غیر یقینی صورتحال: طلبہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان؟

کورونا وائرس کی تباہ کاریاں اپنی جگہ لیکن تعلیم سے متعلق ناقص پالیسیوں کے باعث طلبہ و طالبات کا دوسرا تعلیمی سال بھی ضائع ہو سکتا ہے۔ کووڈ 19 کا علاج تو احتیاطی تدابیر ہیں یعنی احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عمل پیرا ہو کر اس عالمی وبا سے بچا جا سکتا ہے اور اگر خدا نخواستہ وائرس حملہ آور بھی ہو جائے تو کسی نہ کسی طور اس کی ظاہر ہونے والی علامات کا علاج ہو سکتا ہے، دنیا بھر میں کروڑوں لوگ اس وائرس کا نشانہ بننے کے بعد صحت یاب ہو چکے ہیں لیکن ایک غلط فیصلہ لاکھوں بچوں کا مستقبل تاریک کر سکتا ہے۔
ملک میں کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران منصوبہ بندی کے بغیر اچانک ملک بھر کے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے تھے‘ ابتدا میں تو آن لائن کلاسز کا نظام بھی رائج نہیں تھا، رفتہ رفتہ آن لائن کلاسز کا سوچا گیا لیکن پاکستان میں ستر فیصد سے زائد آبادی تیز انٹرنیٹ کی جدید سہولتوں سے محروم ہے جس کی وجہ سے سٹوڈنٹس کی اکثریت اس سہولت سے مستفید نہیں ہو سکی۔ ان غیر معمولی حالات میں امتحانات کا انعقاد بھی آسان نہیں تھا لہٰذا بیشتر جماعتوں کے ریگولر امیدواروں کو امتحانات کے بغیر ہی پروموٹ کر دیا گیا؛ تاہم پرائیویٹ طلبہ و طالبات کی اکثریت پروموٹ بھی نہ ہو سکی۔ جن سٹوڈنٹس نے پروموشن حاصل کی، پڑھائی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بھی تعلیمی سال ضائع ہی قرار دیا جائے گا کیونکہ وہ کچھ سیکھ نہ سکے۔ سب سے زیادہ نقصان میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر فنی شعبہ جات کے طلبہ کا ہوا کیونکہ لاک ڈائون اور تعلیمی اداروں کی بندش کے دوران ٹریننگ اور پریکٹس بری طرح متاثر ہوئی جو پیشہ ورانہ کیریئر میں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اسی طرح سوچے سمجھے بغیر کھیلوں کے میدان بند کر دینے سے نوجوان نسل منفی سرگرمیوں کی جانب زیادہ مائل ہونا شروع ہو گئی اور مثبت سرگرمیاں نہ ملنے سے ٹک ٹاک جیسی فضولیات میں وقت ضائع کیا گیا۔ ملک بھر میں نوجوانوں کی خاصی تعداد مختلف جرائم میں بھی ملوث پائی گئی جبکہ کم عمری میں تشدد کے واقعات میں بھی لاک ڈائون کے دوران کئی گنا اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ سٹریٹ کرائم کا گراف بھی یک دم بلند ہو گیا، غرض ہر طرح سے لاک ڈائون سے نقصان ہی نقصان ہوا۔ جب لاک ڈائون کے خاتمے کے بعد کھیلوں کے میدان آباد ہوئے تو نوجوان نسل ایک بار پھر کھیل کود میں مصروف ہو گئی، صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ ملا جس سے نہ صرف تشدد اور جرائم میں کمی واقع ہوئی بلکہ نوجوانوں میں کورونا وائرس کی شکایات بھی کم پائی گئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سکول، کالجز، جامعات اور کھیلوں کے میدان منصوبہ بندی کے بغیر غیر معینہ مدت کے لئے بند کرنا ایک غلط فیصلہ تھا جس نے قوم کے مستقبل‘ نوجوان نسل کا ایک قیمتی تعلیمی سال ضائع کر دیا۔ اگر چھ مہینے بعد ایس او پیز کے تحت تعلیمی ادارے کھولے جا سکتے تھے تو پہلے سے اس کی پلاننگ کیوں نہ کی گئی اور پہلے ماہ ہی ایس او پیز کیوں تیار نہ کیے گئے؟ پھر جب تعلیمی ادارے کھلے تو ہم نے دیکھا کہ ایس او پیز پر عمل پیرا ہوکر تعلیمی نظام بحال ہوگیا، جامعات کے طلبہ و طالبات تو ویسے بھی میچور ہوتے ہیں لیکن سکولوں اورکالجوں میں بھی تعلیمی عمل شروع ہونے سے کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا نہ ہی کوئی ایسا ثبوت مل سکا کہ سکولوں، کالجوں یا تعلیمی اداروں سے کورونا کو فروغ ملا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ طویل عرصہ تک تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ غیر دانشمندانہ تھا۔ تعلیمی ادارے کھلنے سے ان بچوں کو بھی فائدہ ہوا جو انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے سبب آن لائن کلاسز سے محروم تھے۔ یوں تعلیمی نظام کامیابی سے بحال ہوا لیکن شاید یہ حقائق ہمارے اربابِ اختیار کی نظروں سے پوشیدہ رہے، اسی لئے جب ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر شروع ہوئی تو ایک بار پھر زمینی حقائق کا جائزہ لیے بغیر سب سے پہلے تعلیمی اداروں کو مقفل کر دیا گیا۔
