روزہ

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکرہے کہ ہمیں ایک بار پھر رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنے، اپنے ایمان کو پختہ کرنے اور صحت کو تازہ کرنے (تندرستی) کی سعادت نصیب ہو رہی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں روزہ کے مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں کھانے، پینے سمیت ان افعال و اعمال سے بھی پرہیز کرے جن کی عمومی حالات میں اجازت ہوتی ہے جبکہ ممنوعہ افعال و اعمال تو روزے میں زیادہ سختی سے منع ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک کے روزے دو ہجری میں فرض کیے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں نو برس رمضان المبارک کے روزے رکھے۔ امام نوویؒ کہتے ہیں: رسول اکرمﷺ نے نو رمضان المبارک کے روزے رکھے، اس لیے کہ ہجرت کے دوسرے سال شعبان میں رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تھے اور نبی اکرمﷺ گیارہ ہجری ربیع الاول کے مہینے میں وصال فرما گئے۔ (المجموع)۔
قرآن پاک کی سورۃ البقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ''اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے رکھنے فرض کیے گئے تھے تاکہ تم متقی و پرہیزگار بنو‘‘۔ روزہ ان افراد پر واجب ہے جن میں در ج ذیل شرائط پائی جاتی ہوں؛ بالغ ہو، عاقل ہو، قدرت رکھتا ہو، بیہوش نہ ہو، مسافر نہ ہو، عورت ناپاکی کی حالت میں نہ ہو، روزہ رکھنا ضرر کا باعث نہ ہو،روزہ رکھنا حرج اور مشقت نہ ہو۔ علاج معالجہ کی غرض سے روزے میں چھوٹ دی گئی ہے، اگر مریض کو ڈاکٹر کے کہنے پر اطمینان حاصل ہو جائے کہ روزہ اس کے لئے مضر ہے یا اس کے کہنے پر یا کسی معقول وجہ سے اسے مضر ہونے کا خوف پیدا ہو جائے تو اس کے لیے روزہ چھوڑنا زیادہ مناسب ہے، لیکن اگر ڈاکٹر شرعی مسائل سے واقف نہیں ہے اور اس کا قول اطمینان بخش بھی نہیں اور نہ ہی روزوں سے ضرر کا خوف ہے تو ایسی صورت میں‘ بعض علما کرام کے مطابق‘ اس کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا، لیکن بصورتِ دیگر روزہ نہیں رکھنا چاہئے۔ علما کرام کی رائے کے مطابق‘ گردے کے مریضوں کے لیے پتھری سے چھٹکارا صرف دن میں پانی یا دیگر مائعات استعمال کرنے سے ہی حاصل ہوتا ہو تو ان پر بھی روزہ واجب نہیں کہ پانی پینے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ شوگر کے مریض کو اگر طلوعِ فجر سے غروبِ آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز ضرر پہنچاتا ہو یا نقصان کا اندیشہ ہو تو اس پر بھی روزہ واجب نہیں ہے۔ ایسے مریض جن کیلئے دن میں دو یا تین بار گولیاں کھانا ضروری ہوں‘ وہ بھی روزے سے رخصت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اسی طرح مشین کے ذریعے سے مصنوعی سانس لینے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔ حاملہ اور بچے کودودھ پلانے والی عورت نے اگر شرعی عذر کی بنا پر رمضان المبارک میں روزہ نہیں رکھا تو اس کی صرف قضا بجا لانا واجب ہے۔اگر ماہ رمضان میں روزہ رکھنا خود حاملہ عورت یا دودھ پلانے والی عورت کے لیے مضر ہو تو یہ بیمار کے حکم میں آتا ہے، اسی طرح حیض کے ایام میں بھی روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ احتیاطِ واجب کی بنا پر روزہ دار مقوی اور مغذی انجکشن اور ہر اس انجکشن سے پرہیز کرے جو رگ میں لگائے جاتے ہیں اور ہر قسم کی ڈرپ سے پرہیز کرے لیکن وہ ٹیکے جو دوائی کے طور پر پٹھوں میں لگائے جاتے ہیں یا وہ انجکشن جو بدن کو بے حس کرنے کیلئے لگائے جاتے ہیں‘ ان میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ تھیلیسیمیا کے مریض یا ایسے افراد جنہیں خون لگانا مقصود ہو تو احتیاطِ واجب کی بنا پر خون چڑھانے سے روزہ باطل ہو جاتا ہے۔ بدن سے خون نکلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا لیکن اگر خون نکالنے سے بدن میں ضعف اور کمزوری آ جاتی ہو تو روزہ دار کیلئے مکروہ ہے ۔دانتوں کے علاج میں اگر کوئی چیز حلق تک نہ پہنچے تو روزہ صحیح ہے، منہ سے خون نکلنے سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔
رمضان المبارک کے روزوں کے حوالے سے فطرانہ دینا بھی اہلِ ایمان پر واجب ہے اور یہ فطرانہ عیدالفطر کی نماز سے قبل ادا کرنا واجب ہے۔ اس کے لیے اپنے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو اس کے ہاں کھانا کھاتے ہوں‘ فی کس تقریباً تین کلو گرام ان غذائوں میں سے جو لوگ استعمال کرتے ہیں (مثلاً گندم،جو، خرما، کشمش، چاول، جوار یا ان جیسی دیگر اجناس) یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت مستحق شخص کو دے۔ نماز عید الفطر اور عید قربان کی نماز اگرچہ واجب نہیں ہیں، یہ مستحب ہیں؛ تاہم ان نمازوں کی کوئی قضا نہیں ہے۔
روزہ درحقیقت انسان کو صبر، برداشت اور دوسروں کی بھوک کا احساس پیدا کرتا ہے، اس کے ذریعے انسان میں تقویٰ، صبر وشکر اور نفس پر غلبہ پانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، یہ واحد عبادت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ''روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود ہی اس کا اجر دوں گا‘‘۔ آج کل وطن عزیز مہنگائی اور بیروزگاری کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے، رہی سہی کسر عالمی وبا کورونا وائرس نے پوری کر دی ہے۔ کورونا کی عالمی وبا کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند یا ٹھپ پڑے ہیں اور بڑی تعداد میں مزدور طبقہ فارغ بیٹھا ہے، حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بدولت روزگار شدید متاثر ہو رہے ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف غریب بلکہ سفید پوش طبقے کے لیے بھی گھر کا چولہا جلانا مشکل ہو چکا ہے لیکن سفید پوش افراد کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ غریب آدمی کی مدد کرنا ویسے بھی ہمارا فرض ہے لیکن اس پہلو کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہئے کہ غریب شخص کی مدد تو کئی لوگ کر دیتے ہیں لیکن ایک سفید پوش آدمی‘ جو بظاہر اچھے کپڑے پہن کر معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے‘ کے حالات کو سمجھنا اور خاموشی سے اس کی مدد کرنا بھی معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں چاہئے کہ رمضان المبارک میں سحری و افطاری کے اوقات میں اپنے دستر خوان کو محدود کرکے اپنے گرد ونواح میں ایسے لوگوں کے دستر خوان کو سجانے میں مدد کریں جو کسی بھی وجہ سے اس کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ہمیں روزے کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے عید کی شاپنگ کے دوران بھی اپنے غریب رشتہ داروں، ہمسایوں اور مستحق افراد کے بچوں کو یاد رکھنا چاہیے، یقین کریں کہ ایسا کرنے کی بدولت اللہ پاک آپ کی عیدکی خوشیاں دوبالا کر دیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں