مفادات کی سیاست اور مخالفت برائے مخالفت

شاہ جی فرماتے ہیں کہ ہماری موجودہ سیاست میں امانت، دیانت، صداقت اور شرافت کی گنجائش بہت کم رہ گئی ہے، شرم و حیا اور اصولوں کا دور لد گیا، تنقید برائے اصلاح ماضی کا قصہ بن کر رہ گئی ہے، اب مفادات کی سیاست رائج ہو چکی ہے جہاں مخالفت برائے مخالفت کے ذریعے سستی شہرت حاصل کرنے اور پارٹی قیادت کی نظروں میں نمایاں ہونے کا رواج بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ بحیثیت پاکستانی‘ جب ہم اپنے اردگرد سیاسی ماحول کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اپنی سیاسی اقدار دم توڑتی دکھائی دیتی ہیں، جمہوری روایات ختم ہو رہی ہیں، سیاستدانوں کی اکثریت کو اس بات کی پروا نہیں کہ انہیں عوام نے کس مقصد کے لیے ووٹ دے کر منتخب کیا ہے بلکہ انہیں تو محض ذاتی مفادات کا تحفظ عزیز ہے۔ یہ تومیں پہلے بھی کہتا آیا ہوں کہ اچھے لوگ یقیناً ہر جگہ اور ہر شعبے میں موجود ہوتے ہیں، سیاست میں بھی انتہائی ایماندار، محب وطن، فرض شناس، اعلیٰ تعلیم یافتہ، بااخلاق اور بے لوث افراد کی کمی نہیں لیکن اس وقت نظر آنے والے سیاستدانوں کی اکثریت ایسی ہے جس کا مقصد اور منزل صرف اقتدار کے ایوان ہیں، ان لوگوں کو ہر حال میں اور کسی بھی قیمت پر الیکشن جیت کر حکومتِ وقت میں اپنے لیے کوئی اہم عہدہ چاہئے ہوتا ہے۔ ایسے سیاست دانوں کے نظریات صرف اور صرف اپنی موجودہ جماعت کی مرکزی قیادت کی خوشنودی حاصل کرنے کے گرد ہی گھومتے ہیں جبکہ ان کا منشور الیکشن والے دن پولنگ ختم ہونے تک ہی ہوتا ہے۔ اسمبلی رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد یہ منشور کمزور اور پھر وزارت یا کوئی دوسرا حکومتی عہدہ ملنے کے بعد سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔ آج کل سیاسی منظر پر چھائے ایسے افراد کی اکثریت ہے جن کا کوئی نظریہ نہیں، کوئی منشور نہیں، کوئی سوچ یا سیاسی رائے نہیں، انہیں صرف اور صرف ایک ایسی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ چاہئے ہوتا ہے جو الیکشن میں ان کی کامیابی کی ضمانت بنے۔
بدقسمتی سے آج کل وہی سیاستدان اپنے آپ کو زیادہ کامیاب تصور کرتا ہے جو ہر بار ہوا کا رخ دیکھ کر جیتنے والی جماعت کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے اور جو کسی بھی طریقے یا ذریعے سے ہر آنے والی حکومت میں شامل ہو جائے۔ موجودہ حکومت میں بھی ایسی کئی شخصیات شامل ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں کے دوران متعدد سیاسی پارٹیاں بدل چکی ہیں۔ بعض ایسے سیاست دان بھی ہیں جو ملک کی تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں (موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون) کے علاوہ قاف لیگ کے جھنڈے تلے پرویز مشرف دور میں بھی اقتدار کاحصہ رہ چکے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں پارٹی تبدیل کرنا یا حکومت وقت کے ساتھ اتحاد یا الحاق ہرگز غلط نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ پارٹی تبدیل کرنے والے کے مقاصد کیا ہیں اور اس نے کن حالات میں وفاداری تبدیل کی ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اندر بننے والے فارورڈ بلاک بھی زیادہ تر نظریۂ ضرورت کے تحت ہی وجود میں آتے رہے ہیں۔ اکثر حکومتیں اپنی سادہ اکثریت کو محفوظ بنانے کے لیے مخالف جماعتوں کے ایسے اراکین کو توڑ لیتی ہے جن کی اپنی پارٹی میں آواز دب چکی ہو یا وہ اپنے حصے کا 'مال پانی‘ سمیٹ چکے ہوں جب ایسے افراد کو مزید کچھ ملنے کی توقع نہیں رہتی تو پھر وہ پہلے اپنی پارٹی اور قیادت سے گلے شکووں کا عَلم بلند کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ جواز بناکر مخالف جماعت کی چھتر چھایہ میں جا بیٹھتے ہیں۔
بات چند سیاست دانوں کے ذاتی مفادات کی خاطر مخالفت برائے مخالفت سے شروع ہوئی تھی اور پھر سیاسی وفاداریوں کی جانب بڑھنے لگی۔ دراصل ان دونوں باتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگر پچھلی تین‘ چار حکومتوں کا جائزہ لیاجائے تو زیادہ تر وہی سیاستدان اپنے حریفوں پر تنقید کے زیادہ نشتر چلاتے دکھائی دیں گے جنہوں نے ایک سے زیادہ بار وفاداریاں تبدیل کیں، شاید انہیں اپنے نئے سیاسی آقائوں کو خوش کرنے اور اعتماد دلانے کے لیے اپنی سابق قیادت پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تنقید کرنا پڑتی ہے۔ بعض اوقات تو ایسے مواقع پر اخلاقیات کا دامن بھی چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس بات کا لحاظ بھی نہیں رکھا جاتا کہ آج جن کے خلاف وہ بڑھ چڑھ کر بیان بازی کر رہے اور برا بھلا کہہ رہے ہیں، کل تک انہیں ہی سب سے بڑا ایماندار، محب وطن اور ملک و قوم کا مسیحا قرار دیتے تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ حریفوں کوسب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنانے والے ہی سب سے پہلے حلیفوں کا اعتماد کھوتے ہیں۔ ایسے مواقع بھی آ جاتے ہیں کہ انہیں اپنے بھی پرائے نظر آنے لگتے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ پرویز مشرف حکومت میں وزیر تھیں‘ اس کے بعد وہ پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کا اہم حصہ رہیں، ان پر پی پی پی دورِ حکومت میں کرپشن کے الزامات بھی لگے، بعد ازاں وہ ''تبدیلی‘‘ کے پرچم تلے پاکستان تحریک انصاف کاحصہ بنیں، الیکشن ہار گئیں‘ اس کے باوجودموجودہ حکومت نے ان کی صلاحیتوں پر بھرپور اعتماد کرتے ہوئے انہیں معاونِ خصوصی (وزیر) بنادیا۔انہوں نے حقِ وفاداری نبھانے کیلئے اپوزیشن قیادت پر اتنی تنقید کی کہ بظاہر اپنی واپسی کے دروازے بند کرلئے لیکن پھر ایک دن اچانک انہیں جھنڈے والی سرکاری گاڑی سے اترنا پڑگیاجوان کیلئے ناقابلِ یقین اورحیران کن تھا۔انہوں نے اس پر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کرایا۔ کچھ مہینوں بعد ہی انہیں صوبے میں اہم ذمہ داری سونپ دی گئی لیکن وہاں بھی کچھ عرصے بعد ایسا ہی ہوا۔ بعض دوست تو بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ محترمہ اگلا الیکشن دوبارہ ''تیر‘‘ کے نشان پر لڑیں گی اور اس کے بعد وہ ''تبدیلی حکومت‘‘ کے حقائق بھی اسی شدت سے بیان کیا کریں گی جس طرح اب پی پی قیادت اورشریف فیملی کونشانہ بناتی ہیں۔
ایک سابق صوبائی وزیراور ایک موجودہ وزیربھی سیاسی حریفوں کے بارے میں انتہائی سخت موقف رکھتے ہیں۔ یہ دونوں شخصیات بھی ماضی کی حکمران جماعتوں کاحصہ رہ چکی ہیں۔ صوبائی وزیر صاحب کو کئی بار اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لینے کاٹاسک دیاگیا اور پھر اسی پاداش میں عہدے سے ہٹا بھی دیاگیا۔ اسی طرح وفاقی وزیرصاحب کا قلمدان بھی کئی بار تبدیل کیا جاچکاہے‘ اس کے باوجود ان کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ چند ورزقبل انہوں نے احتجاج کرنے والے مظاہرین کے بارے میں دہشت گرد اوربھارتی ایجنٹ جیسے الفاظ استعمال کیے جس پر انہیں مختلف مذہبی وسیاسی حلقوں کی جانب سے سخت تنقید کاسامنا کرناپڑا۔ وہ اس وقت پی ٹی آئی حکومت کے ترجمان ہیں اوراس نسبت سے ان کے الفاظ کو پارٹی کاموقف ہی سمجھا گیا لیکن جب غیروں نے ان پر تنقید کی تو اپنوں نے بھی ان کے مؤقف کی تائید نہیں کی۔ آج پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی میں سیاسی اتحاد کی باتیں سننے میں آرہی ہیں۔ اگر مستقبل میں ایسا کوئی اتحاد ہوتاہے تو موصوف اپنی باتوں کاکیسے دفاع کریں گے؟ اسی لیے سیاستدانوں کو چاہئے کہ سیاسی حریفوں پر تنقید کرتے وقت اس حد تک نہ جایا کریں جہاں سے واپسی کاراستہ مشکل ہویا پھر انہیں کہے ہوئے الفاظ پر پچھتاوے کاسامنا کرنا پڑے۔
ماضی میں ایسے پارلیمنٹیرینز کے لئے ہارس ٹریڈنگ جیسی اصطلاحات بھی استعمال ہوتی رہی ہیں جنہوں نے ذاتی مفادات یا مراعات کیلئے مشکل وقت میں پارٹی کوچھوڑ کر مخالف کیمپ جوائن کیایا پردے کے پیچھے رہ کر مخالفین کے ہاتھ مضبوط کیے۔ بلاشبہ ہم آج ایک ایٹمی طاقت ہیں لیکن ابھی تک سیاسی وجمہوری لحاظ سے بہت کمزور ہیں اور بعض اوقات ہم سیاسی مخالفت میں اپنے حریفوں کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جن کے لیے ہماری اپنی زبان بھی ہمارا ساتھ نہیں دے رہی ہوتی۔ جب تک ہم سیاسی اقدار کومضبوط نہیں بنائیں گے تب تک اداروں کو مضبوط نہیں بنایا جا سکتا اور اس وقت تک ملک بھی حقیقی ترقی کی شاہراہ پر تیزرفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں