ہمارے معاشرے یا قو م کو کوئی بات سمجھانا یا اس کے ضمیر کو جھنجھوڑنا کوئی آسان کام نہیں۔ ہم ہر بات کا مطلب اور تشریح اپنی پسند، سہولت اور مرضی کے مطابق کرتے اور کرنا چاہتے ہیں، بہت سی باتیں ایسی ہیں جنہیں ہم اچھا سمجھتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد صرف دوسروں سے چاہتے ہیں، ہم دوسروں کو نصیحتیں تو بہت کرتے ہیں لیکن خود ان پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ بسا اوقات بھیڑ چال میں ہم سب کچھ تہس نہس کر دیتے ہیں۔ ہم نہ تو پوری طرح شریعت کی تعلیمات پر چل رہے ہیں اور نہ ہی آئین پاکستان پر اس کی روح کے مطابق عمل کر رہے ہیں۔ ہم اپنی اسلامی، سماجی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو پس پشت ڈال چکے ہیں۔ وہ سبق جو ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیﷺ نے ہمیں چودہ سو سال پہلے دیا تھا اورآج جدید سائنس بھی ہمیں جس پر سو فیصد عمل پیرا ہونے کی تلقین کر رہی ہیں‘ جسے اپنی صحت و زندگی کی ضمانت بھی سمجھتے ہیں اور اپنے خوشگوار ماحول کے لیے ضروری مانتے ہیں ، ہم اس کے حوالے سے بھی عمل کرنے سے گریزاں ہیں البتہ دوسروں کودرس بہت دیتے ہیں لیکن ہمارے اپنے قول وفعل میں تضاد ہے اور ہم خود اس پر صحیح عمل نہیں کرتے۔
حدیث نبویﷺ ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ ہم پہلی جماعت سے اپنی کتابوں میں یہ سبق پڑھتے آ رہے ہیں، ہمارے گھروں سے بھی پہلا سبق ہمیں یہی ملا، اساتذہ کرام بھی یہی درس دیتے رہے لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑنا اتنا آسان نہیں؛ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ضمیر نامی چیز سے بالکل عاری ہو چکے ہیں، بس یوں کہہ لیجئے کہ یہ ہماری پسند، سہولت اور مرضی کے مطابق چلتا ہے، کبھی کوئی اسے جھنجھوڑنے کی کوشش کرے تو ہم وقتی طور پر شرمندگی ضرور محسوس کرتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ابھی ہمارے ضمیر مردہ نہیں ہوئے‘ لیکن عمومی حالات میں ہم اسی پرانی ڈگر پر گامزن رہتے ہیں۔
وطن عزیز قدرت کے حسین مناظر اور دلکش وادیوں سے بھرا پڑا ہے لیکن ہم آج تک اپنی سرزمین کی خوبصورتی سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ دنیا اس کی معترف ہے‘ اس کے باوجود ہم سیاحت کو فروغ نہیں دے سکے بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دو دہائیاں قبل دنیا بھر سے جتنے سیاح ارضِ پاک کا رخ کرتے تھے‘ آج ہم ان سے بھی محروم ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ ہماری اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیاں، کوتاہیاں اور قومی و معاشرتی ذمہ داریوں سے پہلو تہی ہے۔ ہم اپنے قدرتی سیاحتی مقامات کی نہ تو حفاظت کر رہے ہیں اور نہ ہی صفائی کا خیال رکھتے ہیں جو ایسی جگہوں کی سب سے بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم پبلک مقامات پر کھانے پینے کی فالتو اشیا، شاپنگ بیگز، استعمال شدہ ٹشو پیپرز، خالی ڈبے، بوتلیں، گتے کی پیکنگ اور دیگر استعمال شدہ سامان‘ جہاں جی میں آئے‘ وہیں پھینک دیتے ہیں۔ ہم سیر و تفریح اور پکنک کے اختتام پر اس جگہ کی صفائی کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہی نہیں‘ حتیٰ کہ اتنا بھی نہیں کرتے کہ جس شاپنگ بیگ میں ہم اپنا کھانے پینے کا سامان لائے تھے‘ اب خالی بوتلیں، ریپر اور دوسرا کچرا وغیرہ اسی میں ڈال کر واپس لے جائیں اور کسی کوڑے دان میں ڈال دیں۔
پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر کرسچن ٹرنر اسلام آباد کے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے اکثر صبح کے اوقات میں سیر کرنے نکلتے ہیں، وہ اکثر اپنی تصاویر بھی اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر شیئر کرتے رہتے ہیں۔ جمعہ کی صبح انہوں نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر سیر کرتے ہوئے وہاں پر پھیلی ہوئی گندگی اور پلاسٹک بیگز دیکھے تو انہیں اکٹھا کر کے ان کی تصاویر شیئر کیں اور پاکستانی عوام سے گندگی نہ پھیلانے کی گزارش کی۔ کرسچن ٹرنر کی ایک اور ٹویٹ بھی اس وقت موضوع بحث بنی ہوئی ہے جس میں انہوں نے اپنی صبح کی سیر کی ایک تصویر شیئر کی۔ اس تصویر میں ہائی کمشنر اپنے دونوں ہاتھوں میں کوڑا کرکٹ سے بھرے دو بڑے بڑے بیگز اٹھائے کھڑے ہیں۔ یہ کوڑا دراصل انہوں نے صبح کی سیر کے دوران جمع کیا تھا۔ یہ تصویر شیئر کرتے ہوئے انہوں نے کیپشن لکھا ''صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ مہمان سفیر کا یہ اقدام ہمارے ضمیر کو تو شاید صحیح طرح سے نہ جھنجھوڑ سکے؛ تاہم اس نے ہمیں بحیثیت مسلمان ضرور شرمندہ کیا ہے، لیکن یہ شرمندگی بھی عید کی خوشیوں میں ہوا ہو جائے گی اور جب کرسچن ٹرنر مارگلہ کی پہاڑیوں پر دوبارہ سیر کو جائیں گے تو انہیں اب کی بار دو کے بجائے شاید دس بیگ کوڑا جمع کرنا پڑے۔ افسوس اس امر پر ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔ ہم قرآن پاک میں موجود اللہ تعالیٰ کے احکامات سے کیوں دور ہو رہے ہیں، ہم احادیث نبویﷺ پر کیوں عمل نہیں کر رہے، ہم اپنے گھر کا پہلا سبق صفائی کیوں بھول چکے ہیں، پہلی جماعت سے کتابوں میں موجود سبق کو ذہن نشین کیوں نہ کر سکے، آج ہم اس نہج تک کیوں پہنچ چکے ہیں کہ ایک غیر ملکی مہمان ہمیں ہمارے گھر کی صفائی کا درس دیتے ہوئے بتا رہا ہے کہ صفائی تو مسلمانوں کے ایمان کا اہم جزو ہے؟ برطانوی ہائی کمشنر نے اپنے ٹویٹ میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر کو بھی ٹیگ کیا اور انہیں ان کی مذہبی، معاشرتی، اخلاقی اور سب سے بڑھ کر سرکاری ذمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش کی۔ اس پر ڈی سی صاحب نے مثبت ردعمل تو دیا لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ جب وہ دوبارہ وہاں سیر و تفریح کیلئے جاتے ہیں تو ماحول میں کیا تبدیلی نوٹ کرتے ہیں اور اسلام آباد کی انتظامیہ اس توجہ دلائو ٹویٹ پر کتنا عمل کرتی ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم نے بھی برطانوی ہائی کمشنر کے ٹویٹ کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ واقعی شرمناک بات ہے، ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ سابق کپتان نے کچرا صاف کرنے پر برطانوی ہائی کمشنر کا شکریہ بھی ادا کیا۔ یہ واضح رہے کہ اس سے قبل وسیم اکرم اور ان کی آسٹریلوی نژاد بیگم بھی کراچی کے ساحل کی صفائی کر کے لوگوں میں احساسِ ذمہ داری اجاگر کرنے کی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ گلوکار فخرعالم اور متعدد حکومتی شخصیات اور متعلقہ محکموں کی جانب سے بھی عارضی طور پر مثبت ردعمل سامنے آیا۔ اللہ کرے کہ اس غیر ملکی مہمان کی بات ہی ان کے دل میں اتر جائے۔ اس بات کا بحیثیت مجموعی ہم پر کتنا اثر ہوتا ہے اور ہم کس حد تک اس ٹویٹ سے متاثر ہوتے ہیں‘ اس بات کا اندازہ عید کے بعد تک ہو جائے گا کیونکہ فی الحال عید کی چھٹیاں ہو چکی ہیں، دوسرا کورونا ایس او پیز پر عمل درآمد کے لیے لاک ڈائون کے تحت عید تک سیاحتی و تفریحی مقامات بند کر دیے گئے ہیں۔ خیر ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، چند دن کی بات ہے اس کے بعد اندازہ ہو جائے گا کہ برطانوی ہائی کمشنر کی مثبت سعی کس حد تک کارگر ثابت ہوئی ہے۔
ایک بات تو واضح ہے کہ جب تک بحیثیت قوم اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کریں گے، جب تک عوام اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کریں گے، جب تک ہم صفائی کی عادت کو اپنی زندگی کا معمول نہیں بنائیں گے، جب تک ہم کوڑا کرکٹ پھیلانے کے بجائے صفائی پر توجہ نہیں دیں گے اور کھانے پینے کے بعد خالی بوتلوں اور پیکٹوں کو اکٹھا کرکے کوڑا دان میں نہیں ڈالیں گے اس وقت تک حکومت، انتظامیہ یا صفائی کا نظام چلانے والے ادارے کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اس سبق کو بھی یاد کرنا ہو گا جو ہم بچپن سے پڑھتے اور سنتے آ رہے ہیں اور جو ہمارا عقیدہ ہے کہ 'صفائی نصف ایمان ہے‘۔ ہم نے عملی طور پر صفائی کے ذریعے برطانوی ہائی کمشنر سمیت دنیا بھر کو یہ پیغام دینا ہے کہ نہ صرف ہمارے ضمیر زندہ ہیں بلکہ ہمارا ایمان بھی مضبوط ہے اور اب ہم ان شاء اللہ اپنے عمل کے ذریعے اپنے ماحول کو خوشگوار بنا کر دنیا بھر کے سیاحوں کو بھی اس خوبصورت سرزمین کی طرف متوجہ کریں گے اور اپنے عمل سے دنیا کو سکھائیں گے کہ 'صفائی نصف ایمان ہے‘۔