قوم کا مستقبل ہمارے نونہال اور نوجوان ہیں جنہیں بہترین تعلیم و تربیت، صحت مند ماحول اورمثبت سرگرمیاں فراہم کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور یہ سب کچھ بلند معیارِ تعلیم اورکھیلوں کی جدید سہولتوں سے ہی ممکن ہے۔ بدقسمتی سے دنیا بھر کی طرح وطنِ عزیز میں بھی کورونا وائرس کی پہلی لہر نے سلسلہ تعلیم اور کھیلوں کو بری طرح متاثر کیا، مارچ 2020ء میں چھ روز کے لئے بند ہونے والے تعلیمی ادارے‘ چھ ماہ سے زائد عرصہ تک بند رہے جبکہ سپورٹس میں بھی ایس او پیز پر عمل کرکے میدان آباد کرنے کے بجائے ہمارے پالیسی سازوں کو نجانے کیا سوجھی کہ انہوں نے سب سے پہلے کھیل کے میدانوں کو تالے لگا دیے، جس سے نہ صرف منفی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا بلکہ ہسپتالوں پر بھی بوجھ بڑھ گیا۔ کووڈ 19 کے پہلے تجربے کے دوران حکومت کا ایک فیصلہ تو کافی عجیب تھا کہ پنجاب میں پبلک پارکس عوام کے لئے کھول دیے گئے تھے لیکن نوجوانوں کو کھیل کے میدانوں میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ دنیا اس بات سے مکمل اتفاق کرتی ہے کہ جو مرد وخواتین کھیلوں کا شوق رکھتے ہیں وہ منفی سرگرمیوں سے دور رہتے ہیں اور ان کی صحت و تندرستی برقرار رہتی ہے اور ان میں قوتِ مدافعت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ سپورٹس سٹیڈیمز، گرائونڈز اور جمنازیم جتنا عرصہ بند رہے‘ منفی سرگرمیوں میں اتنا ہی اضافہ دیکھنے میں آیا، نوجوانوں کو ورزش کے بجائے ٹک ٹاک جیسی ایپس کی عادت پڑ گئی جس سے نہ صرف ان کی صحت پر اثر پرا بلکہ درجنوں قیمتی انسانی جانیں بھی اس شوق کی بھینٹ چڑھ گئیں جو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک امر ہے، سٹریٹ کرائمز میں بھی اضافہ ہوا اور ہیروز کے بجائے مجرموں کی تعداد بڑھنے لگی۔
اللہ پاک نے کرم کیا اور ایک وقت ایسا آیا جب پاکستان میں کورونا وائرس پر تقریباً قابو پا لیا گیا، معمول کی سرگرمیاں بحال ہونے لگیں، تعلیمی ادارے کھل گئے، بچے سکول اور نوجوان کالج و یونیورسٹیوں میں جانے لگے، کاروبارِ زندگی ایک بار پھر رواں دواں ہو گیا، یہ بڑا حوصلہ افزا مرحلہ تھا کیونکہ آن لائن کلاسز کا تجربہ ہمارے ملک میں زیادہ کامیاب نہیں رہا تھا، سرکاری تعلیمی اداروں میں اول تو جدید سہولتیں ہی میسر نہیں ہیں اور جہاں سرکار نے قومی خزانے سے ضروریات پوری بھی کیں‘ وہاں ہمارے اکثر و بیشتر اساتذہ بدقسمتی سے قوم کی تربیت کے بجائے صرف اپنی ملازمت کے لئے وقت گزاری کرنے لگے، نجی شعبہ مقابلے کے اس رجحان میں قدرے بہتر کام کر رہا ہے لیکن اگر پورے ملک کے تعلیمی نظام کاجائزہ لیا جائے تو صرف پنجاب گروپ آف کالجز کے پاس ہی ایک مکمل اور مربوط نظام موجود ہے جس سے اس گروپ کی انتظامیہ کسی بھی ٹیچر، کلاس یا لیکچر کو چیک کر سکتی ہے یا جس سے طلبہ و طالبات مستفید ہو سکتے ہیں ورنہ بیشتر ادارے تو تجربات کے مراحل میں ہی رہے اور بچوں کا تقریباً پورا سال ضائع ہو گیا۔ لاک ڈائون اور تعلیمی اداروں کی بندش کے پہلے دو ماہ تو شش و پنج میں گزر گئے، تیسرے ماہ آن لائن کلاسز کا رواج عام ہونا شروع ہوا، اس کے بعد سب سے پہلے تو اساتذہ کی تربیت کا مرحلہ درپیش تھا اور پھر انٹرنیٹ سمیت دیگر ضروری سہولتوں کا فقدان سامنے آ گیا، جب ملک بھر میں آن لائن ایجوکیشن سسٹم رائج ہوا تب بھی ملک کی ستر فیصد نوجوان آبادی اس سے محروم رہی، غرض کسی بھی طرح آن لائن سسٹم براہِ راست تعلیمی نظام کام تبادل نہ بن سکا اور تعلیمی اداروں کی انتظامیہ، فیکلٹی، سٹوڈنٹس اور والدین نے سکول و کالجز کھلنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ حکومت نے ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد پر زوردیا کیونکہ یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ ہمارا ملک دوبارہ تعلیمی اداروں کی بندش کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن اس کے باوجود ہر طرف سستی نظر آتی ہے اور احتیاطی تدابیر نظر انداز کی جا رہی ہیں جس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔
اس وقت کورونا کی دوسری لہر شدید ہوتی جا رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ ہمارا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے، اگر ہم احتیاطی تدابیر پر سنجیدگی سے عمل کریں تو ہم آسانی سے اس وبا کو پھیلنے سے روک سکتے ہیں لیکن اب بھی اگر ہم سنجیدہ نہ ہوئے تو پھر خوفناک نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس‘ جو وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی زیر صدارت ہوئی‘ میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک بھر میں تعلیمی ادارے فوری طور پر بند نہیں کئے جائیں گے۔ اب یہ کانفرنس پیر کو دوبارہ ہو گی۔ صوبائی وزرا کا کہنا ہے کہ صورتِ حال اتنی خراب نہیں کہ ادارے بند کر دیے جائیں لیکن قرآئن بتاتے ہیں کہ تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے‘ ایسا نہیں کیا جانا چاہیے۔ وزرائے تعلیم کی کانفرنس میں موسم سرما کی تعطیلات نومبر کے آخری ہفتے سے آخر جنوری تک کرنے کی تجویز پر غور کیا گیا اور اب مرحلہ وار تعلیمی اداروں کی بندش کی تجویز بھی زیرغور ہے۔ شاید ہمارے اربابِ اختیار اور پالیسی ساز بھول گئے کہ کورونا کی پہلی لہر جب آئی تھی تو اس وقت بھی ہم نے پہلے چھ ایام کے لئے چھٹیاں دی تھیں اور پھر چھ مہینے سے زیادہ گھر بیٹھنا پڑا کیونکہ یہ وبا تو بڑھتی ہی گئی اور ابھی تک اس کی ویکسین مارکیٹ میں دستیاب نہیں‘ اگر موسم سرما کی تعطیلات میں اضافہ کیا جاتا ہے اور نومبر 2020ء سے جنوری 2021ء تک تعلیمی ادارے بند کئے جاتے ہیں تو خدانخواستہ دوبارہ گزشتہ فروری جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لہٰذا یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کرنا ہو گا اور کوشش کرنا ہو گی کہ بچوں کا تعلیمی سال ضائع نہ ہو اور تعلیمی سرگرمیاں تسلسل کے ساتھ جاری رہیں۔ ہمیں تعلیمی ادارے بند کرنے کے بجائے ایس او پیز پر عمل پیرا ہونا ہو گا، بچوں کو فیس ماسک کا پابند بنانا ہو گا، سماجی فاصلے کے اصول پر سختی سے عمل کرنا ہو گا اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہو کر تدریسی عمل جاری رکھنا ہو گا۔
وزیراعظم عمران خان ملک کی معاشی صورتِ حال کے پیش نظر لاک ڈائون کے حامی نہیں‘ انہیں چاہئے کہ متعلقہ حکام کو ہدایت کریں کہ ایس او پیز پر سو فیصد عمل کرا کے ہر حال میں تعلیمی سرگرمیاں بھی بحال رکھی جائیں۔ وزیراعظم صاحب کا کہناہے کہ کورونا کیسز بڑھے توصورتحال دیکھ کر تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی چھٹیاں کم کر کے سردیوں کی چھٹیاں بڑھا دیں گے۔ میرے خیال میں یہ تجویز آخری اور انتہائی مجبوری کے حالات میں ہونی چاہئے کیونکہ اگر سردیوں کی چھٹیاں بڑھا دیں اوراس کے بعد بھی کورونا قابو میں نہ آیا تو پھر گرمیاں بھی چھٹیوں میں ہی گزرنے کا خدشہ ہے۔ پہلے ہی لاکھوں بچوں کا انتہائی قیمتی تعلیمی سال ضائع ہو چکا ہے اور اس طرح خدا نخواستہ مزید ایک برس کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ کو چونکہ عوام سے براہِ راست واسطہ پڑتا ہے‘ شاید اسی لئے ضلعی انتظامیہ سے لے کر صوبائی حکام تک‘ سبھی تعلیمی اور کھیلوں کی سرگرمیاں جاری رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کے برعکس تعلیم کی طرح کھیلوں کے حوالے سے بھی وفاقی ادارے قوم کے مستقبل سے بے نیاز ہوکر چھٹیاں پسند کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں کرکٹ، فٹ بال اور ٹینس سمیت کھیلوں کی سرگرمیاں ایس او پیز کے تحت اور تماشائیوں کے بغیر جاری و ساری ہیں، پاکستان میں بھی صوبائی سپورٹس بورڈز نے متعدد پروگرام ترتیب دے رکھے ہیں، پنجاب میں ضلعی سطح پر مختلف کھیلوں کے مقابلے بھرپور انداز میں جاری ہیں لیکن تقریباً پونے تین سال سے مستقل سربراہ سے محروم پاکستان سپورٹس بورڈ کے افسران نے گزشتہ ہفتے پاکستان سپورٹس کمپلیکس اسلام آباد کو بلاوجہ دو ہفتے کے لئے بند کر دیا، اس فیصلے کی اکلوتی وجہ جو سمجھ آتی ہے وہ صرف اورصرف گھر بیٹھنے کی عیاشی ہے۔ چھٹی کے دوران انہیں تو بھاری تنخواہیں اور مراعات ملتی رہیں گی‘ نقصان تو قوم کا ہو گا جن کے پیسوں پر یہ لوگ عیاشی کر رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان خود بھی ایک سپورٹس مین ہیں اور ان سے بہتر ملکی کھیلوں کے حالات کون جانتا ہے، وہ کھیلوں کی اہمیت کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں لہٰذا انہیں چاہئے کہ پاکستان سپورٹس کمپلیکس کی بلاجواز بندش کا فوری نوٹس لیں اور وزارت بین الصوبائی رابطہ کو حکم دیں کہ کھیل کے میدان بند کرنے کے بجائے ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے کیونکہ ہم نے تعلیم اورکھیل کی سرگرمیوں پر روک نہیں لگانا بلکہ ان کے ذریعے اپنے شاہینوں کا مستقبل محفوظ بنانا ہے۔