دہشت گردوں کا نہ تو کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی قومیت؛ البتہ وہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لئے ان خوشنما نعروں کو استعمال ضرور کرتے ہیں۔ اسلام دنیا کا سب سے پُرامن مذہب ہے جو ہمیشہ اخوت، امن اور محبت کا درس دیتا ہے۔ احترامِ انسانیت اس عالمگیر مذہب کا اہم جزو ہے۔ اسلام لفظ بھی سلم سے نکلا ہے جس کا مطلب سلامتی اور امن ہے۔ دین اسلام نے ہمیشہ قتل و غارت اور تفرقہ بازی سے منع کیا ہے اور آپس میں بھائی چارے کے فروغ کی تلقین کی ہے۔ اسلام میں ایک بے گناہ شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘۔
دشمنوں نے جب بھی مسلمانوں پر حملہ کیا تو انہوں نے زیادہ تر فرقہ پرستی کی آڑ لے کر دہشت گردی اور تخریب کاری کی کوشش کی۔ دشمن جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو صرف فرقہ پرستی کا شکار کر کے ہی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ جیسے پہلے عرض کی کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب اور کوئی قومیت نہیں ہوتی لیکن دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے کسی خاص گروہ کو ضرور نشانہ بناتے ہیں تا کہ ملک و قوم کو انتشار کا شکار کیا جا سکے۔گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچستان میں ہزارہ برادری کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اس دوران کوئی سال ایسا نہیں گزرا جس میں ہزارہ برادری کے لوگ کسی بڑی دہشت گردی کا نشانہ نہ بنائے گئے ہوں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق‘ اب تک اس کمیونٹی کے تقریباً دو ہزار باشندے ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ بلوچستان میں ہونے والی ہر قسم کی دہشت گردی اور تخریب کاری کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہاتھ ہے اور دشمن اپنے ناپاک عزائم کی خاطر بلوچستان کے معصوم عوام کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اگرچہ یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے جاری ہے کیونکہ روزِ اول سے ہی کامیاب اور ترقی کرتا پاکستان دشمن کی نظر میں کھٹکتا ہے اور وہ اسے ترقی کرتا اور پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا اس لیے تخریب کاری اور دہشت گردی کے مختلف منصوبوں کے ذریعے اسے نقصان پہنچانے کی کوششیں کرتا رہتا ہے لیکن بلوچ عوام کو داد دینا چاہئے کہ انہوں نے ہمیشہ دشمن کی چالوں کو ناکام بنایا ہے۔
عالمی دہشت گرد ایجنسی 'را‘ نے طویل عرصے سے ہزارہ کمیونٹی کو اپنے نشانے پر لے رکھا ہے اور اس کا مقصد دہشت گردی کو فرقہ واریت کا رنگ دے کر ملک و قوم کو تقسیم کرنا ہے؛ تاہم یہاں پر ہزارہ برادری خراجِ تحسین کی مستحق ہے جس نے دہشت گردی کو کوئی بھی اور رنگ دینے سے ہمیشہ گریز کیا، شاید دشمن یہی خفت مٹا نہیں پا رہا اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے اس نے ہزارہ برادری کی نسل کشی شروع کر رکھی ہے، کبھی بس کو روک اس میں سے ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا تو کبھی ہزارہ ٹائون میں بم دھماکے کر کے درجنوں معصوم و بے گناہ لوگوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا، اتنے مظالم کے باوجود اس برادری کی جانب سے آئین و قانون کی ہمیشہ پاسداری کی گئی اور ہمیشہ سے حصولِ انصاف کے لیے پُرامن احتجاج کا راستہ اختیار کیا گیا۔ جس برادری، خاندان یا گھرانے کے بے گناہ لوگوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے، صدائے حصولِ انصاف بلند کرنا اور اس کے لیے دھرنا دینا اس کاحق ہے۔ اب یہ ہمارے سیاستدانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس مظلوم برادری کے زخموں پر مرہم رکھیں اور انصاف کی فراہمی کے لئے نہ صرف یقین دہانی کرائیں بلکہ تمام وسائل بھی بروئے کار لائیں۔ ایسے سانحات و واقعات پر کسی بھی قسم کی سیاست قطعاً درست نہیں ہے، یہ دشمن کے مقاصد کو اپنے ہاتھوں پورا کرنے کے مترادف ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو دیکھنا چاہیے کہ جب بھی خدا نخواستہ ملک میں کوئی ایسا موقع آئے تو سیاست کو بالائے طاق رکھ کر تمام سیاسی رہنمائوں کو مظلوم خاندانوں کی دادرسی کے لئے اُن کے پاس جاکر ان کی ڈھارس بندھانا چاہئے اور یہ یقین دلانا چاہیے کہ پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں بلاتفریق اپنے عوام کے ساتھ کھڑی ہیں اور تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود ملکی سلامتی کے اہم معاملات پر ہم متحد ہیں اوردشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح مضبوطی سے صف آرا ہیں۔ اسی طرح حکومت کو بھی چاہئے کہ بیرونی دشمنوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے کے لئے تمام قومی سیاسی قوتوں کو اعتماد میں لے اور انہیں ساتھ ملا کر چلے۔ کسی بھی مسئلے کو انا پرستی یا اختلاف کا شکار نہ ہونے دے۔
80ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں والد صاحب کا کوئٹہ ٹرانسفر ہوا تو مجھے بھی چھٹی سے آٹھویں جماعت تک وہاں پڑھنے کا موقع ملا۔ ہم چونکہ کوئٹہ کینٹ کے علاقے میں ایک بوائز سکول کے طالب علم تھے اور اس سکول میں مقامی طلبہ کے ساتھ ملک بھر سے آئے ہوئے فوجیوں کے بچے زیر تعلیم تھے‘ اس لئے تقریباً ملک کے سبھی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف علاقائی زبانیں بولنے والے بچے ہمارے ہم جماعت تھے، ان میں مقامی ہزارہ کمیونٹی کے بچے نمایاں تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ہمارے تمام دوست سائیکل پر سکول آتے تھے اور ان کے پاس سکول کے بستے کے ساتھ فٹ بال ضرور ہوتا تھا۔ یہ آج سے تقریباً اڑتیس سال پہلے کی بات ہے اور اس وقت بھی یہ کمیونٹی انتہائی پُرامن اور مثبت سوچ کی حامل تھی۔ تب انہیں پڑھائی کے علاوہ صرف فٹ بال سے محبت تھی اور وہ فارغ اوقات میں کھیل کے میدان میں موجود ہوتے تھے۔ ہم نے کبھی اس برادری کی انتہاپسندی کی جانب رغبت نہیں دیکھی۔ جس زمانے کا ذکر میں کر رہا ہوں اس وقت بلوچستان انتہائی پُرامن تھا۔ ہم والد صاحب کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ پر اندرونِ صوبہ کئی بار گھومنے پھرنے گئے۔ متعدد مواقع پر بلوچ عوام کی میزبانی سے لطف اٹھایا۔ اس وقت ملک بھر سے لوگ شاپنگ کے لئے کوئٹہ جایا کرتے تھے۔ چین کی سائیکل، جرمنی کی لالٹین، گیس لیمپ، تھرماس، رضائی کا کپڑا، کاسمیٹکس، ایرانی ڈنر سیٹ اور دیگر سامان وہاں سے بہت معیاری، اچھا اور سستا ملتا تھا۔ یہ زیادہ تر سامان چمن کے راستے آتا تھا۔
