کورونا کی نئی لہر کا خدشہ

دنیا بھرکی طرح کورونا کی عالمی وبا نے پاکستان میں بھی معیشت اور تعلیم کے شعبوں پر بالخصوص سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ابھی ہم عالمی وبا کی تیسری لہر کے مسائل اور لاک ڈائون سے ہی نکل نہیں پائے تھے کہ ماہرین نے انتہائی خطرناک چوتھی لہر سے خبردار کرنا شروع کر دیا ہے جو جون کے تیسرے ہفتے تک عروج پا سکتی ہے۔ یہ لہر جنوبی افریقہ اور بھارت کے وائرس پر مبنی ہو سکتی ہے جو پہلی تینوں لہروں سے زیادہ خطرناک سمجھی جا رہی ہے کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی افریقہ والا وائرس چھوٹے بچوں کو زیادہ متاثر کرتا ہے، اس لہر میں خصوصاً دو سال سے آٹھ سال تک کی عمر تک کے بچوں کے متاثر ہونے کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ اب چونکہ این سی او سی نے پہلی  سے آٹھویں جماعت تک کے سکول کھولنے کا اعلان بھی کردیا ہے لہٰذا اب پہلے سے بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوگی تاکہ معصوم بچوں کو اس وبا سے بچایا جا سکے۔ اسی طرح انڈین ویریئنٹ اس لئے زیادہ پریشان کن ہے کہ اس وائرس کا ایک سے دوسرے شخص میں منتقلی کا تناسب بہت زیادہ ہے اور اسی وجہ سے ہمسایہ ملک بھارت میں کورونا وائرس نے بہت زیادہ تباہی مچائی جو تاحال جاری ہے۔ کووڈ 19 سے دنیا بھر میں اب تک مجموعی طور پر 35 لاکھ 58 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ صرف بھارت میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 3 ہزار129 لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ بھارت میں کورونا کے وار پوری شدت سے جاری ہیں اور مزید ایک لاکھ 53 ہزار 485 کیسز سامنے آئے ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا بھر میں ایک دن میں سب سے زیادہ کیسز بھارت میں ہی ریکارڈ کیے گئے جہاں 6 مئی کو 4 لاکھ 14 ہزار 433 کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔ بھارت بھر میں کورونا سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 3 لاکھ 29 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ وائرس کے پھیلائو کو روکنے کیلئے مہاراشٹرا میں لاک ڈائون کا دورانیہ 15 جون تک بڑھا دیا گیا ہے۔ گزشتہ چوبیس گھنٹے میں برازیل میں کورونا سے 950 افراد دم توڑ گئے، اس سے دو دن پہلے 28 مئی کو 2418 اور 29 مئی کو 1971 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ امریکا میں 28 مئی کو 641، 29 مئی کو 352 اور 30 مئی کو 124 افراد ہلاک ہوئے۔ واضح رہے کہ امریکا میں اب تک لگ بھگ 17 کروڑ افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے۔ امریکا کی 41.2فیصد آبادی کو دونوں ڈوز جبکہ 51.1فیصد آبادی کو سنگل ڈوز لگائی جا چکی ہے۔
ہمارے لیے ایک پریشانی کی بات یہ ہے کہ بھارت میں قیامت برپا کرنے والا وائرس پاکستان میں بھی پہنچ چکا ہے۔ وزارتِ صحت نے بھی انڈین ویریئنٹ کے ایک کیس کی تصدیق کر دی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جب بھی کوئی ایک مصدقہ کیس سامنے آتا ہے تو اسی ویریئنٹ کے درجنوں کیسز کی موجودگی کا خدشہ بھی موجود ہوتا ہے۔ ترجمان وفاقی وزارتِ صحت کے مطابق نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ نے بھارتی کورونا وائرس کا کیس تشخیص کیا تھا جس کے لیے مئی 2021ء کے پہلے تین ہفتوں کے دوران ایس او آر ایس کووڈ 2 نمونے حاصل کیے گئے تھے۔ نتائج سے تصدیق ہوئی کہ سات کیسز جنوبی افریقی اور ایک کیس بھارتی جراثیم سے متاثرہ ہے۔ اگرچہ پاکستان میں بھارتی قسم کے وائرس کا ابھی صرف ایک کیس ہے؛ تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق دونوں ممالک سے آنے والے وائرس سے متاثرین کی تعداد سینکڑوں میں ہوسکتی ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل پیرا رہیں، خصوصاً جنوبی افریقی وائرس سے معصوم بچوں کو بچانے کے لیے ایس او پیز پر عملدرآمد مزید سخت کرنا ہو گا۔ این سی او سی نے چھوٹی جماعتوں کے لیے بھی سکول کھولنے کی اجازت دے دی ہے جبکہ دسویں اور بارہویں کے بچوں کے امتحانات بھی ضروری ہیں۔ کورونا کی وجہ سے سکولوں کی بندش سے بچوں کا پہلے ہی بہت وقت ضائع ہو چکا ہے ایسے میں ضروری ہے کہ ایس او پیز کی پابندی کے ساتھ کوئی ایسا انتظام کیا جائے کہ بچوں کا تعلیمی سال ضائع نہ ہو اور کورس بھی مکمل ہو جائے۔ اب اگر سکول کھولنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو اس پر قائم رہنا چاہیے؛ البتہ ایس او پیز کی پابندی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جا سکتالہٰذا ضروری ہے کہ فیس ماسک کا استعمال پہلے سے زیادہ سختی سے کیا جائے کیونکہ ماسک کے استعمال سے وائرس کے پھیلائو کا تناسب کم کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف اس وقت ملک بھر میں ویکسین ریکارڈ تعداد میں لگائی جا رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے اس ضمن میں سوشل میڈیا نے نہایت منفی کردار ادا کیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس میڈیا نے ترقی تو بہت کی ہے مگر مثبت استعمال کے بجائے افواہ سازی اور منفی خبروں کے لیے اسے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا کے جاہل دانشوروں نے پولیو کے بعد کورونا ویکسین کوبھی متنازع بنانے کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں، آئے روز ویکسی نیشن کے ''مضر اثرات‘‘ کے بارے جعلی اور من گھڑت پوسٹیں وائرل کی جا رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں سے ایک ایسی پوسٹ وائرل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کورونا ویکسین لگوانے والے افراد دو سال کے اندر موت کی وادی میں جا سکتے ہیں۔ وفاقی وزارتِ صحت نے اس حوالے سے وضاحت بھی جاری کی ہے کہ کہ کوئی سائنسی تحقیق یہ ثابت نہیں کرتی کہ ویکسین لگوانے سے مخصوص مدت میں موت واقع ہو سکتی ہے، یہ خبر من گھڑت ہے، کسی نوبیل انعام یافتہ سائنسدان نے اپنے کسی انٹرویو میں ایسی کوئی بات نہیں کی، تمام ویکسینز تحقیق اور ٹیسٹنگ کے مراحل سے گزر کر ہی عوام تک پہنچتی ہیں۔ عوام کو بھی من گھڑت اور جعلی خبروں کا شکار ہونے کے بجائے عقل و دانش سے کام لینا چاہیے اور فوری طور پر ویکسین لگوانی چاہیے۔ اس وقت ملک بھر میں اساتذہ اور 30 سال سے زائد عمر کے افراد کی واک اِن ویکسی نیشن شروع کر دی گئی ہے لہٰذا 30 سال یا زائد عمر کے افراد نے اگر ابھی تک ویکسین نہیں لگوائی تو فوری طور پر خود کو رجسٹرڈ کروائیں اور قریبی ویکسی نیشن مرکز جا کر ویکسین لگوائیں۔ اب تک پاکستان میں لگ بھگ 61 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین کی ایک ڈوز لگائی جا چکی ہے جبکہ 15 لاکھ سے زائد لوگوں کو دونوں ڈوزز لگ چکی ہیں۔ این سی او سی کے مطابق‘ اب تعلیمی اداروں کے18 سال سے زائد عمر کے اساتذہ بھی رجسٹریشن کے ذریعے واک اِن ویکسی نیشن کروا سکتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ عوام میں کورونا ویکسی نیشن کی افادیت اور اہمیت بارے خصوصی آگاہی مہم چلائے اور لوگوں کو بتایا جائے کہ اس وقت مفت میں ویکسین لگائی جا رہی ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں ورنہ مستقبل میں پریشانی کا سامنا کرنے کے ساتھ ایمرجنسی میں مہنگے داموں ویکسین بھی لگوانی پڑ سکتی ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ تو حج اورعمرہ ہو سکے گا اور نہ ہی بیرونِ ملک سفر کی اجازت ہو گی۔
اس وقت مختلف ممالک کی ویکسین کے نتائج اور مضر اثرات بارے بھی کافی باتیں ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق تمام ویکسینز کامعیار بہتر ہے لیکن پاکستان کے موجودہ ٹمپریچر میں بعض ویکسینز کو سٹور کرنا مشکل ہے جبکہ چین کی ویکسین آسانی سے دستیاب ہونے کے ساتھ ہمارے خطے کے لیے زیادہ مفید بتائی جا رہی ہیں۔ سعودی عرب کی جانب سے جاری کی جانے والی حج پالیسی (جسے سعودی عرب نے ابھی حتمی پالیسی نہیں قرار دیا) میں چینی ویکسین کو شامل نہیں کیا گیا، اس حوالے سے حکومتِ پاکستان سعودی عرب کو درخواست دے چکی ہے اور امید ہے کہ آئندہ ایک دو ہفتوں پر اس حوالے سے مثبت فیصلہ سامنے آ جائے گا۔ البتہ حکومت کو ملک کے اندر بھی کورونا سرٹیفکیٹ کو ضروری قرار دیتے ہوئے ہوٹل مالکان کو ہدایات جاری کرنی چاہئیں کہ ویکسی نیشن سرٹیفکیٹ کے بغیر کسی کو کمرہ نہ دیاجائے، اسی طرح مختلف کمپنیاں اپنے ملازمین کی ویکسی نیشن کی ذمہ داری لیں تاکہ کم از کم دستاویزی طور پر پاکستان کورونا کی پابندیوں سے بچ سکے۔ عوام کو چاہئے کہ ویکسی نیشن کے باوجود فیس ماسک کے استعمال کی عادت کو اپنا معمول بنا لیں کیونکہ آئی وی (ویکسین) لگوانے والا انسان خود تو محفوظ ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجود وائرس دوسروں میں اسی شدت سے منتقل ہو سکتا ہے اس لیے جب تک سب کی ویکسی نیشن نہیں ہو جاتی‘ ماسک کا استعمال ضروری ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں