اس وقت دنیا کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو پاکستان واحد ایسا ملک نظر آتا ہے جس کا سربراہِ مملکت (وزیراعظم) ایک سابق عالمی چیمپئن ہے۔ عمران خان نے جب وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا تو راقم الحروف سمیت کھیلوں کے شائقین کا خیال تھا کہ اب شاید کھیلوں کی بحالی و فروغ کو حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل کیا جائے گا اور ہم بہت جلد 1992ء جیسا مقام دوبارہ حاصل کر پائیں گے۔ دنیا تیس برس آگے کا سوچتی اور اس مطابق حکمت عملی مرتب کرتی ہے لیکن ہمارا یہ حال ہو چکا ہے کہ ہم تیس سال پہلے والے مقام پر پہنچنے کے خواب کو بھی شرمندۂ تعبیر نہیں کر سکے۔ 2018ء میں جب موجودہ حکومت کی تشکیل ہوئی‘ اسی سال چند ماہ بعد جکارتہ (انڈونیشیا) میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا سپورٹس میلہ‘ ایشین گیمز سجنے جا رہا تھا۔ گرین شرٹس کھلاڑی، آفیشلز اور کھیلوں کے شائقین سوچ رہے تھے کہ ایشین گیمز کی تیاریوں کے لیے تمام کھیلوں کے تربیتی کیمپ لگیں گے اور تمام قومی ایتھلیٹس کو عالمی معیار کے مطابق ہر سہولت ملے گی اور پاکستان وکٹری سٹینڈ پر آنے کیلئے خوب مقابلہ کرے گا لیکن یہ خواب اسی وقت چکنا چور ہو گیا جب حکومت نے نیشنل گیمز کے نتائج سے ٹیموں کی سلیکشن کا انتہائی غلط فیصلہ کیا اور مختلف حیلے بہانوں سے کام چلا کر کسی بھی کھیل کا باقاعدہ تربیتی کیمپ نہ لگایا۔ نتیجتاً پاکستان صرف چار کانسی کے تمغے جیت پایا۔ حقیقت پسندی سے کام لیں تو ان میں سے بھی صرف ارشد ندیم کا (کانسی) تمغہ ہی واحد میڈل تھا جس کے پیچھے محنت اور مقابلہ نظر آتا تھا‘ ورنہ باقی تین میڈلز تو ہمیں سیمی فائنل قواعد و ضوابط کی بدولت ملے تھے۔ 2019ء میں انعام بٹ پہلوان پہلی بار بیچ ریسلنگ کا ورلڈ چیمپئن بنا تو ایئر پورٹ پر صرف یوتھ ایجوکیشن اینڈ سپورٹس ویلفیئر سوسائٹی کی ٹیم نے قومی ہیرو کا استقبال کیا تھا اور سپورٹس بورڈ کے حکام سمیت کوئی بھی حکومتی عہدیدار استقبال کیلئے نہ پہنچا۔ صرف یہی نہیں بلکہ قوم کے اس فرزند نے مسلسل تین برس ورلڈ چیمپئن شپ کا ٹائٹل جیت کر ہیٹرک مکمل کی لیکن رواں برس جب اس نے پاکستان کے ٹائٹل کا دفاع کرنا تھا تو فرانس نے اسے ویزا جاری نہیں کیا‘ اس کی چیخ و پکار کے باوجود حکومتی سطح پر اس کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔ ویٹ لفٹر طلحہ طالب، طیب اعوان پہلوان اور بلال بٹ پہلوان جیسے نوجوان ہیروز نے کامن ویلتھ گیمز میں میڈلز جیتے لیکن ہم نے انہیں اولمپکس کی تیاری کیلئے مطلوبہ معیار کی کوئی سہولت فراہم نہ کی، اس کے باوجود ارشد ندیم اور طلحہ طالب نے ٹوکیو اولمپکس میں اپنے زورِ بازو سے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ دونوں قومی ہیرو میڈلز تو نہ جیت سکے لیکن قوم کے دل ضرور جیت لیے۔
ارشد ندیم 2 جنوری 1997ء کو پنجاب کے ضلع خانیوال کے ایک چھوٹے سے شہر میاں چنوں کے ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے، وہ سکول کے زمانے سے ہی ایک ورسٹائل کھلاڑی تھے‘ جو سکول میں ہونے والے تمام کھیلوں‘ کرکٹ ، بیڈمنٹن، فٹ بال اور ایتھلیٹکس وغیرہ میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ بچپن میں ان کا اصل جنون کرکٹ تھا اور وہ علاقے میں ٹیپ بال کا مشہور کھلاڑی بن گئے تھے۔ جب ساتویں جماعت میں پہنچے تو ان کے استاد رشید احمد ساقی نے ان میں چھپے دنیا کے بہترین ایتھلیٹ کو پہچان لیا اور ان پر خصوصی توجہ دی۔ جیولین تھرو میں مہارت سے پہلے ارشد نے شاٹ پٹ اور ڈسکس تھرو گیمز بھی کھیلیں۔ پنجاب یوتھ فیسٹیول اور انٹر بورڈ مقابلوں میں جیولین تھرو کے گولڈ میڈلز اور بہترین ریکارڈ نے اسے قومی ایتھلیٹ بنا دیا، پھر وہ تمام ڈیپارٹمنٹس کی ٹیموں کیلئے فیورٹ کھلاڑی بن گیا۔ ارشد کے والد محمد اشرف نے اسے دیگر ایونٹس چھوڑ کر صرف جیولین تھرو کا کھیل اپنانے پر آمادہ کیا۔ ارشد ندیم نے 2015ء سے باقاعدہ جیولین تھرو ایونٹس میں حصہ لینا شروع کیا۔ مئی 2017 میں اسلامی سالیڈیریٹی گیمز میں76.33 میٹر کے بہترین تھرو کے ساتھ اس نے کانسی کا تمغہ جیتا۔ اپریل 2018ء میں گولڈ کوسٹ، آسٹریلیا میں منعقدہ کامن ویلتھ گیمز میں جیولین تھرو ایونٹ کے کوالیفکیشن رائونڈ میں 80.45 میٹر کا نیا ذاتی ریکارڈ سیٹ کیا۔ اگست 2018ء میں اس نے انڈونیشیا کے شہر جکارتہ میں ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتا جہاں اس نے 80.75 میٹر کا نیا قومی ریکارڈ قائم کیا۔ 2018ء کامن ویلتھ گیمز کے اختتام کے بعد وہ کمر کی انجری کا شکار رہا۔ اس کے باوجود اس نے دوحہ (قطر) میں 2019ء ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئن شپ میں واحد پاکستانی ایتھلیٹ کی حیثیت سے 81.52 میٹر کا نیا قومی ریکارڈ قائم کیا۔ نومبر 2019 ء میں پشاور میں 33ویں نیشنل گیمز میں واپڈا کے لیے سونے کا تمغہ جیتا اور 83.65 میٹر تھرو ریکارڈ کر کے ایک قومی ریکارڈ قائم کیا۔ دسمبر 2019ء میں ارشد نے نیپال میں 13ویں سائوتھ ایشین گیمز میں 86.29 میٹر گیم ریکارڈ تھرو کے ساتھ نہ صرف طلائی تمغہ جیتا بلکہ سائوتھ ایشین گیم میں نیا ریکارڈ قائم کرنے کے باعث ٹوکیو اولمپکس کیلئے براہِ راست کوالیفائی بھی کر لیا۔ ارشد ندیم اولمپکس کے لیے براہ راست کوالیفکیشن حاصل کرنے والے پہلے پاکستانی ٹریک اینڈ فیلڈ ایتھلیٹ ہیں۔ 4 اگست 2021ء کو ارشد نے ٹوکیو اولمپکس کے مردوں کے جیولین تھرو ایونٹ کے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا اور جیولین تھرو ایونٹ میں 84.62 میٹر کے تھرو کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہے۔ مایہ ناز قومی ہیرو کے والد محمد اشرف کو افسوس ہے کہ ارشد کو اولمپکس کی تیاری کیلئے اچھے گرائونڈ کی سہولت فراہم نہیں کی گئی اور اس نے گلی محلوں میں ٹریننگ کرکے یہ مقام حاصل کیا جبکہ اولمپکس کی تیاری کیلئے حکومت کی جانب سے مالی امداد بھی آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
سوال یہ ہے کہ اپنے زورِ بازو پر اولمپکس تک پہنچنے اور شاندار کارکردگی دکھانے والے ارشد ندیم اور طلحہ طالب کو سرپرستی اور سہولتیں نہ ملنے کا ذمہ دارکون ہے؟ اس سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اور پاکستان سپورٹس بورڈ کی صدر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان سپورٹس بورڈ اور پی او اے سمیت کوئی بھی ادارہ بھرپور کردار ادا نہیں کر رہا۔ صدر پی او اے سید عارف حسن کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ ملک میں ٹیلنٹ نکھارنے کا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔ٹوکیو سمر اولمپکس، فائنل میڈل رائونڈ میں پانچویں پوزیشن حاصل کرنے پر قومی ہیرو ارشد ندیم کے لیے پنجاب سپورٹس بورڈ اورحکومت پنجاب کے محکمہ توانائی سمیت مختلف اداروں، تنظیموں اور افراد کی جانب سے انعامات کا اعلان کیا گیا ہے۔ اولمپکس میں شاندار کامیابی پر ارشد ندیم کا کہناہے کہ یہ اولمپکس میرے لیے سبق آموز تھے، ان شاء اللہ اگلے اولمپکس میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کروں گا۔ انہوں نے مکمل سپورٹ کرنے پر پاکستانی قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں قوم کی دعائوں کی بدولت ہی کوالیفائنگ رائونڈ سے فائنل تک پہنچا اور فائنل میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔ ارشد ندیم کی یہ اپیل کہ اگلے اولمپکس کی تیاریوں کیلئے اسے بہتر سہولتیں فراہم کرتے ہوئے تمام تر انتظامات کیے جائیں تاکہ وہ قوم کو مایوس نہ کریں‘ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہم نے شاید وہ مطلوبہ سہولتیں اپنے ہیرو کو فراہم نہیں کی تھیں جو ان کے حریفوں کو دستیاب تھیں۔ وزیراعظم صاحب کوچاہئے کہ چند روز قبل اپنے اعلان کے مطابق‘ وہ ملک میں کھیلوں کی بحالی اور فروغ کی نگرانی خود کریں ، ارشد ندیم اور طلحہ طالب جیسے قومی ہیروز کو ہر ممکن اور عالمی معیار کی سہولتیں مہیا کی جائیں تاکہ اولمپکس سمیت تمام عالمی مقابلوں میں سبز ہلالی پرچم سر بلند ہو سکے۔