ویسے تو سبھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آزاد و خود مختار شہری ہیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ وطن عزیز میں ایک عام غریب شہری کی قسمت حکمرانوں کے ہاتھ کی لکیروں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ یہاں سیاسی وڈیروں کی مرضی ہی قانون سمجھی جاتی ہے اور آئین تو کسی بھی حکمران جماعت کیلئے کبھی کوئی مسئلہ رہا ہی نہیں، کیونکہ جب بھی کوئی حاکم وقت کوئی خواب دیکھتا ہے تو اسے یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اس کاخواب ملک وقوم کے لئے کتنا نفع بخش یا کتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے بلکہ اسے تو صرف ایک ہی بات کا علم ہوتا ہے کہ اگر اس کا خواب عددی اکثریت کے باعث پورا نہیں ہو سکتا تو آرڈیننس جاری کر کے اس خواب کو قانونی شکل دی جا سکتی ہے۔ نتائج تو قوم نے بھگتنا ہوتے ہیں جو سات دہائیوں سے بھگت ہی رہے ہیں۔ پانچ سال تک تو ہر برسر اقتدار جماعت عوام پر اپنی مرضی مسلط کرتی ہے اور غریب کے پاس پانچ سال بعد‘ صرف ایک دن ایسا آتا ہے جب وہ ان امیروں اور وڈیروں کی قسمت پر ٹھپہ (مہر) لگاتا ہے، لیکن اب غریب شہری سے یہ اکلوتا اختیار بھی چھیننے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پہلے جو کام درجنوں خطاط اورکاتب کرتے تھے‘ اب ایک کمپیوٹر آپریٹر وہ سارا کام چند منٹوں میں کر دیتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکمران جماعت نے انتخابی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا۔ نظام میں بہتری کی کوئی خاص تجویز تو فی الحال سامنے نہیں آ سکی؛ تاہم حکومت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے استعمال پر اپنا سارا زور وقف کر رکھا ہے۔ حکومت آئندہ عام انتخابات ای وی ایم کے ذریعے کرانا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس کی بھرپور مخالفت کر رہی ہیں اور ان کا موقف ہے کہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک ای وی ایم کو مسترد کر چکے ہیں اور اس سے ووٹ کی شفافیت کو یقینی بنانا مشکل ہے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین بل میں قانونی نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کو انتخابات کے انعقاد کیلئے افہام و تفہیم سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ 2017ء میں مشاورت کے بعد انتخابی اصلاحات اتفاقِ رائے سے ہوئیں‘ یہ روایت آئندہ انتخابات کیلئے بھی قائم رہنی چاہئے۔ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو سیاسی فیصلہ سازی کا ذمہ دار الیکشن کمیشن کو نہیں ٹھہرانا چاہئے جبکہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم اتفاقِ رائے کے بغیر کرنے سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات پیدا ہوں گے۔
الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے انتخابات میں استعمال کے حوالے سے 37 اعتراضات داخل کیے ہیں اور ان اعتراضات پر مبنی ایک تفصیلی رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھی جمع کرائی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئین کے مطابق آزادانہ، شفاف اور قابل اعتماد انتخابات نہیں ہو سکتے، ای وی ایم دھاندلی نہیں روک سکتی کیونکہ اسے ہیک کیا جا سکتا ہے، مشین کو بہ آسانی ٹیمپر کیا جا سکتا ہے اور اس کا سافٹ ویئر آسانی سے بدلا جا سکتا ہے۔ یہ مشین الیکشن فراڈ نہیں روک سکتی اور ریاستی اختیارات کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ووٹ کی خرید و فروخت کو بھی نہیں روکا جا سکتا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں نہ ووٹ کی کوئی سیکریسی ہے اور نہ ووٹ ڈالنے والے کی۔ نہ شفافیت، نہ آئندہ عام انتخابات سے پہلے ٹیسٹنگ کا وقت، نہ سٹیک ہولڈرز کا اتفاقِ رائے، نہ عوام کو اعتماد ہے اور نہ ہی ملک بھر میں مشینوں کی تنصیب کے حوالے سے فنڈنگ دستیاب ہے۔
حکومتی وزرا کی جانب سے الیکشن کمیشن پر شدید تنقید بھی سامنے آئی اور اس آئینی ادارے کو سیاسی قرار دے کر چیف الیکشن کمشنر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس پر الیکشن کمیشن نے دو وفاقی وزرا کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے انہیں نوٹس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے حکومتی وزرا کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی پُرزور تردید کرتے اور انہیں مسترد کرتے ہوئے وزرا سے ثبوت طلب کیے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کی زیر صدارت الیکشن کمیشن کا ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر لگائے گئے وفاقی وزرا کے الزامات کو زیر بحث لایا گیا۔ واضح رہے کہ چند روز قبل وفاقی وزیر ریلوے اعظم سواتی نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن ہمیشہ دھاندلی میں ملوث رہا ہے اور ایسے اداروں کو آگ لگا دینی چاہیے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ کمیشن نے رشوت لے کر انتخابات میں دھاندلی کی۔ اسی شام وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے ایک پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اپوزیشن کے آلہ کار کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں‘ اگر انہیں سیاست ہی کرنی ہے تو الیکشن کمیشن چھوڑ کر الیکشن لڑیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کا احترام اپنی جگہ لیکن شخصیات کے سیاسی کردار پر بات کرنا پسند نہیں تو اپنا کنڈکٹ غیر سیاسی رکھیں، نوٹس آیا تو تفصیلی جواب دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت ادارہ الیکشن کمیشن کی حیثیت مسلمہ ہے لیکن شخصیات غلطیوں سے مبرا نہیں اور تنقید شخصیات کے کنڈکٹ پر ہوتی ہے‘ ادارے پر نہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آئندہ عام انتخابات کرانے کے خلاف درخواست دائرکی گئی جس کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس حوالے سے کئی سوالات بھی اٹھائے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کے لیے تو قانون سازی نہیں ہو گی؟ ابھی یہ درخواست قبل از وقت نہیں؟ ابھی تو یہ معاملہ زیر بحث ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے موقف اپنایا کہ حکومت الیکشن کمیشن کی اتھارٹی پر غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے، عدالت الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر کے اعتراضات کی رپورٹ طلب کرے۔
ماضی میں انتخابی نتائج پر سب سے زیادہ اعتراضات کرنے والی پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن نے کہا ہے کہ حکومت جمہوری روایات سے تصادم کی راہ پر ہے، ای وی ایم سے ووٹر کی رازداری نہیں رہے گی۔ حکومت جمہوریت کے عالمی دن پر اس نظام کے حق میں بیانات دے رہی ہے مگر عملی طور پر جمہوری روایات سے متصادم چل رہی ہے۔ ملک پر ایسی ووٹنگ مشینری مسلط کی جا رہی ہے جس کی دنیا کے دیگر ممالک اور الیکشن کمیشن نے مخالفت کی ہے، ہمیں الیکشن پر ہمیشہ تحفظات رہے ہیں مگر آئینی اداروں کو متنازع نہیں کیا جانا چاہیے۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ کھلا میدان نہ ہو، الیکشن کمیشن انتخابات کا ایک کلیدی سٹیک ہولڈر ہے۔ مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت نے بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو الیکشن چوری کرنے کا نیا ذریعہ قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ اگر انہیں کوئی اٹھا کر لے گیا تو کہاں سے ڈھونڈیں گے؟
الیکشن رپورٹنگ کے ماہر صحافی الماس نقوی کا کہناہے کہ ماضی میں ہمسایہ ملک بھارت میں بھی ای وی ایم استعمال ہوئی، اپوزیشن کے حامی جس بھی پارٹی کو ووٹ ڈالتے‘ مشین سے بی جے پی کا ووٹ ہی نکلتا‘ اس لیے یہ مشین قابل اعتماد نہیں۔ اس کا سافٹ ویئر آسانی سے تبدیل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے ایک وفاقی وزیرکا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ الیکٹرانک مشین پر ووٹ کا بٹن دبانے سے ڈیجیٹل ووٹ بھی پول ہو گا اور ایک پرچی مشین سے نکلے گی جسے ووٹر ڈبے میں ڈال سکتا ہے جو کائونٹر چیک ہوسکتاہے لیکن اس پرچی کا پرنٹ ناقص ہوگا جو جلد ہی مٹ جائے گا لہٰذا غریب سے ٹھپہ لگانے کا اکلوتا اختیار چھیننے سے قبل ای وی ایم کا مختلف ضمنی اور چھوٹے انتخابات میں پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر تجربہ کرنا ضروری ہے۔