری ہو چکا تھا جس کی وجہ سے قوم نے ففٹی ففٹی احتیاطی تدابیر اپنا لی تھیں، لوگوں نے فیس ماسک پہننا شروع کر دیا تھا، سماجی فاصلے پر بھی کسی حد تک عمل ہونے لگا تھا، لوگ ہاتھ ملانے اورگلے ملنے سے بھی گریز کرنے لگے تھے جبکہ جگہ جگہ ہاتھ دھونے کا انتظام بھی نظر آتاتھا، جس سے کورونا کے کیسز میں کمی واقع ہوئی اور حالات سدھرنے لگے۔
حکومت نے لاک ڈائون میں نرمی کی تاکہ معیشت سنبھل سکے، تعلیمی ادارے کھل گئے، ٹرانسپورٹ کا پہیہ چل پڑا، ریستوران آباد اور پارکس کی رونقیں بحال ہوئیں۔ ادھر جونہی حالات بہتر ہوئے تو ہماری قوم نے آہستہ آہستہ لاپروائی شروع کر دی۔ سماجی فاصلہ ختم اور فیس ماسک کا استعمال ترک کر دیا گیا، مصافحہ کرنا اورگلے ملنا تو جیسے اب لازم ہوگیا تھا اور اسے بہادری کی علامت سمجھا جانے لگا، سرکاری محکموں نے بھی ڈِس انفیکشن ٹنل گیٹ بند کر دیے اور ہاتھ دھونے کے لئے رکھے گئے واٹر ٹینک خشک ہو گئے، ہینڈ سینی ٹائزر کا استعمال بھی ماضی کا قصہ بن گیا، ایس او پیز صرف اشتہارات تک محدود ہو گئے جس کے بعد اس خطرناک وائرس کا پھیلائو دوبارہ شروع ہو گیا اور وبا پھیلنے لگی۔
ہمارے ایک بہت ہی سنجیدہ دوست‘ سینئرصحافی‘ نیشنل پریس کلب کے سینئر نائب صدر ارشد وحید چوہدری کئی دن تک وینٹی لیٹر پر سانسیں لیتے لیتے کورونا سے شکست کھا گئے اور جڑواں شہروں کی صحافی برادری کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ یہ وبا ایسے کئی قیمتی انسانوں کی جانیں لے گئی۔ ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے بعد چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ بھی کورونا کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئے۔ رکن سندھ اسمبلی جام مدد علی سمیت کئی معروف شخصیات کورونا سے متاثر ہو کر جاں بحق ہو چکی ہیں۔ کئی سینئر سیاستدان، صحافی، پارلیمنٹیرینز، ڈاکٹرز، بیورو کریٹس اور طبی عملے سمیت ہزاروں کی تعداد میں لوگ دوسری لہر سے متاثر ہوئے ہیں جس کے بعد ملک میں نئی ہیلتھ انٹیلی جنس ایڈوائزی جاری کر دی گئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی، مذہبی اور شادی کی تقریبات پر پابندی جبکہ سکولوں میں موسم سرما کی چھٹیاں کی جائیں۔ ایڈوائزی کے مطابق کورونا وائرس کی دوسری لہر شدید ہو چکی ہے، گزشتہ 6 ہفتوں میں پاکستان میں کورونا کیسز کی شرح 2 سے 6 فیصد ہو گئی ہے اور روزانہ 500 سے2ہزار نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ کورونا کو روکنے کے لیے معاشی سرگرمیوں اور لاک ڈائون کے بغیر قومی سطح پر اقدامات کیے جائیں، مدرسوں، سینماز، تھیٹرز اور مزاروں پر پروگراموں کی اجازت نہ دی جائے۔ مارکیٹوں میں ماسک پہننا لازمی قرار دیا جائے جبکہ کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزیوں پر بھاری جرمانے کیے جائیں۔ ایڈوائزی میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ ہائی رسک ایریاز میں ٹیسٹنگ کی شرح بڑھائی جائے اور بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کٹس کی خریداری کی جائے جبکہ ہسپتالوں کی استعدادِ کار بڑھائی جائے۔
اگر قوم احتیاط کرتی اور ایس او پیز پر مکمل عمل درآمد کیا جاتا تو شاید ایسی نوبت دوبارہ نہ آتی لیکن حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے ملک بھر میں جلسوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ کورونا کے پیش نظرکسی بھی اجتماع میں 300 سے زیادہ لوگ اکٹھے نہ ہوں۔ حکمران جماعت نے ہفتے کو ہونے والا جلسہ منسوخ کرتے ہوئے دیگر جماعتوں سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ بھی اپنے جلسے ملتوی کر دیں۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم نہیں چاہتے جون جیسے حالات دوبارہ پیدا ہو جائیں، اگر ہم احتیاط کریں گے تو ہسپتالوں پر پریشر نہیں پڑے گا، لہٰذا قوم سب سے پہلے تو فیس ماسک کی عادت پختہ بنائے کیونکہ اس سے وائرس بہت کم پھیلتا ہے۔ وزیراعظم صاحب قوم سے بار بار احتیاط کرنے کی اپیل کر رہے ہیں اور بتا رہے ہیں کہ اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو ہسپتال بھر سکتے ہیں، وائرس میں پہلے سے زیادہ تیزی آئی ہے۔کورونا نے ایران، روس اور بھارت سمیت بیشمار ملکوں میں تباہی مچائی لیکن ہم پر اللہ نے خاص کرم کیا، ہم نے باقی ملکوں کی نسبت اپنی معیشت کو بچایا؛ تاہم اب امریکا، یورپ اور برطانیہ میں پھر سے لاک ڈائون ہو رہا ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عمل درآمد کرکے اس وائرس کو دوبارہ پھیلنے سے روک سکتے ہیں، پہلے ہی ہمارے بچوں کا تعلیمی نقصان بہت زیادہ ہو چکا ہے اور اگر احتیاط نہ کی گئی تو حکومت سکول و کالجز بند کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تو یہ بہت بڑا المیہ ہو گا کیونکہ پاکستان میں ابھی ایسی سہولتیں نہیں ہیں کہ تمام بچے آن لائن کلاسز سے مستفید ہو سکیں۔ ویسے بھی آن لائن کلاسز کا تجربہ ہمارے ملک میں زیادہ مقبول نہیں ہو سکا اس لئے ہمیں ایس اوپیز کو مکمل فالو کرنا ہوگا تاکہ بچوں کا مستقبل بچایا جا سکے۔ ہماری معیشت پہلے ہی کمزور اور بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے۔ گزشتہ لاک ڈائون نے اسے مزید تباہی سے دوچار کیا‘ اس لئے اب ہمیں ایسی صورتِ حال سے بچنا ہے اور ہرحال میں معیشت کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن رکھنا ہے، جس کے لئے پہلی شرط کورونا سے بچائو ہے اور یہ احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔ ہم نے مساجد کو دوبارہ خالی نہیں ہونے دینا، کارخانے بند نہیں کرنے، دکانوں کو تالے نہیں لگانے اور قوم کے شاہینوں کو منفی سرگرمیوں سے بچانے کے لئے کھیلوں کے میدان ہر حال میں آباد رکھنے ہیں؛ تاہم اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایس او پیز پر مکمل عمل کریں۔ ہمیں اس وقت کا ہرگز انتظار نہیں کرنا جب یہ وبا ہمارا دروازہ کھٹکھٹائے، لہٰذا خدا کے لئے اب تو یقین کر لیں کہ کورونا وائرس دوبارہ تیزی سے پھیل رہاہے اور ہم نے اپنی اور اپنے پیاروں کی جانوں کو بچانا ہے۔