اہلِ علم کے لئے یہ بات سخت پریشانی کا باعث ہے کہ ملک بھر میں تمام بازار، مارکیٹیں اور تجارتی مراکز کھلے ہیں جہاں کسی قسم کے ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، پھل و سبزی منڈیوں میں کاروباری سرگرمیاں عروج پر ہیں اور وہاں بولی کے وقت اس قدر رش ہوتا ہے کہ ایس او پیز پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں رہتا، پبلک ٹرانسپورٹ کے اڈوں پر ہجوم کے علاوہ بسوں اور ویگنوں میں سواریاں بٹھانے کے حوالے سے بھی ایس اوپیز کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے ، کارخانے اپنی پوری استعداد کے ساتھ چل رہے ہیں اور مزدور و عملہ پہلے سے اگر زیادہ نہیں تو تھوڑا کام بھی نہیں کر رہا، نجی کمپنیوں میں بھی پچاس فیصد عملے کی بات صرف حکومتی مراسلوں تک ہی محدود ہے۔ ریلوے سٹیشنوں پر جائیں تو وہاں بھی سماجی فاصلے کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، ماسک کی پابندی بینر یا سٹیکر چسپاں کرنے سے زیادہ نہیں ہے اور نہ ہی عملی طور پر کہیں پر اس کا نفاذ ہے، وائرس کی پہلی لہر کے دوران پبلک مقامات پر ہاتھ دھونے کی جو سہولت فراہم کی گئی تھی اور کلورین ملے پانی کے جو ڈرم رکھے گئے تھے‘ اب وہ بھی کہیں نظر نہیں آتے، مختلف اداروں کے داخلی دروازوں پر نصب ڈِس انفیکشن گیٹ بھی غیر فعال ہو چکے ہیں، مارکیٹیں جلدی بند کرانے کے احکامات پر بھی خال خال ہی عمل کرایا جا رہا ہے، تمام شہروں میں واقع پبلک پارکس بھی کھلے ہیں جہاں ایس او پیز پر عمل درآمد کیا جا رہا ہوتا تو شاید کوئی وہاں کا رخ ہی نہ کرتا، لیکن ان سب کے برعکس تعلیمی ادارے بند پڑے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ انتہائی عجلت میں یہ فیصلہ کیا گیا اور کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اگر بازار، منڈیاں، ٹرانسپورٹ اڈے، کارخانے اور دیگر تمام شعبہ جات کھلے رکھے جا سکتے ہیں تو پھر تعلیمی اداروں کو ایس او پیز کے تحت کیوں نہیں چلایا جا سکتا؟وزیراعظم عمران خان بار بار کہتے رہے کہ کمزور معیشت کے باعث ہم کاروبار مکمل بند نہیں کر سکتے، وزیراعظم صاحب کی اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پہلے بھی لاک ڈائون سے نہ صرف غربت میں اضافہ ہوا تھا بلکہ معیشت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی تھی لیکن حیرت ہوتی ہے کہ تعلیمی سال ضائع ہونے کا کسی کو ملال نہیں۔ شادیوں اور دیگر اجتماعات میں تین سو تک شرکا کی اجازت ہے لیکن ایک کلاس روم جہاں زیادہ سے زیادہ تیس‘ چالیس بچے بیٹھتے ہیں اور جہاں ایس او پیز پر عمل درآمد بھی آسان ہے‘ انہیں بند کر دیا گیا ہے۔ نوجوان نسل کا تعلیمی ضیاع معاشی خسارے سے زیادہ نقصان دہ ہے لیکن کسی کو اس کی فکر نہیں۔ مقامِ شکر ہے کہ اس بار کھیل کے میدان بند نہیں کیے گئے ورنہ نوجوان نسل دوبارہ منفی سرگرمیوں میں مشغول ہو جاتی۔
اس وقت سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ کسی کو اس بات کا یقین نہیں کہ گیارہ جنوری کو تعلیمی ادارے کھلیں گے یا نہیں؟ ایک عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ حکومت نے صرف عوامی ردعمل سے بچنے کے لئے غیر معینہ مدت تک تعلیمی ادارے بند کرنے کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا؛ تاہم اب کوئی نیا جواز بنا کر تعلیمی اداروں کی بندش میں توسیع کی جا سکتی ہے۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت غیر سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کرے گی اور نوجوان نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے گیارہ جنوری کو ملک بھر کے تمام تعلیمی ادارے کھول دیے جائیں گے۔ طلبہ اور والدین کے لئے پریشان کن بات غیر یقینی صورتِ حال ہے کیونکہ اگر تعلیمی ادارے مزید بند رکھے گئے تو اس سال بھی طلبہ و طالبات کو بغیر امتحان ہی پروموٹ کرنا پڑے گا جو شاہینوں کا مستقبل تاریک کرنے کے مترادف ہے، لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ غیر یقینی کیفیت ختم کرے اور صوبوں کی مشاورت سے تعلیمی ادارے مقررہ تاریخ پر کھولے جائیں اور اگر ضروری ہو تو ایس او پیز پر نظرثانی کرکے انہیں مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے تاکہ تعلیمی سفر بہر صورت جاری رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں