ہم اس بات پر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتے ہیں کہ 'اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ کے شہری ہیں، ایک ایسا ملک جو کلمہ طیبہ کے نام پر بنایا گیا، جو ایک آزاد وطن ہے، جس میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یہاں بسنے والے دیگر تمام مذاہب کے افراد کو بھی اپنے مذہب، عبادات اور رسم و رواج سمیت ہر قسم کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ وطنِ عزیز دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت بھی ہے اور اسی وجہ سے ہمارے ازلی دشمن کو پاک سرزمین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ ہم اس آزاد اسلامی ریاست پر اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کریں‘ کم ہے، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو ملک میں صحیح اسلامی جمہوری نظام پروان چڑھانے، اس ملک کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے اور غربت، مہنگائی و بیروزگاری ختم کرکے عوام کو خوش حال بنانے سے زیادہ صرف اقتدار کی مسند تک پہنچنے کی خواہش ہوتی ہے۔ وہ اس منزل کو پانے کے لئے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، عوام کو دھوکا دیتے ہیں، بلند بانگ دعوے کرتے ہیں، سبز باغ دکھاتے ہیں، اپنے حلقے کو لندن اور پیرس سے زیادہ خوبصورت و ترقی یافتہ بنانے کے وعدے کرتے ہیں، الیکشن کے قریب اپنے حلقے کے غریب سے غریب ووٹر سے بھی تعلق واسطہ قائم کر لیتے ہیں، میلے لباس والوں کو گلے لگاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بھی انہی عوام میں سے ہیں اور ان کی نمائندگی کرنے اور عوام کی آواز بننے کے لئے ہی سیاست کے میدان میں اترے ہیں، وڈیروں کے ڈیروں پر بڑے بڑے دسترخوان سجائے جاتے ہیں اور اعلیٰ قسم کے خوش ذائقہ کھانوں سے ووٹروں کی تواضع کی جاتی ہے، شہروں میں پینے کے صاف پانی، جدید سیوریج سسٹم، اعلیٰ تعلیم اور جدید صحت کی سہولتوں جبکہ دیہی علاقوں میں ہر گھر تک بجلی و گیس، دور دراز علاقوں تک سڑکوں کا جال بچھانے، سکول، کالج اور ہسپتال بنوانے اور دیگر سہولتوں کے ساتھ حلقے کے ہر بیروزگار کو اچھی سرکاری نوکری دینے کے پُرکشش اعلانات کیے جاتے ہیں۔ انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو جائے تو پھر ہارنے والا تو ویسے ہی عوام سے یہ کہہ کر تعلق توڑ لیتا ہے کہ وہ تو الیکشن ہار گیاہے اور اب پانچ سال تک اہالیانِ علاقہ کی خدمت اس کی ذمہ داری نہیں۔ جو انتخابی معرکہ جیت جاتا ہے‘ وہ آسمان کی سی بلندیوں پر اڑنے لگتا ہے۔ وہی ڈیرہ‘ جہاں حلقے کے غریبوں کو ٹیلی فون کر کر کے بلایا جاتا تھا اور ان کی خوب خاطر تواضع کی جاتی تھی‘ اب سکیورٹی کے نام پر اس کے راستے غریبوں کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں۔ کوئی پینے کے صاف پانی کا مطالبہ کرے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ اس کے آبائو اجداد جوہڑوں اور تالابوں سے پانی بھرتے رہے ہیں اور اُن کی صحت فلٹر والا پانی پینے والوں سے زیادہ اچھی ہوتی تھی، کوئی بجلی اور گیس کی فراہمی کے وعدے یاد دلائے تو اسے بھی ماضی کی مثالیں دی جاتی ہیں، کوئی سڑک کی بات کرے تو اسے سمجھایا جاتا ہے کہ سڑک یا پل ترقی نہیں بلکہ اصل چیز تعلیم و صحت کی سہولتیں ہیں، اگر کوئی غریب علاقے کے سرکاری سکول میں اساتذہ یا سہولتوں کی کمی بارے شکایت کرے تو اسے یہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے 'ہمارے اپنے بچے نجی اداروں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں‘ لیکن یہ نہیں بتایاجاتا کہ پندرہ یا بیس ہزار روپے ماہوار آمدن والا شخص اپنے بچوں کی ہزاروں روپے فیسیں کیسے ادا کرے، کوئی پریشان حال شہری اپنی یا اپنے بیروزگار بچوں کی نوکری کے لئے درخواست لے کر جائے تو اسے یہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے کہ خزانہ خالی ہے، حکومت پہلے ہی لوگوں کو نوکریوں سے نکال رہی ہے، تنخواہیں دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں تو نئی بھرتیاں کیسے کی جا سکتی ہیں؟
بدقسمتی ہی ہے کہ اس آزاد ایٹمی ملک کی سیاست زیادہ تر جھوٹ، فریب، سفارش، دعووں اور وعدوں پر چل رہی ہے، الیکشن سے پہلے جو انتخابی منشور دیا جاتا ہے، جو وعدے اوردعوے کئے جاتے ہیں اور عوام کو جو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، وہ سب بھلا کر ہمارے نمائندوں کی اکثریت اپنی ناجائز خواہشات کی تکمیل میں مگن ہو جاتی ہے، سب سے پہلے اپنے بچوں کو بیرونِ ملک سیٹ کرایا جاتا ہے یا کسی غریب مستحق کے حق پر ڈاکا ڈال کر کسی پُرکشش اسامی پر لگوا دیا جاتا ہے، پھر اپنی گاڑیوں کو اپ گریڈ کیا جاتا ہے بلکہ بم پروف اور بلٹ پروف سرکاری گاڑیاں لی جاتی ہیں۔ جائیداد میں اضافے کے لئے غریبوں کی زمینیں اونے پونے داموں خریدنے کے ساتھ‘ جہاں پر دائو لگے‘ قبضہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا اور اپنے ووٹروں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے لئے سیاسی اثر و رسوخ اور سرکاری مشینری کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہزاروں روپے تنخواہ لینے والے ملازم کو سخت حالات کا بتا کر تنخواہ میں اضافے سے انکار کر دیا جاتا ہے لیکن جب اپنا معاملہ پیش آتا ہے تو اپنی لاکھوں روپے تنخواہ میں مہنگائی کے پیشِ نظر خود ہی کئی گنا اضافہ ناگزیر قرار دیا جاتا ہے۔ غریب کو بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی بھوک پیاس کو ہمت وحوصلے سے برداشت کرے، گھبرائے نہیں اور ان حالات کا ذمہ دار ماضی کے حکمرانوں کو قرار دے کر‘ انہیں چور، لٹیرا اور برا بھلا کہہ کر صبر کرے۔
بطور کارکن صحافی‘ کئی حکومتوں اور سیاست دانوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ وہی ووٹر جو سیاسی امیدواروں کی آنکھ کا تارا ہوتے ہیں‘ الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد جب عوام اپنے ووٹ سے منتخب ہونے والے نمائندے کومبارکباد دینے کیلئے جاتے ہیں تو ایک سیلفی یا تصویر بنوانے کے بعد یہ کہہ کر ڈانٹ دیا جاتا ہے کہ اب یہاں سے اٹھو اور دوسروں کو موقع دو، اس ڈانٹ کا مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ ایوانِ اقتدار میں پہنچنے کے بعد اب غریب لوگ ان سے فاصلے پر ہی رہیں، یہ سیاستدان جب ایک بار اسمبلی‘ سینیٹ یا اقتدار و اختیار کی کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں تو پھر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جب تک زندہ ہیں‘ کسی دوسرے کوموقع بھی نہ دیں۔ وہ دوسروں کو تو موروثی سیاست کے بڑے طعنے دیتے ہیں لیکن خود اپنی سیاسی نشست کو خاندانی وراثت بنا لیتے ہیں۔ اکثر افراد نے اپنے فرنٹ مین رکھے ہوئے ہیں جو ناجائز کمائی سے بڑا حصہ بڑی ایمانداری سے چپ چاپ ان تک پہنچا رہے ہوتے ہیں، اگر وہ یہی ایمانداری اپنے کام میں دکھاتے تو آج وطن عزیز دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتا۔
البتہ تمام سیاستدان نہ توکرپٹ ہیں اور نہ ہی جھوٹی سیاست کرتے ہیں بلکہ آج کے دور میں بھی کئی لیڈر سچائی اور ایمانداری کی مثال ہیں، جنہیں اپنی ذات سے زیادہ وطن عزیز کی ترقی و خوش حالی مقدم ہے، جو آج بھی جھوٹ و فریب کے بجائے غریب عوام کی خدمت کو اپنی سیاست کا مقصد سمجھتے ہیں، جو آج بھی تھانے و کچہری کے بجائے قومی و اجتماعی مفاد والی سیاست کوترجیح دیتے ہیں ۔ نیک، ایماندار اور محب وطن سیاستدان ماضی میں بھی موجود تھے اورآج بھی حکومت و اپوزیشن دونوں اطراف میں موجود ہیں، لیکن ایسی سیاسی لیڈرشپ ایک تو نصیب والوں کو ملتی ہے‘ دوسرا، ایسے سیاستدانوں کا حال قومی ہیرو ایئر مارشل (ر) نور خان (مرحوم) جیسا ہوتا ہے جنہیں قومی ترقی کی بات کرنے پر دوبارہ ووٹ نہیں ملتے اور ایک بار بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد دوسری بار انتخابی شکست ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔
سیاست عوامی خدمت کا بہترین ذریعہ ہے اگر ہمارے سیاسی رہنما اپنے ووٹروں، حلقے اور ملک کی خدمت کو اپنا شعار بنا لیں تو نہ صرف نیک نامی اور شہرت کی بلندیاں پا سکتے ہیں بلکہ مخلوقِ خدا کی خدمت سے اللہ کی رضا بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہمارا ملک پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، معیشت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، مہنگائی عروج پر ہے اور بیروزگاری عام ہے، رہی سہی کسر کووڈ 19نے پوری کر دی ہے، ان حالات میں ہمارے سیاستدانوں کو چاہئے کہ سب سے پہلے ملک کو بچائیں، سیاست ہوتی رہے گی، ذاتی اختلافات بھلا کر قوم کے اجتماعی مفاد میں حزبِ اقتدار و حزبِ اختلاف‘ دونوں اطراف سے مثبت سوچ کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے تاکہ عوام کو جھوٹے نعروں کے بجائے عزت کے ساتھ دو وقت کی روٹی تو ملتی رہے۔