کوئٹہ میرا سب سے پسندیدہ شہر تھا۔ برف باری میں کھیل کود کرنا اور سائیکل پر پورے شہر کا چکر لگانا آج بھی اکثر یاد آتا ہے۔ اس کے بعد بھی کئی بار کوئٹہ جانے کی خواہش پیدا ہوئی کہ کم ازکم ان تمام جگہوں کی دوبارہ سیر کروں جہاں ہم بچپن میں جایا کرتے تھے، ان میں اوڑھک اور ہنہ جھیل خاص طور پر شامل ہیں، لیکن جب صوبہ بلوچستان عالمی ایجنسیوں کا اکھاڑہ بنا، وہاں دہشت گردی کی لہر آئی اور کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کا امن سوچے سمجھے منصوبوں کے تحت تباہ کیا گیا تو ایسے حالات میں بلوچستان بالخصوص کوئٹہ جانے کی خواہش بھی انجانے خوف تلے دب کر رہ گئی۔ وہاں جانے کا نہ تو کوئی معقول بہانہ بن سکا اور بلاوجہ وہاں جانے کی ہمت بھی نہیں ہو سکی۔ میں تو سیر و سیاحت کی غرض سے بلوچستان جانا چاہتا ہوں تاکہ وہاں جا کر کسی پرانے دوست کو تلاش کر سکوں یا اپنی بچپن کی یادیں تازہ کر سکوں لیکن ان حالات میں سیر و سیاحت کا مزہ نہیں آ سکتا اور یہی سوچ کر اپنی خواہش دبائے بیٹھا ہوں۔ اب اگرچہ بلوچستان کے حالات قدرے پُرامن ہیں اور سکیورٹی فورسز نے لاتعداد جانی و مالی قربانیوں کے بعد بلوچستان کاامن و امان بحال کیا ہے مگر اب بھی اکا دکا واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، ورنہ پہلے ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ دیگر صوبے کے افراد بالخصوص پنجابیوں کے گھروں کے باہر نشانات لگا کر ڈیڈ لائن دی جاتی تھی کہ فلاں تاریخ سے پہلے پہلے صوبہ چھوڑ کر واپس چلے جائیں ورنہ مار دیے جائیں گے۔ دہشت گردوں نے کہیں فرقہ واریت اور کہیں لسانیت کی آڑ لی اور ان عوام دشمن کارروائیاں کا مقصد صرف لوگوں میں خوف و ہراس اور ریاست کے خلاف اشتعال پیدا کرنا تھا۔ اس زمانے میں ہزاروں خاندان بلوچستان میں زندگی بھر کی جمع پونجی چھوڑ کر صوبہ بدر ہوئے۔
بات ہزارہ کمیونٹی کی ہو رہی تھی، مختلف سنگین واقعات اور سانحات نے بچپن کے دوست یاد دلا دیے جو اس پُرامن برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ تو ان حالات سے ماورا ہر وقت فٹ بال کھیلنے اور سائیکل پر سیر و تفریح کی باتیں کرتے تھے۔ خدا جانے پھر کس کی نظر لگ گئی، ہمارے بیرونی دشمنوں نے انہیں خاص طور پر نشانے پرکیوں رکھ لیا۔ اس بات کی گہرائی میں جائیں تو یقینا یہی جواب سامنے آتا ہے کہ دہشت گرد ایک مخصوص کمیونٹی کو ٹارگٹ بنا کر پاکستان بالخصوص خصوصاً رقبے کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں حالات خراب کرنا چاہتے ہیں جس کا مقابلہ ہم صرف عقل و دانش سے ہی کر سکتے ہیں اور باہمی اتحاد و اتفاق سے اپنے دشمنوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔گزشتہ دنوں بلوچستان کے علاقے مچھ میں جن گیارہ کان کنوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایاگیا وہ سب شہدا محنت مزدوری کرنے والے لوگ تھے، اور محنت کرنے والا اللہ کا دوست ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کی کسی سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے‘ یہ یقینا ہمیں تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ اس موقع پر اپوزیشن کو حکومت کا مکمل ساتھ دینا چاہئے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو سکے۔ دوسری جانب حکومت کو بھی چاہئے تھا کہ پہلے روز ہی ہزارہ برادری کے تمام تحفظات دور کیے جاتے کیونکہ وہ تو مظلوم ہیں، ان کا احتجاج تو ایک فطری عمل تھا۔ ہمیں چاہئے کہ بحیثیت قوم متحد ہو کر دشمن کو یہ پیغام دیں کہ ملکی سلامتی کے معاملات پر سب یکجان اور ایک پیج پر ہیں۔