دنیا میں پاکستان‘ افغانستان اور نائیجیریا‘ یہ تین ممالک ہی ایسے رہ گئے ہیں جہاں ابھی تک پولیو وائرس ختم نہیں ہو سکا۔ البتہ نائیجیریا میں اب پولیو کے چند ہی کیس باقی رہ گئے ہیں اور وہاں صورتحال قابو میں دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ کے مطابق اب وطنِ عزیز میں بھی پولیو کی صورتحال کافی تسلی بخش ہے۔ اس کی وجوہات میں سب سے اہم باقاعدگی سے ویکسی نیشن اور انسدادِ پولیو مہم کا جاری رہنا ہے۔ ماہرین کے مطابق‘ بچوں کو باقاعدگی سے پولیو کے قطرے پلائے جانے سے پاکستانی قوم میں پولیو وائرس کا مقابلہ کرنے کیلئے قوتِ مدافعت پیدا ہو چکی ہے، لیکن اب بھی پولیو فری زون بننے کے لیے ہمیں کم ازکم تین برس درکار ہیں۔ یعنی اگر جون 2021ء میں پولیو کا کوئی کیس سامنے نہ آیا تو بھی دنیا ہمیں کم از کم جون 2024ء کے بعد پولیو فری ملک تسلیم کرے گی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی پولیو وائرس ختم ہو گیا‘ جہاں اس کے امکانات ہم سے زیادہ ہو سکتے تھے‘ تو ہم ابھی تک اس مرض سے مکمل نجات کیوں نہیں پا سکے ہیں؟ دراصل پاکستان اور افغانستان میں پولیو ویکسین کے بارے میں مختلف اقسام کی غلط افواہیں پھیلا دی گئی تھیں‘ کسی نے کہاکہ پولیو کے قطرے آبادی کنٹرول کرنے کے لیے پلائے جا رہے ہیں تو کسی نے کوئی اور عجیب کہانی گھڑ دی، حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پولیو کے حفاظتی قطرے پینے والی نسل کی آبادی میں پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ لہٰذا ایسی تمام افواہیں بے بنیاد اور جاہلیت کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ بدقسمتی دیکھیں کہ ہم نے انسدادِ پولیو کی دہائیوں سے جاری مہم سے بھی سبق نہ سیکھا اور اب سوشل میڈیا کے ''جاہل دانشوروں‘‘ نے جھوٹی افواہیں کورونا ویکسین کے بارے میں پھیلانا شروع کر دی ہیں۔ پہلے تو اسے بھی فیملی پلاننگ کا ذریعہ قرار دیا گیا لیکن یہ افواہ زیادہ دیر تک نہ چل سکی کیونکہ قوم یہ جھوٹ کئی دہائیوں سے سنتی چلی آ رہی ہے، اس کے بعد سوشل میڈیا کی افواہ ساز فیکٹریوں نے جھوٹ کی ایک نئی پروڈکٹ لانچ کی اور اب کہا جا رہا ہے کہ کورونا ویکسین ہمارے جسم کے اندر مخصوص چپ لگانے کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ ان ''ماہر افواہ سازوں‘‘ نے ایسی وڈیوز بھی وائرل کی ہیں جن میں دکھایا جا رہا ہے کہ بازو کے کورونا ویکسین لگنے والے حصے پر مقناطیس چپک جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کورونا ویکسین کے ''مضر اثرات‘‘ کے حوالے سے خوب ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے جس کے باعث عوام کے ذہنوں میں سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ یہ سلسلہ سوشل میڈیا پر اس تیزی سے پھیل رہا ہے کہ حکومت کو ویکسین کے حوالے سے باقاعدہ وضاحت کرنا پڑی ہے۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ ملک میں کسی ویکسین کی کمی نہیں اور نہ ہی اس کے کوئی مضر اثرات ہیں، سوشل میڈیا پر غلط خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔ شہری خود کو رجسٹرڈ کروائیں اور وبا سے بچنے کے لیے جلدی سے جلدی ویکسین لگوائیں۔ جتنی جلدی ویکسین لگے گی‘ اتنی جلدی شہری نارمل زندگی میں واپس آنا شروع ہو جائیں گے۔ سوشل میڈیا کی خبروں کو بغیر تصدیق کے آگے نہیں پھیلانا چاہیے۔ اگر کوئی سوال ہو تو این سی او سی یا وزارتِ صحت کی ویب سائٹ پر پوچھے جا سکتے ہیں۔ بتایا گیا کہ پاکستان میں لگنے والی تمام ویکسینز محفوظ ہیں جبکہ ایسٹرازینکا کی بھی دنیا کی مستند آرگنائزیشنز نے منظوری دے دی ہے کیونکہ اس کے فوائد اس کے اثرات سے کہیں زیادہ ہیں؛ البتہ یہ ویکسین چالیس سال سے زائد عمر والوں کو ہی لگائی جا رہی ہے اور آسٹریلیا، کینیڈا، سائپرس، فن لینڈ، جرمنی، آئرلینڈ اور جنوبی کوریا سمیت متعدد ممالک میں لوگوں کو لگائی جا رہی ہے۔ ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹس کیسز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ 38 لاکھ ویکسین ڈوزز لگ چکی ہے جن میں سے صرف 6 سیریس کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور تحقیقات سے یہ پتا چلا ہے کہ ان کیسز کا بھی ویکسین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر سائنو فارم کے حوالے سے بھی غلط خبریں چلائی جا رہی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں، سائنو فارم ویکیسن کا وافر سٹاک دستیاب ہے‘ اب 30 سال اور اس سے زائد عمر والوں کی رجسٹریشن شروع بھی ہو چکی ہے‘ لہٰذا شہری ایس ایم ایس کے ذریعے خود کو رجسٹرڈ کروائیں۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر اور وزارتِ قومی صحت نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے18 سال سے زائد عمر کے افراد کو بھی ویکسین لگانے کی منظوری دے دی ہے۔ وفاقی دارالحکومت کے 18 سال سے زائد 12 لاکھ افراد کو ویکسین لگائی جائے گی جبکہ ایف نائن پارک میں ویکیسن سنٹر قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جس کا باقاعدہ آغاز آئندہ ہفتے ہو جائے گا۔ اس سنٹر میں70 ویکسی نیشن کائونٹر بنائے جائیں گے اور 100 سے زائد ویکسینیٹرز اور ہیلتھ ورکرز ڈیوٹی دیں گے۔ اسلام آباد میں ایک اور ماس سنٹر کھولنے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں؛ تاحال اسلام آباد میں قائم 20 ویکسی نیشن سنٹرز پر روزانہ 20 ہزار افراد کو ویکسین لگانے کی صلاحیت حاصل کر لی گئی ہے اور امید ہے کہ دو ماہ میں وفاقی دارالحکومت کے تمام شہریوں کو ویکسین لگا دی جائے گی۔
ماہرین کے مطابق ابھی تک کوئی ویکسین 18 سال سے کم عمر بچوں کیلئے نہیں ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ بچوں کو احتیاطی تدابیر کا پابند بنائیں۔ ماسک پہننا تو معمول بنا لینا چاہئے کیونکہ اس سے وبا پھیلنے کا امکان بڑی حد تک کم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔ ہاتھ ملانے اور گلے ملنے سے مکمل گریز کرنا چاہئے اور ہاتھوں کوصابن سے بار بار دھونے کی عادت کو پختہ بنانا چاہئے جبکہ سینی ٹائزر کا استعمال ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ احتیاطی تدابیر پر جتنا عمل کیا جائے گا وبا سے اسی قدر بچائو بھی ممکن ہوگا اور جہاں احتیاط کا دامن چھوڑ دیں گے‘ وہاں کورونا وائرس پھیلنے کا خطرہ بھی زیادہ ہو جائے گا۔ آئندہ ہفتے سے ملک بھر میں تعلیمی سرگرمیاں بحال ہونے کاامکان ہے‘ اللہ کرے کہ ہمارے تعلیمی ادارے جلد ازجلد کھل جائیں اور کھیلوں کے میدان آباد ہو جائیں کیونکہ نوجوان نسل کا پہلے ہی کافی تعلیمی حرج ہو چکا ہے، خصوصاً دسویں اور بارہویں جماعتوں کے طلبہ و طالبات تقریباً پورا سال باقاعدہ تعلیم سے محروم رہے اور اب ان اہم امتحانات کے بعد انہیں پروفیشنل فیلڈز میں داخلے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے تعلیمی اداروں کا جلد از جلد کھلنا اشد ضروری ہے جبکہ کھیل کے میدان بند ہونے سے بھی نوجوان نسل میں منفی سرگرمیاں تیزی سے پھیل رہی ہیں اور انہیں باز رکھنے کا واحد مثبت ذریعہ کھیل ہی ہیں لہٰذا حکومت کو چاہئے کہ قوم کے مستقبل کو تعلیم و کھیل کی سہولتیں جلد فراہم کر دی جائیں۔ دوسری طرف نوجوان نسل کو بھی سکول و کالج جاتے ہوئے اور کھیل کے دوران ایس او پیز پر سو فیصد عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا تاکہ وبا سے محفوظ رہا جا سکے۔
پولیو کے حوالے سے ایک اچھی خبر یہ ہے کہ انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ نے پولیو کے خاتمے کیلئے پاکستان کے اقدامات پر تسلی کا اظہار کیا ہے۔ بورڈ نے کورونا وبا کے باوجود پولیو مہمات کے انعقاد کو کامیاب قرار دیا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے باوجود پاکستان پولیو وائرس کے خاتمے کیلئے پُرعزم ہے۔ موجودہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائرس پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان میں پانچ سال کی عمرتک کے بچوں کو باقاعدگی سے پولیو کے قطرے (ویکسین) پلائے جا رہے ہیں اور اسی وجہ سے ہم اس مرض پر قابو پانے کی منزل کے قریب ہیں، یہی مثال ہمیں کورونا کے حوالے سے سامنے رکھنا ہو گی، جتنا جلدی ویکسی نیشن کا عمل مکمل ہو گا‘ اسی قدر جلد ملک میں کاروبارِ زندگی معمول پر آ جائے گا۔ اگر خدا نخواستہ کورونا ویکسین کو متنازع بنایا گیا اور جھوٹی افواہوں پر کان دھرے گئے تو پھر اس عالمی وبا سے پیچھا چھڑانا نہ صرف مشکل ہو گا بلکہ ہمیں عالمی سطح پر بھی مختلف پابندیوں کا سامنا رہے گا، لہٰذا ہمیں حکومت کی جانب سے مفت ویکسین کا فائدہ اٹھانا چاہئے اور فوری ویکسین لگوانی چاہئے۔