حقوقِ نسواں کا عالمی دن اور مغرب کا دُہرا معیار

عالمی یومِ خواتین دراصل مغرب اور اُن معاشروں کی ضرورت ہے جہاں جسمانی لحاظ سے آزاد عورت حقیقی نسوانی حقوق سے محروم ہے، جہاں خواتین کو احترام کا خصوصی درجہ تو درکنار‘ اپنے گھر میں بھی امتیازی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ عورت کو جو عزت‘ احترام‘ آزادی‘ تحفظ اور حقوق ہمارا دین فراہم کرتا ہے دنیا اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ یہ محض خام خیالی ہے کہ مغرب میں خواتین کا بڑا احترام کیا جاتا ہے، یورپ اور امریکا میں عورت کو بڑی آزادی حاصل ہے اور وہاں خواتین کی عصمت انتہائی محفوظ ہے۔ زمینی حقائق اس کے بالکل الٹ ہیں۔ مغربی دنیا کام‘ کاروبار محنت و مزدوری میں عورت کو نہ تو کوئی رعایت دیتی ہے اور نہ ہی کوئی خصوصی مراعات بلکہ خواتین ٹرک ڈرائیونگ سمیت وہ تمام سخت جان کام کرنے پر مجبور ہیں جو ہمارے ہاں صرف مرد حضرات کی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں تو عورت کو بس میں سیٹ بھی کوئی نہیں دیتا۔ جہاں تک بات آزادیٔ نسواں کی ہے تو وہاں مادر پدر آزادی ضرور ہے مگر احترام اور وقار کا درجہ نہایت پست ہے۔ پچھلے چند سالوں سے ہمارے ہاں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مارچ میں چند خواتین نے جو بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے ہوتے ہیں‘ اور ان پر جو نعرے درج ہوتے ہیں‘ ہمارا مذہب یا ہماری اخلاقیات قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتے۔ کسی بھی معاشرے میں وہاں کے آئین و قانون، رسم و رواج اور ثقافت سے ماورا کسی اقدام کی آزادی طلب نہیں کی جا سکتی۔
اگر تحفظِ نسواں کی بات کریں تو اسلام ہی دنیا کا واحد مذہب ہے جو عورت کو سب سے زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسلام نے دنیا کو سب سے پہلے یہ ضابطہ دیا کہ بیٹی اور بیٹوں میں کوئی فرق نہیں، عورت کو مکمل معاشی آزادی حاصل ہے اور وہ وراثت میں بھی حصہ دار ہے۔ مغربی دنیا نے اس حوالے سے دہرا معیار قائم کر رکھا ہے، مسلم معاشروں کو تو انسانی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے سب سے نیچے رکھا جاتا ہے مگر مقبوضہ کشمیر‘ جہاں نام نہاد بھارتی جمہوریت کی چھتری تلے کشمیری عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی ہو رہی ہے، میانمار‘ جہاں روہنگیا میں خواتین کے اعضا کاٹ کر کھائے گئے‘ وہاں کسی کو انسانی اور نسوانی حقوق یاد نہیں آتے۔ کسی نام نہاد حقوقِ نسواں کی ٹھیکیدار تنظیم نے ان مظلوم عورتوں کے حقوق کیلئے آواز بلند نہیں کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا لیکن ہمارے پیارے آقاﷺ نے عورت کو عزت‘ تحفظ اور حقوق دیے اور اسلام نے عورت کو ماں‘ بہن‘ بیٹی اور دیگر خاندانی رشتوں کے تحت بہترین تحفظ اور احترام سے نوازا۔
''میرا جسم‘ میری مرضی‘‘ کا نعرہ‘ جس کی ہر مہذب شہری اور سنجیدہ طبقہ مذمت کرتا ہے‘ دراصل My Body, My Choice سے لیا گیا ہے۔ یہ نعرے یورپ اور امریکا میں 1960 اور 70ء کی دہائی کی بدنام اسقاطِ حمل تحریک میں وضع کیے گئے تھے‘ جس کی ہمارے دین میں سختی سے ممانعت ہے۔ ہماری ثقافت پر یہاں پہلے بھی کئی حملے ہو چکے ہیں اور اس قسم کے نعرے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں؛ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ ان کی پاکستانی معاشرے کے کسی طبقے نے بھی پذیرائی نہیں کی۔ اس کے برعکس بہت سی خواتین نے ازخود اس پر احتجاجی صدا بلند کی اور خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ریلیاں نکال کر بتایا کہ ایک مسلم خاتون کے کیا حقوق ہیں اور ہمارے معاشرے میں اسے کیا مسائل درپیش ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے معاشرے میں آج بھی بہت سی خواتین پسماندگی کا شکار ہیں اور انہیں بہت سے ایسے حقوق‘ جو ہمارے مذہب نے فراہم کیے ہیں مثلاً وراثت اور تعلیم‘ ان سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے ہر پہلو کی قرآن و حدیث میں مکمل تشریح موجود ہے جن پرعمل کرکے نہ صرف انسان اپنی زندگی کو آسان اور پُرآسائش بنا سکتا ہے بلکہ یقینا اس سے اس کی آخرت بھی سنور سکتی ہے۔ اسلام نے خواتین کی حفاظت کیلئے ہی پردے کاحکم نازل فرمایا اور یہ بات عام مشاہدے میں بھی ثابت ہوتی ہے کہ جو خواتین پردہ کرتی ہیں وہ آوارہ افراد کی چھیڑچھاڑ اور غیرضروری تنقید سے محفوظ رہتی ہیں۔ اسلام میں خواتین بالخصوص بیٹیوں کو کیا مقام دیا گیا ہے‘ یہ سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں۔ حدیث شریف میں روایت ہے کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئی تو انہوں نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں۔ اس عورت نے ایک ایک کھجور دونوں بیٹیوں کو دے دی اور تیسری کھجور‘ جو وہ خود کھانا چاہتی تھی‘ کے (بھی) دو ٹکڑے کر کے دونوں بیٹیوں کے مابین تقسیم کر دی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے اس بات پر بہت تعجب ہوا۔ جب نبی اکرمﷺ تشریف لائے تو میں نے آپﷺ سے اس واقعے کا ذکر کیا جس پر آپﷺ نے فرمایا: تمہیں تعجب کیوں ہے؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گئی‘‘۔ (صحیح مسلم، سنن ابن ماجہ)۔ اسی طرح ایک روایت میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو جنت میں ضرور داخل ہوگا‘‘۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی کفالت کی تو میں اور وہ جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے‘ آپ نے کیفیت بتانے کے لیے اپنی دونوں انگلیوں (شہادت اور درمیانی) سے اشارہ کیا۔ (سنن ترمذی)
پاکستان میں جب سے عورتوں کی آزادی کا غلغلہ بلند کیا جا رہا ہے‘ تب سے اگر حقوقِ نسواں کی بعض نام نہاد ٹھیکیدار تنظیموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے ثابت ہوتا ہو کہ انہوں نے کبھی کسی مظلوم یا مجبور حوا کی بیٹی کی مدد کی یا اسے اس کے حقوق دلوائے یا کسی کی خاموشی اور باعزت طریقے سے مدد کی ہو۔ ہر سال متعدد خواتین گھریلو تشدد کا نشانہ بنتی رہیں‘ ان کے حقوق پامال ہوتے رہے‘ ایک نہیں کئی بیٹیاں گھر چھوڑنے پرمجبور ہوئیں لیکن کسی نے ان کے مسائل کی حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی۔ کسی غریب متاثرہ لڑکی کو اپنی تشہیر اور فنڈز جمع کرنے کے لیے میڈیا کے سامنے پیش کرنا نہ تو سماجی خدمت ہے اور نہ ہی اس سے کسی غریب کی عزت واپس آتی ہے بلکہ ایسی خواتین کو معاشرے اور خاندان کی نظروں میں مزید جھکا دیا جاتا ہے۔
غیروں سے امداد لے کر پاکستانی خواتین کے حقوق کی بات کرنے والی ان نام نہاد تنظیموں کو کوئی بتائے کہ پاکستانی عورت کا مسئلہ لباس نہیں، ہماری بہن‘ بیٹی پورے لباس میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتی ہے اور اسی میں خوش رہتی ہے۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ خواتین کی الگ جامعات کے قیام کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ راولپنڈی میں جب خواتین کی پہلی ''فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی‘‘ قائم ہوئی تو اسے عوامی طبقات میں خاصی پذیرائی ملی، اس کے بعد ''راولپنڈی ویمن یونیورسٹی‘‘ کا قیام بھی ضروری سمجھا گیا اور اب الحمدللہ رواں برس اسی شہر میں طالبات کے لئے تیسری جامعہ وقار النسا کالج میں بننے جا رہی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری مخلوط نظام میں خود کو آزاد اور با سہولت تصور نہیں کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کی اکثریت کا سب سے اہم مسئلہ خاندانی وراثت میں اپنے جائز وقانونی حق سے محرومی ہے۔ اس کے لئے قانون تو موجود ہے مگر اس کے باوجود آج تک اس پر صحیح عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔ کئی مالدار افراد تو اپنی بچیوں کی شادی محض اس لئے نہیں ہونے دیتے کہ اگر شادی کرائی گئی تو جائیداد میں حصہ بھی دینا پڑے گا۔ یوم خواتین کے حوالے سے مخصوص مغربی ایجنڈا ہمارا ایشو نہیں ہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کو وراثت میں حصے سمیت تمام جائز حقوق دینے کے حوالے سے عملی اقدامات کیے جائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں