'جان ہے تو جہان ہے‘ یہ کوئی سیاسی ڈائیلاگ نہیں بلکہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے تقریباً سبھی لوگ تسلیم کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی اور دوسروں کی صحت کا خیال نہ رکھنا یا جان کی حفاظت نہ کرنا معمول بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں کورونا وائرس کووڈ 19 کی پہلی لہر کی تباہ کاریاں دیکھنے اور یہ جاننے کے باوجود کہ موجودہ لہر پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہو رہی ہے‘ ایس او پیز پر عمل درآمد کی شرح بہت کم ہے۔ ابتدا میں کورونا وائرس کی شدت اتنی زیادہ نہ تھی اور وائرس بھی ملیریا اور ٹائیفائیڈ جیسی علامات کا حامل تھا لیکن اُس وقت اس عالمی وبا کا خوف اس قدر شدید تھا کہ لوگوں نے بڑی حد تک احتیاطی تدابیر پر عمل شروع کر دیا تھا اور یہی وہ واحد سبب تھا جس سے کووڈ 19 کی پہلی لہر پر بہت جلد قابو پا لیا گیا تھا بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان میں یہ وبا تقریباً ختم ہو چکی تھی؛ تاہم عالمی ادارۂ صحت، ہماری حکومت، سماجی و فلاحی ادارے اور میڈیا بار بار یہ تنبیہ کر رہے تھے کہ وبا کی شدت میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے لیکن مکمل خاتمہ نہیں ہوا اور جب تک اس کی ویکسین نہیں آتی‘ ایس اوپیز کو ہرگز نظر انداز نہ کیا جائے مگر ہماری قوم شاید ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دلیر ہے، جونہی وبا کی شدت کم ہوئی اور حکومت نے مرحلہ وار لاک ڈائون ختم کیا اور معمولاتِ زندگی بحال ہوئے تو لوگوں نے ایس او پیز پر عمل درآمد ترک کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد فیس ماسک کا استعمال بھی ختم ہو گیا، سماجی فاصلے کی بات تو گویا صرف کتابچوں تک ہی رہ گئی، ہینڈ سینی ٹائزر کا استعمال اور بار بار ہاتھ دھونے کا عمل بھی بھلا دیا گیا۔ اس عمل میں جہاں عوام قصوروار ہیں وہیں حکومت اور انتظامیہ کی غیر ضروری مصلحت و غفلت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کیونکہ جب اچانک سخت پابندیاں اٹھا کر نرمی اختیار کر لی جائے تو پھر قوم سے سنجیدگی کی توقع کرنا بے جا ہوتا ہے اور یہی کچھ ہوا‘ جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں۔ یہ حقیقت بھی سبھی جانتے ہیں کہ کورونا کی موجودہ لہر پہلی لہر سے کہیں زیادہ خطرناک اور شدید ہے‘ اس بار شرح اموات بھی پہلے سے زیادہ ہے جبکہ وائرس کی علامات بھی نمونیہ جیسی ہیں۔ موسم سرما کی شدت بھی روز بروز بڑھ رہی ہے جس سے لوگ زیادہ بیمار ہو رہے ہیں لیکن ان تمام تر باتوں کے باوجود قوم سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ ایک بات کورونا کی پہلی لہر کے دوران زبان زدِ عام تھی‘ یہ کہ شاید یہ صرف حکومتی پروپیگنڈا ہے اور بے وجہ سرکاری ہسپتالوں میں عام مریضوں کو کورونا کی فہرست میں ڈالا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ کسی کا قریبی عزیز اس وبا سے نہ تو متاثر ہوا اور نہ ہی مرا ہے بلکہ صرف سنی سنائی باتیں ہیں حالانکہ یہ سوچ سراسر غیرحقیقی تھی بلکہ سچ یہی تھا اور ہے کہ کورونا واقعی اپنی تباہ کاریاں پھیلا رہا تھا لیکن حکومت کی سختی اور میڈیا کی جانب سے آگاہی مہم سے لوگوں میں اس وبا کا ایک خوف پیدا ہو گیا تھا جس نے شہریوں کو بڑی حد تک ایس او پیز پر عمل درآمد پر مجبور کر دیا تھا۔ اس کے برعکس آج اس وبا میں پہلے سے کہیں زیادہ شدت ہے، آئے روز ہمارے قریبی افراد اور جاننے والے اس وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں اور کئی نامور افراد سمیت سینکڑوں لقمہ اجل بن چکے ہیں لیکن پھر بھی حفاظتی تدابیر پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ شاید اس کی وجہ لاک ڈائون میں نرمی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے خوف ختم ہو گیا ہے اور ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک نے خبردار کیا ہے کہ کورونا 2021ء میں بھی جاری رہے گا اور اس وبا سے پاکستان اور انڈیا بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس وبا کے سبب عالمی معیشت کی تباہ کاریاں آئندہ سال بھی بدستور جاری رہیں گی، وبا کے پھیلائو کے سبب عالمی معیشت اور انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق رہیں گے اور اس پر آئندہ سال بھی‘ کم از کم دوسری سہ ماہی تک‘ قابو پانے میں مشکلات درپیش رہیں گی۔ ترقی پذیر جنوبی ایشیاکے ممالک پر کورونا کی وبا کے خطرات سے متعلق یہ تازہ ترین رپورٹ بینک کے مرکزی آفس منیلا سے جاری کی گئی ہے، حالانکہ بینک نے اپنی گزشتہ پیش گوئی میں توقع ظاہر کی تھی کہ کورونا وبا کا پھیلائو سال 2020ء کے آخر تک رک جائے گا؛ تاہم تازہ رپورٹ میں اے ڈی بی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا کی وبا کے سبب عالمی معیشت کی تباہ کاریاں 2021ء میں بھی جاری رہیں گی اور اس وبا کے سبب پاکستان سمیت رکن ممالک میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور سیاحت میں کمی ہو گی، سفری پابندیاں لگیں گی، زرعی اجناس و دیگر اشیا کی سمگلنگ اور کورونا کے مریضوں کی آمد و رفت روکنے کیلئے بارڈر سیل کرنا پڑیں گے جبکہ عالمی تجارت اور سرمایہ کاری پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکا اور یورپی ممالک میں بھی کورونا کی وبا پر مکمل قابو نہیں پایا جا سکا اور ان ممالک میں یومیہ کورونا کے مریضوں میں 1 لاکھ تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں کورونا کے نئے مریضوں کی تعداد میں روزانہ 63 ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور انڈیا کورونا کی نئی لہر سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک کی صف میں شامل ہوا ہی چاہتے ہیں بلکہ بھارت تو ابھی تک پہلی لہر کے اثرات سے ہی نہیں نکل پایا۔ یہاں یہ ذہن نشین رہے کہ یہ پیش گوئی نہ تو گلی محلے کے کسی نجومی کی ہے اور نہ ہی کسی سیاسی رہنما کا بیان ہے جسے ہم یکطرفہ طور پر رد یا نظرانداز کر سکیں بلکہ ایک عالمی ادارے کی طرف سے جاری اس رپورٹ یا پیش گوئی کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کو متوقع صورتِ حال سے آگاہ کرنا ہے تاکہ اپنی اوردوسروں کی قیمتی زندگیوں کی حفاظت کے لئے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کیا جائے۔
آج کل سردی اور کورونا کی شدت کے باوجود ہمارے ملک میں سیاسی ماحول گرم ہے، عالمی وبا کے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے شادی بیاہ سمیت ہر قسم کے اجتماعات پر مختلف پابندیاں عائد کر جا چکی ہیں اور شرکا کی حد تعداد تین سو تک محدود رکھنے اور اجتماع کھلی جگہ کرنے کے بعد اب ریسٹورنٹس کے اندر ڈائننگ پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے اور لوگ ہوٹلوں میں بھی صرف باہر‘ کھلی جگہ پر ہی بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں۔ ایک طرف این سی او سی کی جانب سے آئے روز نئی ہدایات جاری کی جا رہی ہیں تودوسری طرف این سی اوسی کے اجلاسوں کی صدارت کرنے والے وفاقی وزیر اسد عمر نے خود ورکرز کنونشن میں شرکت کر کے اپوزیشن کو جواز فراہم کر دیا ہے۔ اب اسد عمر صاحب کسی دوسرے کو کیسے اجتماعات سے کورونا پھیلنے اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہہ سکتے ہیں؟ سب سے پہلے اربابِ اختیار کو خود ایس اوپیز کی پابندیاں اپنے اوپر لاگو کرنا ہوں گی تاکہ وہ دوسروں سے بھی ان پر عمل کرا سکیں۔ ادھر اپوزیشن اتحاد‘ پی ڈی ایم کے رہنمائوں کو بھی عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لئے اپنی سیاسی تحریک کے شیڈول اور طریقہ کار پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور اپنے جلسوں کو عارضی طور پر ملتوی یا موخر کر دینا چاہئے کیونکہ ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ امسال مئی‘ جون میں جب عیدالفطر کے موقع پر اچانک بازاروں میں لوگوں کا رش بڑھا تھا تو کورونا وبا کا گراف بھی اسی تیزی سے بلند ہوا تھا۔
چند ماہ قبل سابق وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی اور مسلم لیگ (ض) کے سربراہ محمد اعجاز الحق نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا کہ دونوں رہنما جلد ہی پریس کانفرنس کے ذریعے اپنی نئی سیاسی حکمت عملی کا اعلان کریں گے‘ پھر جمالی صاحب علیل ہو گئے اور چند روز قبل خالق حقیقی سے جا ملے۔ اس بات کے ذکر کا مقصد یہ ہے کہ جمالی صاحب کی زندگی کے ساتھ ہی ان کی سیاست کا باب بھی ختم ہو چکا ہے۔ اس وقت بلاول بھٹو زرداری سمیت کئی شخصیات کورونا وبا کا شکار ہو چکی ہیں‘ جان ہے تو جہان ہے، زندگی رہی تو سیاست ہوتی رہے گی لہٰذا حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کوچاہئے کہ فی الحال تمام غیر ضروری سیاسی سرگرمیاں ترک کر دیں اور اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کریں تاکہ عوام کی صحت اور زندگیوں کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے۔