گھر کا کچھ سودا سلف لینے کے لیے مارکیٹ گیا تو ایک بڑے شاپنگ مارٹ کے باہر قدِ آدم سائز کے بینر پرلکھا ''چینی 90 روپے فی کلوگرام‘‘ ہر کسی کو اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا۔ میں جب پارکنگ سے نکل رہا تھا تو حکمران جماعت کے ایک حامی دوست نے آواز دی اور بڑے فخر سے کہنے لگا، نہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھیں بلکہ گھر کے لئے جتنی چینی چاہئے‘ 90 روپے فی کلو کے حساب سے خرید لیں تاکہ آپ کو پتا چلے کہ ملک میں مہنگائی کی باتیں کرنے والے صرف اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔ آج وہ بغیر رکے بولتا جا رہا تھا: دیکھیں حقائق کچھ اور ہوتے ہیں لیکن عوام کو کچھ اور بتایا جاتا ہے۔ اب ہر جگہ چینی 90 روپے میں دستیاب ہے لیکن اپوزیشن 150 روپے کا جھوٹا پروپیگنڈا کر رہی ہے، اب آگے الیکشن آ رہے ہیں اسی لئے حکومت کے خلاف ایسی سازشیں بڑھتی جا رہی ہیں، اس ساری صورت حال کی ذمہ دار یہی اپوزیشن جماعتیں ہیں جنہوں نے ماضی میں ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ وہ اپنی دھن میں بولتا چلا جا رہا تھا۔ ''ساری شوگر ملیں تو انہی کی ہیں‘ حکومتی عہدیداروں کے تو صرف چندکارخانے ہیں‘‘۔ پھر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا: آج آپ وعدہ کریں کہ واپس جا کر 90 روپے چینی پر کالم لکھیں گے۔ میں تو خود اس بینر کو دیکھ کر بڑا خوش تھا کیونکہ گھر سے ایک سفید پوش آدمی کی طرح جو بجٹ بنا کر چلا تھا‘ اس میں چینی کی قیمت 125 سے 130روپے کی اوسط لگا کر آیا تھا لیکن یہاں تو پُرکشش بینر دیکھنے کے بعد بڑی عید سے پہلے ہی بڑی بچت نظر آ رہی تھی۔ مجھے بھی حکومتی وزرا اور ترجمانوں کی باتیں حقیقت لگنے لگی تھیں کہ اپوزیشن کی طرف سے غریب عوام کی دہائی محض پروپیگنڈا ہے۔ میں نے اس ''ٹائیگر‘‘ سے وعدہ کیا کہ اس ایشو پر ضرور قلم اٹھائوں گا اور عوام کو بتائوں گا کہ جب بازار میں چینی 90 روپے فی کلوگرام دستیاب ہے تو پھر مہنگائی کا اتنا شور شرابا کیوں کیا جا رہا ہے؟
بڑی مشکل سے حکمران جماعت کے سپورٹر سے جان چھڑائی اور خوشی خوشی مارٹ کے اندر داخل ہوا کیونکہ آج اتنی بچت جو نظر آ رہی تھی۔ میں سوچ رہاتھا کہ باقی اشیائے ضروریہ بھی اسی طرح سستی ہوں گی مگر جب ٹرالی پکڑ کر سامان اٹھانا شروع کیا تو ہر شے کی قیمت پچھلے مہینے سے کہیں اوپر جا چکی تھی۔ باہر والے بینر اور اس ٹائیگر دوست کی خوش فہمیوں سے دماغ میں جگہ بنانے والی غلط فہمی آہستہ آہستہ دور ہونے لگی۔ واشنگ پائوڈر، صابن، ٹوتھ پیسٹ، شیمپو، دالیں، کیچپ اور مسالا جات سمیت سب کچھ بیس سے تیس فی صد مہنگا مل رہا تھا۔ گھی اور کوکنگ آئل نے تو رسی سہی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کو یکجا کر کے مزید پریشان کر دیا تھا، مگر اب بھی مجھے یقین تھا کہ چینی تو 90 روپے فی کلو کے حساب سے ہی ملے گی اور باقی اشیا کی خریداری سے متاثر ہونے والا بجٹ چینی والے کائونٹر پر متوازی ہو جائے گا۔
چینی کے تھیلوں سے بھرے ریک کے پاس پہنچا تو چھوٹا سا کمپیوٹرائزڈ سٹیکر چسپاں تھا جس پر آج کا ریٹ ''5کلوگرام چینی: 750روپے‘‘ درج تھا۔ یہ سٹیکر دیکھ کر آنکھوں کے سامنے دھند سی چھانے لگی اور خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کے چکر نے چکرا کر رکھ دیا۔ میں نے قریب کھڑے سیلزمین سے دریافت کیا کہ بھائی باہر تو آپ لوگوں نے 90 روپے چینی کا اتنا بڑا سا بینر لگا رکھا ہے اور یہاں آپ 150 روپے فی کلوگرام فروخت کر رہے ہیں، یہ تو فریب اور بہت بڑا دھوکا ہے۔ سیلز مین کو میری بات بری لگی اور کہنے لگا کہ 'جناب یہ موٹی چینی ہے جو آج ہر جگہ 150 روپے کی مل رہی ہے۔ میں نے دوبارہ باہر لگے بینر کے بارے میں سوال کیا تو وہ کہنے لگاکہ وہ تو سرکاری چینی کا ریٹ ہے، اگر آپ نے سرکاری چینی لینی ہے تو ریک کے دوسری سائیڈ پر پڑا ایک پیکٹ اٹھا لیں۔ ساتھ ہی وہ ''سرکاری چینی‘‘ کے نقصانات گنوانے لگا۔ بقول اس کے‘ 90 روپے والی چینی میں نہ تو مٹھاس ہے اور نہ ہی وہ دانے دار ہے، سرکاری چینی اور امپورٹڈ نمک میں معمولی سا ہی فرق ہے، آپ دوسرے دن پھر موٹی چینی خریدنے کے لئے آئیں گے لیکن جس حساب سے ایک ہفتے میں چینی کے نرخ بڑھے ہیں‘ اگر یہی صورتحال رہی تو اگلی بار آپ کو یہ 170روپے میں ملی گی۔ اتنی باتوں کے بعد اس سیلزمین کا غصہ بھی اتر چکا تھا۔ اب وہ مذاق میں کہنے لگا کہ سرکاری آٹا بھی مقررہ نرخوں پر دستیاب ہے لیکن اس کی بھی کوئی گارنٹی نہیں۔ سرکاری آٹا اگر خراب نکلا تو واپس یا تبدیل نہیں ہوگا۔ کہنے لگا: سرکاری آٹے میں بھی پتا نہیں خراب گندم اور خشک روٹی کے ٹکڑوں سمیت کیا کیا پیسا گیا ہوتا ہے لیکن جو بھی یہ لے کر جاتا ہے‘ وہ شکایت ضرور کرتا ہے۔
اس کی باتیں سن کر میں مخمصے کا شکار ہو گیا کہ اب 90 روپے والی ''سرکاری چینی‘‘ خریدوں یا 150 روپے والی موٹی چینی لے کر جائوں کیونکہ سرکاری چینی خریدنے پر پی ٹی آئی سپورٹر اور سیلزمین کی باتیں سننے کے بعد 'گھریلو سرکار‘ کا غصہ برداشت کرنے کی ہمت نہیں رہی تھی جبکہ گھر سے جو بجٹ بنا کر لایا تھا‘ وہ پہلے ہی گھی اور دالوں کے سبب خسارے میں جا چکا تھا، اب ادھار کا بھی کوئی آپشن نہیں تھا لہٰذا پانچ کلوگرام سرکاری چینی کے بجائے تین کلو موٹی چینی خریدکر باہر نکلا۔ جب دوبارہ اس پُرکشش بینر کو دیکھا تو ارادہ کیا کہ اس بینر پر ایک پتھر ضرور ماروں لیکن سامنے سکیورٹی گارڈز دیکھ کر یہ ارادہ بھی بدل گیا اور گھر واپسی کا راستہ اختیار کیا۔
دفتر پہنچ کر شاہ جی کو سارا واقعہ سنایا تو وہ کہنے لگے: اسلام آباد کی اوپن مارکیٹ میں حکمرانوں کی ناک کے نیچے چینی 150 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے تو باقی ملک کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ اب تو عوام کی قوتِ خرید بھی ختم ہو چکی ہے۔ شاہ جی بھی شاید اسی ہفتے تنخواہ ملنے کے بعد گھر کا ماہانہ راشن خرید کر آئے تھے۔ حسب عادت تقریر کے انداز میں فرمانے لگے: ہمیں یہ نہ بتایا جائے کہ ہمسایہ ملکوں میں کیا مہنگا اورکیا سستا ہے، خدارا! حکومت ہماری حالت پر ترس کھائے۔ ہمیں یہ نہ بتائے کہ بھارت میں مہنگائی ہم سے زیادہ ہے‘ افغانستان میں مہنگائی پاکستان سے زیادہ ہے کیونکہ ہم نے ووٹ ان لوگوں کو دیا ہے جو یہ بھی نہیں دیکھ سکتے کہ دوسرے ممالک میں مزدور کی مزدوری ہم سے کتنی زیادہ ہے، وزیروں کو کیا پتا کہ کیا قیمتیں ہیں؟ ان کے لیے چینی 1000 روپے کی بھی ہو جائے تو انہیں کسی چیز کی پروا نہیں جبکہ ایک عام آدمی کے لیے تو اب دو وقت کی روٹی بھی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔ اشیا ضروریہ کی قیمتیں صبح کچھ اور شام کو کچھ ہوتی ہیں، جب چینی 150 اور گھی 350 روپے فی کلو ملے گا تو پھر غریب آدمی کیا کھائے گا اور کیسے گزارہ کرے گا؟
وزیراعلیٰ پنجاب کا ایک بیان سننے کو ملا‘ وہ ہدایات دے رہے تھے کہ 'چینی کی قیمت میں بلاجواز اضافہ روکنے کے لئے ہر آپشن استعمال کیا جائے‘۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ حکومت مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کو روکنے کیلئے تو کنٹینر، خندقیں، لاٹھی چارج، آنسوگیس اور واٹر کینن سمیت مختلف آپشنز استعمال کر لیتی ہے لیکن بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکنے کیلئے کون سا آپشن استعمال کرے گی؟ اسی اثنا میں نظر شہبازگل صاحب کے ایک بیان پر پڑی کہ 'حکومت چار پانچ افراد والے گھرانے کو ایک ہزار روپے ماہانہ دے گی‘ جس سے غریبوں کو بڑا سہارا ملے گا‘۔ اب کوئی انہیں بتائے کہ ہزار روپے میں تو صرف دس کلو آٹا یا محض چھ کلو چینی ہی آئے گی، باقی دالیں، گھی، نمک، مسالا جات کہاں سے آئیں گے؟ اس سے تو ایک پنکھے اور ایک بلب کا ماہانہ بجلی کا بل بھی پورا نہیں ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت اس ''ایک ہزار روپے‘‘ کے ساتھ ایک بجٹ بھی بنا کر غریبوں کو دیدے تاکہ وہ اس کے مطابق مہینہ گزار سکیں۔