کسی بھی ملک کی سرحدی صورتحال داخلی امور پر گہرا اثر رکھتی ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت جیسا کم ظرف ہو تو ہر وقت دہشت گردی اور تخریب کاری کے ساتھ ساتھ جنگی چالوں میں مگن رہتا ہے اور اگر افغانستان جیسا جنگ زدہ ملک ہمسایے میں ہو تو برادر ملک ہونے کے باوجود چین سے رہنے نہیں دیتا۔ کبھی اس کے عوام کو دشمن سے بچانے کے لیے پناہ دینا پڑتی ہے جو خدا جانے کب تک بھگتنا پڑے گی اور کبھی انہیں بھوک سے بچانے کے لیے اپنے عوام کا پیٹ کاٹ کر خوراک پہنچانا پڑتی ہے جو کبھی سمگلنگ میں بدل کر اپنے ہی ملک میں قلت کا سبب بن جاتی ہے۔ ایک اچھے ہمسایے اور بردار مسلم ملک ہونے کے ناتے افغانوں کی مدد کرنا ہمارا فرض بھی ہے لیکن ہم نے اس فرض کی ادائیگی میں اور بھی بہت سے غیر واجب قرض اتارے ہیں۔ اس ہمسایے سے اور تو کچھ ملا یا نہیں‘ لیکن مہاجرین کے صندوقوں سے اسلحہ اور منشیات وافر مقدار میں ملے، جن سے ایک طرف ہماری نوجوان نسل کا مستقبل دائو پر لگا تو دوسری طرف دنیا بھر میں امن و سکون اور سیاحت کے لیے مشہور پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں آ گیا۔ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا۔ رفتہ رفتہ افغان پناہ گزینوں نے نہ صرف یہاں غیر قانونی ذرائع سے شناختی کارڈ بنوا کر پاکستان کی شہریت حاصل کر لی بلکہ اربوں روپے کی جائیدادیں بنانے کے علاوہ بڑے بڑے کاروبار بھی سیٹ کر لیے۔ بات یہاں تک رہتی تو شاید پھر بھی کچھ قابلِ قبول تھی‘ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف پاکستانی قوم ایک اچھے ہمسایے کے طور پر افغان مہاجرین کو اپنے شہریوں سے بڑھ کر سہولتیں دے رہی ہے تو دوسری طرف کچھ افغان دشمن ملک بھارت کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ افغانستان یہ جانتے ہوئے بھی کہ مشکل وقت میں صرف پاکستان ہی ان کے کام آتا ہے اور بھارت محض پاکستان کو مغربی جانب سے نشانہ بنانے کی خواہش لیے افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے جو خود افغانوں کے لیے بھی مفید نہیں‘ بھارت کے ہاتھوں بری طرح استعمال ہو رہا ہے۔ کبھی اس کی سرزمین ہمارے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے تو کبھی اس راستے سے جاسوس اور دہشت گرد اپنے ناپاک عزائم کے ہمراہ پاک سرزمین میں داخل کیے جاتے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ براہِ راست جنگی چالیں مسلسل ناکام ہونے کے بعد بھارت نے افغان بارڈر کو استعمال کرنے کے لئے ماضی قریب میں افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کی اور شہر‘ شہر درجنوں قونصل خانے اور خفیہ آفسز کھولے۔ بھارت پاکستان کو افغانستان کے ساتھ الجھا کر خود فائدہ اٹھانا چاہتا تھا لیکن شاید برہمن بنیا یہ نہیں جانتا کہ وہ چند مفاد پرستوں کو تو خرید سکتے ہیں لیکن جن افغانوں نے سوویت یونین کو مار بھگایا تھا اور امریکا کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے‘ وہ کبھی بھی بھارت کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے۔ بھارت اب افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی سے گھبرا چکا ہے، 50 بھارتی سفارتکاروں سمیت سٹاف کے ارکان کو خصوصی طیارے کے ذریعے واپس نئی دہلی بلا لیا گیا ہے، بھارت کے تمام قونصل خانوں نے افغانستان میں کام بند کر دیا ہے، اور یہ بھارت کی ناکام افغان پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت امریکا کی آڑ میں افغانستان میں آپریشن جاری رکھنے میں ناکام ہو چکا ہے اور اب بزدل دشمن نے افغانستان میں خانہ جنگی کیلئے ڈبل گیم شروع کر دی ہے، ایک طرف طالبان سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب بھارتی طیارے طالبان کے خلاف افغان آرمی اور قومیتی گروپوں کو اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ افغانستان سے سفارتکاروں کے انخلا کے نام پر بھارتی فوج کے خصوصی طیارے کابل اور قندھار پہنچے اور اشرف غنی حکومت کو بھاری اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کیا۔ بھارت کے سی 17 فوجی طیاروں پر 40 ٹن 122 ایم ایم کے گولے تھے جو بھارت سے افغانستان پہنچائے گئے۔ 10 جولائی کو پہلا سی 17 طیارہ رات11 بجے قندھار ہوائی اڈے پر اسلحہ لے کر اترا جبکہ اگلے روز 11 جولائی کو بھارتی فضائیہ کا ایک طیارہ کابل پہنچا۔ بھارتی حکام اپنی ناکامی کوچھپانے کے لیے کہہ رہے ہیں کہ قندھار قونصل خانے کو عارضی طور پر بند کیا گیا ہے، حالانکہ اس سے قبل ہرات اور جلال آباد کے قونصل خانے بھی بند کیے جا چکے ہیں؛ تاہم کابل میں بھارتی سفارتخانہ اور مزار شریف کا قونصلیٹ اب بھی افغانستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
دوسری جانب افغان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے افغانستان کے 85 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس وقت افغانستان روایتی میدانِ جنگ کا روپ دھار چکا ہے، افغانستان کے 34 میں سے 26 صوبوں میں حکومتی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ قندھار، قندوز، کابل، تخار، بامیان، پروان اور بلخ میں طالبان نے افغان فورسز پر حملے کیے ہیں۔ طالبان نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے قندھار شہر میں پولیس سٹیشن اور کئی چیک پوسٹوں کا قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ گزشتہ روز طالبان کی جاری کردہ ایک وڈیو میں طالبان کو بھارت کے خالی کیے گئے قونصل خانے پر قبضہ کرتے بھی دکھایا گیا۔ طالبان نے صوبہ قندوز میں افغان فورسز کے تباہ ہونے والے دو ہیلی کاپٹروں کو گرانے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ صوبہ پکتیکا میں افغان فوج کے اہلکار مزاحمت کیے بغیر طالبان کے سامنے سرنڈر ہو گئے، ان حالات میں بھارت افغانستان سے بھاگنے پر مجبور ہو چکا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ طالبان کبھی بھی اس کی چالوں میں نہیں آئیں گے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے اس اعلان کہ ''پاکستان ہمارا برادر مسلم ملک اور دوسرا گھر ہے‘ پاکستان لاکھوں مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، اس کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہشمند ہیں اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ نے بھارت کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے افغانستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ طالبان سے بات کی جائے، اب طالبان ایک سلجھا ہوا گروہ ہیں، ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں۔ چین، روس، ایران اور پاکستان ایک بدلے ہوئے خطے میں ہیں، آج بھارت کے پاس افغانستان سے بھاگنے سے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم امن کیلئے افغانستان میں پہلے بھی ساری دنیا کے ساتھ تھے‘ اب بھی ہیں۔ اُدھر افغان عوام‘ حکومت اور طالبان سے جنگ بندی کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ کابل کے شہریوں کا کہنا ہے کہ چار دہائیوں سے بدامنی میں رہنے پر مجبور ہیں، اب ملک میں امن ہو جانا چاہے۔ افغان شہریوں نے موجودہ صورتحال پر امریکا کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کو افغانستان کے مستقبل کی کوئی فکر نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں جہاں پورے خطے کا امن دائو پر لگا ہوا ہے‘ وہیں پاکستان کے لیے سنہری موقع بھی ہے کہ ہمارا روایتی دشمن پسپا ہو چکا ہے‘ امریکا واپس جا رہا ہے‘ بظاہر طالبان مضبوط پوزیشن میں ہیں اور مستقبل میں ان کا کردار مزید اہم ہو گا۔ پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین انٹیلی جنس سسٹم ہے اور ہمارے ادارے دشمن کی تمام ناپاک سازشوں کو اچھی طرح جانتے ہیں، ہماری بہادر افواج اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے چاق و چوبند ہیں؛ تاہم اب ہمیں سفارتی لحاظ سے اپنی پالیسیوں کو حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے افغانستان کے تمام فریقوں کو اعتماد میں لینا ہو گا۔ ہم پہلے ہی افغان مہاجرین کی مدد میں اپنا بہت کچھ کھو چکے ہیں، اب قدرت نے حالات کو ایک بار پھر ایسے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ مستقبل کا بہتر لائحہ عمل بھی مرتب کر سکتے ہیں، اب ہمیں اپنی سفارتی و خارجہ پالیسی کو اس انداز سے چلانا ہو گا کہ افغانستان میں دشمن دوبارہ اپنے قدم نہ جما سکے اور اس کے ساتھ ساتھ افغان بھی اپنے ملک میں امن سے رہ سکیں کیونکہ ہماری معیشت اب مزید مہاجرین کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتی۔ ہمیں افغان قوم کے ساتھ اپنی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ بنانا ہے۔