اللہ پاک نے پاکستان پر خصوصی فضل وکرم کیا کہ کورونا وائرس نے دنیا بھر میں جتنی تباہی مچائی، اس کے مقابلے میں ہمارے ملک میں کووڈ 19کے متاثرین کی تعداد بہت محدود رہی جبکہ پاکستان میں اس عالمی وبا سے ہونے والی اموات کی شرح بھی بیرونی دنیا کے مقابلے میں انتہائی کم رہی۔ یہ ہم پر رب تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے ورنہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہاں کبھی بھی عالمی ادارۂ صحت اور حکومت کی جانب سے جاری کردہ احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز پر سو فی صد عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔ جن ممالک میں اس موذی وبا نے بہت زیادہ تباہی مچائی اور لاکھوں افراد موت کی وادی میں چلے گئے‘ وہاں احتیاطی تدابیر پر عمل اور قرنطینہ کی پابندی پر بہت زیادہ سختی سے عمل کیا گیا۔ کئی ممالک میں تو کرفیو بھی نافذ رہا اور اب بھی ہے۔ لوگ خود بھی وائرس کے خوف سے گھروں تک محدود رہے جبکہ ہماری قوم ایسے معاملات میں خود کو کچھ زیادہ ہی دلیر سمجھتی ہے۔ بعض حلقے اسے بے وقوفی یا کم عقلی بھی کہتے ہیں۔ جس شخص کو اپنی جان کی پروا نہ ہو‘ اس سے آپ دوسروں کی جان کی حفاظت کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔
کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران جب ملک بھر میں تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے، کھیل کے میدانوں میں داخلہ ممنوع تھا، پبلک ٹرانسپورٹ روک دی گئی، شٹر ڈائون کرکے کاروبار بن کر دیا گیا، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا اجرا بھی معطل رہا، گاڑیوں کی رجسٹریشن و ٹرانسفر کاعمل تو اس حد تک متاثر ہوا کہ پنجاب میں ابھی تک لاکھوں مالکان اپنی گاڑی کے ٹرانسفر کے چکر میں خوار ہو رہے ہیں، سرکاری و نجی دفاتر میں حاضری نصف کر دی گئی حتیٰ کہ ہسپتالوں میں بھی او پی ڈیز بند رہیں، یہ وہ وقت تھا جب ملک میں کورونا وائرس کی آگاہی مہم کے باعث شدید خوف و ہراس پھیل چکا تھا۔ تب بھی ہمارے لوگ گھروں میں نہ بیٹھے اور غیرضروری طور پر گلیوں اور محلوں میں گپ شپ کی محفلیں قائم و دائم رہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ بند رہی لیکن سڑکوں پر رش بالکل ختم نہ ہو سکا، اسی طرح تعلیمی ادارے اورکھیل کے میدان بند تھے لیکن نوجوانوں نے گھر میں بیٹھنا پسند نہ کیا۔ یہ صورتِ حال تو اس وقت کی بیان کی گئی جب کووڈ 19 کی پہلی لہر کے دوران دنیا بھر سے تباہی کی خبریں مسلسل آ رہی تھیں اور خوف و بے یقینی کی ایک فضا پوری دنیا پر چھائی ہوئی تھی۔ اس وقت نہ تو وائرس کی ویکسین کے کوئی آثار تھے اور نہ ہی اس کی شدت میں کمی آ رہی تھی۔ اس وقت صرف مفروضے تھے کہ شاید گرم موسم میں اس کی شدت کم ہو جائے، شاید مرطوب فضا میں اس کا اثر ایسا ہو۔ پھر وائرس میں کمی آئی، لاک ڈائون ختم ہوا اور معمولاتِ زندگی بحال ہوئے تو رہی سہی کسر بھی نکل گئی اور احتیاطی تدابیر پر جتنا عملدرآمد ہو رہا تھا‘ وہ بھی پس پشت ڈال دیا گیا۔ کورونا کی دوسری لہر جو پہلی لہر سے زیادہ خطرناک تھی اور جس میں وائرس مزید مہلک ہو چکا تھا‘ کے دوران ہماری قوم کا خوف بالکل ختم ہو چکا تھا؛ تاہم اللہ تعالیٰ کا فضل ہر صورت میں شاملِ حال رہا اور وبا نے زیادہ تباہی نہ پھیلائی۔ اس بار حکومت نے بھی سب کچھ ٹھپ کرنے کے بجائے سمارٹ لاک ڈائون کی پالیسی اپنائی جو قدرے کامیاب رہی ورنہ حقیقت میں ہمارے رویے صرف دعووں تک ہی محدود تھے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ملک بھر میں کورونا وائرس سے 26 افراد جاں بحق ہوئے، جس کے بعد اموات کی تعداد 12 ہزار 333 ہو گئی ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید ایک ہزار اڑتالیس نئے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد پاکستان میں کورونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد پانچ لاکھ چونسٹھ ہزار 77 ہو گئی ہے۔ اس وقت ایک ہزار 680 مریضوں کی حالت تشویشناک ہے۔ پوری دنیا میں دس کروڑ 94لاکھ سے زائد افراد میں کورونا کی تشخیص ہو چکی ہے جبکہ 24لاکھ سے زائد افراد اس کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔
حکومت بار بار تنبیہ کرتی رہی کہ جب تک کورونا کا کوئی مصدقہ علاج نہیں آتا، ہمیں ایس او پیز پر سو فیصد عمل پیرا رہنا ہے‘ بلکہ ویکسین کے بعد بھی ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں چھوڑا جائے گا۔ اس وقت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے۔ ہمسایہ ملک چین نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے کورونا ویکسین کی پہلی کھیپ ہمیں فراہم کر دی ہے۔ الحمدللہ پاکستان میں بھی ویکسی نیشن کا عمل سب سے پہلے کورونا وبا میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے طبی عملے سے شروع کر دیا گیا ہے۔ اب ملک بھر میں 65 سال اور اس سے زائد عمر کے بزرگ شہریوں کیلئے انسدادِ کورونا ویکسین کی رجسٹریشن کا آغاز بھی ہو گیا ہے ۔حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ 65 سال اور اس سے زائد عمر کے شہری ویکسین کی رجسٹریشن کیلئے اپنا شناختی کارڈ نمبر 1166 پر میسج کریں۔ بزرگ شہریوں کو ویکسین اگلے ماہ سے لگنا شروع ہو جائے گی۔ لیکن اس مرحلے پر ایک ایسی مشکل درپیش آ رہی ہے جو ہم پہلے انسدادِ پولیو مہم میں بھی بھگت چکے ہیں یعنی کورونا ویکسین کو متنازع بنانے کے لئے ایسی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں جن کا یا تو حقیقت سے کوئی تعلق نہیں یا یہ کہ وہ معنی نہیں رکھتیں لیکن انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے مثلاً یہ کہ اس ویکسین کے مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ مضر اثرات کے حوالے سے ہمارے ہاں کافی حد تک غلط تاثر پایا جاتا ہے۔ اگر ایک معمولی سر درد کی گولی بھی استعمال کی جائے‘ جو پوری دنیا میں ہر روز کروڑوں افراد استعمال کرتے ہیں‘ تو اس کی ہدایات میں بھی یہ بات درج ہوتی ہے کہ دوا کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ کوئی بھی چیز مضر اثرات سے مبرا قرار نہیں دی جا سکتی؛ تاہم یہ تنبیہ میڈیکل پروٹوکول کے تحت ایک روٹین کا معاملہ ہوتا ہے۔ ویسے بھی ویکسین کے ٹرائل میں ہر طرح کے اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں راقم الحروف نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک نمائندے سے رابطہ بھی کیا اور حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں استعمال ہونے والی کورونا ویکسین کے تاحال کسی قسم کے سائیڈ ایفیکٹس سامنے نہیں آئے اور کورونا سے بچائو کے لئے یہ بہت ضروری ہے، خصوصاً بزرگ شہریوں کو ترجیحی بنیادوں پر ویکسی نیشن کرانی چاہئے۔
ماضی کی غلطیوں سے ہمیشہ سبق سیکھ کر آگے بڑھنے والے ہی کامیاب رہتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں پولیو ویکسین کے بارے میں پھیلائی گئی غلط افواہوں کے باعث بہت نقصان اٹھایا ہے۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہم آج تک پولیو وائرس سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہو سکے۔ آج بھی ہمارے کئی پسماندہ علاقوں میں لوگ پولیو ویکسین کو بچوں کے لئے خطرناک سمجھتے ہیں اور اس کو لے کر کئی طرح کے ایسے ابہام پائے جاتے ہیں جن کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ آج بھی بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے گریز کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں پولیو ختم ہو چکا ہے لیکن پاکستان میں آج بھی یہ وائرس موجود ہے۔ اگر ہم نے اس سے سبق نہ سیکھا تو خدانخواستہ کورونا وائرس کا مکمل خاتمہ بھی مشکل ہو جائے گا۔ اس حوالے سے حکومت کو چاہئے کہ سرکاری سطح پر عوام میں آگاہی مہم فوری طور پر شروع کی جائے جس میں کورونا ویکسین کی اہمیت بیان کرنے کے ساتھ غلط افواہوں کی نفی کی جائے اور اسے متنازع ہونے سے بچایا جائے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ یہ ذمہ داری فلاحی اداروں اور عوامی نمائندوں پر بھی عائد ہوتی ہے کہ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ بزرگ شہری فوری طور پر کورونا ویکسی نیشن کیلئے اپنی رجسٹریشن کرائیں تاکہ اس موذی وبا سے محفوظ رہ سکیں۔ اس وقت کورونا ویکسین ہی کووڈ سے بچائو کا واحد ذریعہ ہے اور ویکسین کے ذریعے ہی ہم اپنے ساتھ دوسروں کی صحت و زندگی کو بھی محفوظ بنا سکتے ہیں۔