راولپنڈی میں گزشتہ تین برس سے کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں ہوا‘ اب خدا خدا کر کے اکیس سال سے زیر التوا 'رِنگ روڈ‘ کے میگا پروجیکٹ پرکام کا آغاز ہوا تھا تو جڑواں شہروں‘ راولپنڈی؍ اسلام آباد سمیت ریجن بھر کے عوام نے اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ 'دیر آید، درست آید‘ کے مصداق موجودہ حکومت نے اچھا قدم اٹھایا ہے۔ عام آدمی کو اس بات کی خبر ہی نہ تھی کہ اس عظیم منصوبے کا ماسٹر پلان کیا تھا، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کیا تبدیلیاں ہوتی رہیں، بننا کیا تھا اور اب بننے کیا جا رہا ہے۔ ایک عام شہری تو صرف اس بات سے خوش تھاکہ ایک میگا پروجیکٹ شروع ہو رہا ہے، جس سے علاقے کی معاشی سرگرمیاں بھی تیز ہوں گی اور شہری آبادی بھاری ٹریفک کے دبائو سے بھی آزاد ہو جائے گی۔ سابق کمشنر راولپنڈی نے بھی منصوبے میں بڑی دلچسپی ظاہر کی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ علاقے کی ترقی ان کی اولین ترجیح ہے لیکن پھر یہ خبریں سننے کو ملیں کہ وزیراعظم صاحب کو ان کے قریبی ذرائع نے منصوبے کے نقشے میں 'گڑبڑ‘ کے حوالے سے متنبہ کیا اور بتایا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے ذرائع سے معلومات حاصل کیں تو انہیں تشویش لاحق ہوئی کہ مبینہ طور پر کمانے اورکھانے والے کوئی اور ہیں جبکہ بعد میں اس کا الزام حکومت اور خود ان پر بھی آ سکتا ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر تین رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی، اس کمیٹی کے ارکان کسی متفقہ نتیجے پر تو نہ پہنچ سکے البتہ تینوں ارکان نے اپنی الگ الگ رپورٹ تیار کر کے پنجاب حکومت کو بھجوا دی جن سے معاملہ کھل کر تو واضح نہیں ہو سکا البتہ اتنا ضرور سامنے آیا کہ سابق کمشنر اور لینڈ ایکوزیشن کلکٹر سمیت حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے بعض عوامی نمائندوں نے مبینہ طور پر بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔
عوامی مفاد کے بڑے منصوبے میں کس نے کتنا کمایا یا کتنا کھایا یہ سب کچھ تو رفتہ رفتہ سامنے آتا رہے گا، تین بڑے سرکاری تحقیقاتی اداروں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے لیکن اب عوام کو فکر لاحق ہونے لگی ہے کہ کہیں یہ منصوبہ التوا کا شکار نہ ہو جائے۔ گزشتہ 21 برسوں سے یہ منصوبہ اسی طرح پلاننگ کے نام پر التوا میں چلا آ رہا ہے۔ عام لوگوں کے ذہن میں شاید یہی خیال ہے کہ یہ پچھلی حکومت کا منصوبہ تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ راولپنڈی رِنگ روڈ کی پہلی فزیبلٹی رپورٹ 1997-99ء میں راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) نے بنوائی تھی۔ اس میں منصوبے کے دو پلان تھے۔ پہلے پلان کے تحت چھنی شیر عالم تا ٹھلیاں تک مین رِنگ روڈ اور اس سے منسلک دوسری روڈز شامل تھیں۔ اصل پرپوزل کی کل لاگت 73 ارب 20 کروڑ روپے تھی جبکہ منسلک روڈز کے ساتھ سڑک کی کل لمبائی 70 کلو میٹر تھی۔ مین سڑک تین سو فٹ اور اس کے دونوں اطراف میں 250 فٹ کے اکنامک زونز تھے۔ پرپوزل کے تحت مین رنگ روڈ 54 اعشاریہ41 کلومیٹر طویل تھی۔ روات تا چک بیلی کے آگے تک ایک لنک روڈ اور پھر دھمیال تا اسلام آباد آئی 16 تک دوسری روڈ تھی جس کی کل لمبائی15 اعشاریہ 59 کلومیٹر تھی۔ اس میں چھ پل، دس اوور ہیڈ برج اور تین انٹرچینج بھی شامل تھے۔ اس پرپوزل کے تحت لینڈ ایکوزیشن کیلئے 18 اعشاریہ 688 ارب روپے، سٹرکچر معاوضہ تین اعشاریہ 700 ارب روپے، سڑکوں کی تعمیر مع فلائی اوورز 30 اعشاریہ 607 ارب روپے، پی ایم یو 6 اعشاریہ 857 ارب روپے اور اکنامک زونز کی لاگت 13اعشاریہ 384 ارب روپے تھی۔ تاہم یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوتا رہا اور مشرف دور میں اسے سرد خانے کی نذر کر دیا گیا۔ اس منصوبے پر دوبارہ 2008ء میں پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کی بنیاد پر تیار کرنے کا جائزہ لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق 31 جنوری 2011ء کو یہ پرپوزل اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے سامنے پیش کیا گیا تھا جس پر اصولی اتفاق کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سی ڈی اے، این ایچ اے اور سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو سے مشاورت کے بعد لاگت کو مزید کم کرنے کیلئے نئی تجاویز مرتب کی گئی تھیں اور اکنامک زونز کو چھوڑ کر سڑک بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کی کل لاگت کا تخمینہ 19 ارب 77 کروڑ روپے تھا۔ اس کے ساتھ ہی 2 سو فٹ چوڑی فتح جنگ روڈ کو دو رویہ بھی کیا جانا تھا۔ لاگت کا کل تخمینہ 60 کروڑ روپے رکھا گیا مگر یہ معاملہ ایک بار پھر کھٹائی کا شکار ہو گیا۔ اس دوران ضلع میں میڑو بس پروجیکٹ مکمل ہو گیا مگر اس منصوبے پر کام نہ ہو سکا۔ میٹرو بس پروجیکٹ کے بعد ایک مرتبہ پھر رنگ روڈ کا جائزہ لیا گیا اور اسے بائی پاس تک محدود کر دیا گیا۔ بی او ٹی کے تحت رنگ روڈ منصوبے کیلئے انٹر نیشنل ٹینڈر بھی کئے گے؛ تاہم کوئی خاطر خواہ رسپانس نہیں آیا جس کے بعد منصوبے کو پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ کے تحت ہی مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ 2017ء میں ایک بار پھر سنجیدگی سے کوشش کی گئی اور اس وقت رنگ روڈ کیلئے تین آپشنز رکھے گئے تھے جن میں متنازع بننے والی الائنمنٹ بھی شامل تھی۔ اس بار منصوبے کو قرضے کی بجائے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر ہی چلانے کا فیصلہ کیا گیا اور منصوبہ آر ڈی اے کی بجائے لاہور رنگ روڈ اتھارٹی کو دے دیاگیا اور اس مقصد کیلئے لاہور رنگ روڈ اتھارٹی کا دائرہ کار کو صوبے بھر تک بڑھا دیا گیا۔اٹک لوپ اور پسوال زگ زیگ کے حوالے سے پہلے ایک ادارے نے تجویز کیا پھر دوسرے نے اس کا جائزہ لیا۔پی ایس سی نے اپنے پہلے اجلاس میں ریڈیو پاکستان تا مورت الائنمنٹ کی منظوری دی جس سے24 فروری 2020ء کو آر ڈی اے کے چیف انجینئر نے متعلقہ ادارے کو آگاہ کیا۔ کمشنرراولپنڈی جو پروجیکٹ ڈائریکٹر بھی تھے‘ نے ایم ٹو تا سنگجانی تفصیلی فزیبلٹی رپورٹ اور ڈیزائن کی تیاری کی ہدایت کی جس پر کام شروع کر دیا گیا۔ابتدائی طور پرسی پیک روٹ کے اوپر سے رنگ روڈ گزارنے کی تجویز دی گئی مگر یہ سٹریٹیجک پلاننگ ڈویژن نے مسترد کردی۔ اس کے بعد منصوبے کو سی پیک روٹ کی دوسری طرف منتقل کرنے کا سوچا گیاتاہم این ایچ اے نے رنگ روڈ کیلئے سی پیک کے روٹ کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔این ایچ اے کی تجویز پر رنگ روڈ کو اٹک لوپ،پسوال زگ زیگ سے واپس جی ٹی روڈ اور پھر مارگلہ ہائی وے سے ملانے کی تجویزکو2017ء والی تجویز میں شامل کیاگیا اور دوبار2021ء میں الائنمنٹ بڑھانے کا جائزہ لیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تجویز شدہ الائنمنٹ ریڈیو پاکستان،چک بیلی،اڈیالہ،چکری سے ہوتی ہوئی اسلام آباد لاہور موٹروے اور ہکلہ ڈی آئی خان موٹروے کو چھوڑ کر سنگجانی سے مارگلہ ہائی وے سے منسلک کیا گیا اور اس باعث راستے میں آنے والے علاقوں کو مبینہ طور پر فائدہ پہنچائے جانے کا معاملہ اچھالاگیا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس الائنمنٹ کی تشہیر منظوری کے بعد کی گئی۔ 6 نومبر 2020ء کو سی ڈی اے بورڈ میں نئی سمری پیش کی گئی تھی۔رپورٹ کے مطابق‘ رنگ روڈ کے تمام انٹرچینجز پر مقامی رسائی دی گئی اور یہ صرف پسوال تک ہی محدود نہیں۔
ابھی اس معاملے کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ سکا اور بتایا جا رہا ہے کہ رِنگ روڈ کی نئی الائنمنٹ پرکام جاری ہے اورمنصوبہ رکانہیں ہے؛ تاہم عوام اس بات سے پریشان ہیں کہ کوئی سازش دوبارہ اس منصوبے کو روکنے میں کامیاب نہ ہوجائے کیونکہ پہلے ہی یہ منصوبہ دو دہائیوں تک التوا کا شکار رہا ہے۔ حکومت کو معاملے کا باریک بینی سے جائزہ ضرور لینا چاہیے اور احتساب بھی کرنا چاہیے۔ اگر کوئی فرد یا ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا پایا جائے یا جان بوجھ کر منصوبے میں تبدیلی کا مرتکب ہوا ہو تو اس سے کسی رو رعایت کے بغیر نمٹا جانا چاہیے مگر خدا کیلئے منصوبے کی الائنمنٹ کوجلدازجلد حتمی شکل دے کر آئندہ بجٹ میں سب سے پہلے اس منصوبے پرکام شروع کیاجائے، یہی راولپنڈی کے عوام چاہتے ہیں اور یہ پروجیکٹ یقینا حکمران جماعت کے مفاد میں بھی ہے‘ جو پچھلے تین سالوں میں کوئی بڑا ترقیاتی کام نہیں کرا سکی۔