انتخابی اصلاحات اورسیاستدانوں کے تحفظات

حکومت آج کل انتخابی اصلاحات خصوصاً الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) اور سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے ترامیمی بل اسمبلی سے پاس کرانا چاہتی ہے۔ اس عمل میں پہلے تو حکمران جماعت کو اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کا سامنا تھا لیکن اب اتحادی پارٹیوں اور پاکستان تحریک انصاف کے اپنے کئی ممبران کی جانب سے بھی مجوزہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار سامنے آیا ہے۔ شاید پی ٹی آئی قیادت کو حالات کا ادراک تھا‘ اسی لیے حکومت عجلت میں انتخابی اصلاحات سمیت مختلف ترمیمی بل پاس کرانا چاہتی تھی۔ اس مقصد کیلئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی طلب کیا گیا مگر اجلاس سے دو روز قبل جب حکومت کو قومی اسمبلی میں دو بار عددی شکست کا سامنا کرنا پڑا اور اسی روز قائدِ حزبِ اختلاف میاں شہباز شریف کے عشائیے میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے 180 ارکانِ پارلیمنٹ نے شرکت کی تو اس سے حکومت گھبراہٹ کا شکار ہو گئی جبکہ اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں غیر حاضر ارکان نے بھی ایوانِ اقتدار کی دیوار کو ہلا دیا۔ اتحادی جماعتوں اور خود حکومتی ارکان کی جانب سے ای وی ایم سمیت انتخابی اصلاحات پر تحفظات کے اظہار نے حزبِ اقتدار کو مخمصے کا شکار کر دیا جس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی کر دیا۔ اس سے قبل وزیراعظم کے زیر صدارت ایک اجلاس میں اتحادی جماعتوں کے رہنمائوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے قانون سازی میں حکومت کا ساتھ نہ دینے کا اعلان بھی کیا تھا۔ اجلاس ملتوی کیے جانے کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دوبارہ جلد طلب کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے متعلق امور پر تفصیلی گفتگو ہوئی‘ وزیراعظم کی ہدایت پر انتخابی اصلاحات اور اہم بلوں پر اپوزیشن جماعتوں سے جلد رابطہ کروں گا‘ حکومت قانون سازی میں تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتی ہے‘ امید ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ملک کی بہتری کے لیے اصلاحات میں حکومت کا ساتھ دیں گی۔ گزشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے انتخابی اصلاحات کا وعدہ بھی کیا تھا؛ تاہم تین برسوں کے دوران نظام میں بہتری کی کوئی خاص تجاویز ابھی تک سامنے نہیں آ سکیں؛ البتہ حکومت نے اپنا سارا زور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال پر لگا رکھا ہے۔ حکومت آئندہ عام انتخابات بہر صورت ای وی ایم کے ذریعے کرانا چاہتی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس کی بھرپور مخالفت کر رہی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک ای وی ایم کو مسترد کر چکے ہیں اور اس سے ووٹ کی شفافیت کو یقینی بنانا مشکل ہے۔ فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین بل میں قانونی نقائص کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کو انتخابات کے انعقاد کیلئے افہام و تفہیم سے کام لینے کی ضرورت ہے‘ 2017ء میں مشاورت کے بعد انتخابی اصلاحات اتفاقِ رائے سے ہوئیں‘ یہ روایت آئندہ انتخابات کیلئے بھی قائم رہنی چاہئے۔ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو سیاسی فیصلہ سازی کا ذمہ دار الیکشن کمیشن کو نہیں ٹھہرانا چاہئے‘ الیکشن ایکٹ میں ترمیم اتفاقِ رائے کے بغیر کرنے سے انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھیں گے۔
الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی پارلیمانی کمیٹی میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر37 اعتراضات اٹھائے تھے اور ان اعتراضات پر مبنی تفصیلی رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھی جمع کرائی گئی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے آزادانہ، شفاف اور قابلِ اعتماد انتخابات کی آئینی شرط پوری نہیں کی جا سکتی۔ ای وی ایمز دھاندلی نہیں روک سکتیں کیونکہ انہیں ہیک کیا جا سکتا ہے، مشین کو بہ آسانی ٹیمپر کیا جا سکتا ہے‘ اس کا سافٹ ویئر بھی بدلا جا سکتا ہے۔ اس سے ووٹ کی خرید و فروخت کو نہیں روکا جا سکتا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں ووٹ کی کوئی سیکریسی ہے اور نہ ہی ووٹ ڈالنے والے کی۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں شفافیت کا نہ ہونا، آئندہ عام انتخابات سے پہلے ٹیسٹنگ کا وقت نہ ہونا، سٹیک ہولڈرز کا متفق نہ ہونا، عوام کا اس پر اعتماد نہ ہونا اور ملک بھر میں اس کے استعمال کے حوالے سے فنڈنگ نہ ہونا جیسے مسائل بھی اٹھائے گئے۔
حکومت کی طرف سے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی کیے جانے کی جو وجوہات سامنے آئی ہیں ان میں سب سے اہم ای وی ایم پر اتحادیوں کے تحفظات ہیں۔ اتحادی جماعتوں نے بریفنگ نہ دیے جانے اور طریقہ کار سے عدم واقفیت کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ آنکھیں بند کرکے کسی بھی بل کی حمایت نہیں کر سکتے۔ اتحادیوں نے حکومت پر واضح کیا کہ اس معاملے پر ہم سے بھی مشاورت کی جانی چاہیے تھی۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت نے ای وی ایم بل واپس لینے پر غور کرنا شروع کر دیا ہے۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں سمجھتی ہیں کہ حکومت مہنگائی، بیروزگاری اور دیگر بحرانوں کی زد میں آنے کے بعد آئندہ عام انتخابات میں شکست کے خوف سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین سمیت اپنی مرضی کی ایسی انتخابی اصلاحات لانا چاہتی ہے جن کے سہارے وہ آئندہ الیکشن جیت سکے۔ اپوزیشن کے پاس ای وی ایم کی کئی ایسی مثالیں بھی ہیں جن سے دھاندلی کے خدشات کو تقویت ملتی ہے۔ ماضی میں ہمسایہ ملک بھارت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال ہوتی رہی ہیں‘ جن سے متعلق اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان کے حامی جس بھی پارٹی کو ووٹ ڈالتے تھے‘ مشین سے بی جے پی کا ووٹ ہی نکلتا تھا جس کے باعث یہ مشین قابل اعتماد نہیں ہے۔ کچھ حکومتی اتحادیوں کے بھی ایسے ہی تحفظات ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فی الوقت پی ٹی آئی کو اپنی حکومت برقرار رکھنے کیلئے ان کی ضرورت ہے لیکن پانچ سالہ مدت پوری ہونے کے بعد جب نئے انتخابات ہوں گے تو تحریک انصاف زیادہ سے زیادہ پارٹی امیدواروں کوکامیاب کرانے کی کوشش کرے گی تاکہ آئندہ کسی سہارے کے بغیر حکومت بنا سکے، ممکن ہے کہ ای وی ایم بل‘ جو آج پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں کے تعاون سے پاس کرانا چاہتی ہے‘ کل ان سے جان چھڑانے کیلئے استعمال کیا جائے۔ حکمران جماعت کے اندر بھی ان اصلاحات پر یکساں موقف نہیں ہے۔ اس حوالے سے بعض وزرا اور ارکانِ پارلیمنٹ نے اپنی قیادت کے سامنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔ چند ماہ قبل حکومتی جماعت میں دھڑے بندی سامنے آنے کے بعد پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ انہیں آئندہ عام انتخابات میں ''بلے‘‘ کے بجائے کسی دوسرے نشان پر انتخابی میدان میں اترنا پڑ سکتا ہے‘ لہٰذا ان کے ساتھ اپوزیشن والا سلوک ہی ہو گا‘ اس لئے وہ ایسا کوئی بل پاس کرانا اپنی شکست کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اس وقت حکومت کو متعدد اتحادی جماعتوں کی جانب سے تحفظات کا سامنا ہے۔ ایم کیو ایم اور مسلم لیگ (ق) کے بعد فنکشنل لیگ بھی حکومتی اتحاد سے باغی ہونے لگی ہے اور وفاقی حکومت سے لاتعلقی اختیار کرنے کی باتیں شروع ہو چکی ہیں۔ مذکورہ جماعت کے ایک اہم رہنما کا کہنا ہے کہ اب وہ وفاقی حکومت کے خلاف کھل کر بات کر سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے حکومت کو چارٹر آف ڈیمانڈ دیا تھا مگر حکومت کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی تو وہ کیا کر سکتے ہیں۔
ملک و قوم کے مفاد میں یہی بہتر ہے کہ جب بھی انتخابی اصلاحات لائی جائیں تو ان پر تمام سیاسی جماعتوں کے موقف کو اہمیت دی جائے اور مشترکہ طور پر ایسی قانون سازی کی جائے جو صاف و شفاف الیکشن کی ضمانت بن سکے۔ حکمران جماعت کو دیگر پارٹیوں کے تحفظات دور کرکے ہی کوئی قدم اٹھانا ہو گا تاکہ آئندہ الیکشن میں شکست کھانے والے دھاندلی کا واویلا نہ کر سکیں اور سب سے بڑھ کر‘ عوام اپنے ووٹ کے تقدس پر مطمئن ہو سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں