فضائی آلودگی یوں تو ہر جاندار کے لیے خطرناک ہے لیکن بچے چونکہ نازک ہوتے ہیں لہٰذا قوم کے نہالوں کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری بن جاتی ہے۔ آج کل پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور سمیت اکثر علاقوں میں فضائی آلودگی اور سموگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی سے نزلہ، زکام، کھانسی اور دیگر امراض میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ صوبہ پنجاب کو فضائی آلودگی کی سنگین صورتِ حال کا سامنا ہے۔ آلودگی میں اضافے کے پیشِ نظر ضلع لاہور میں انتظامیہ نے بچوں کو سموگ کے اثرات سے بچانے کے لیے سکولوں میں ہفتہ، اتوار اور پیر کو‘ تین دن‘ سکول بند رکھنے کا اعلان کیا۔ گزشتہ ہفتے بھی تین روز کے لیے تعلیمی ادارے بند رہے۔ چونکہ پہلے ہی کورونا وائرس کے باعث ہمارے بچوں کا بہت وقت ضائع ہو چکا ہے اور طویل عرصہ تک تعلیمی ادارے بند رہے۔ عالمی وبا کے سبب امتحانی نظام بھی متاثر ہوا اور بچوں کی تعلیم وتربیت میں بھی فرق پڑا اس لیے حکومت کو تعلیمی ادارے بند کرنے کے بجائے آلودگی کوکنٹرول کرنا ہو گا۔
پنجاب میں فضائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں لاہور آج سرفہرست ہے جبکہ کراچی کا ساتواں نمبر ہے۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور کی فضا انتہائی آلودہ ہے، جہاں پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد 318 تک جا پہنچی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی فضا بھی آلودہ ہے، شہرِ قائد کی فضا میں پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد 164 ریکارڈ کی گئی۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق فہرست میں منگولیا کا شہر یولان باتار دوسرے نمبر پر ہے جہاں پرٹیکیولیٹ میٹرز کی تعداد 255 ریکارڈ ہوئی۔ اس فہرست میں بھارتی دارالحکومت دہلی 247 پرٹیکیولیٹ میٹرز کے ساتھ اب تیسرے نمبر پر ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں بنگلہ دیش پہلے نمبر پر‘ پاکستان دوسرے نمبر پر‘ بھارت تیسرے نمبر پر‘ منگولیا چوتھے نمبر پر، افغانستان پانچویں نمبر پر موجود ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عمان چھٹے اور قطر ساتویں نمبر پر ہے۔ دیکھا جائے تو یہ تمام ممالک ایک ہی خطے میں واقع اور ایک دوسرے سے ملحق ہیں۔ گزشتہ سال کا سب سے آلودہ شہر‘ چین کے ہوتن (Hotan) کو قرار دیا گیا تھا۔
اگر ایئر کوالٹی انڈیکس کے حوالے سے پاکستان کی جاری کی گئی فہرست دیکھی جائے تو گزشتہ روز بہاولپور ملک کا آلودہ ترین شہر رہا جہاں فضائی آلودگی 415 پرٹیکیولیٹ میٹرز ریکارڈ کی گئی۔ اس فہرست میں فیصل آباد 373 پرٹیکیولیٹ میٹرز کے ساتھ دوسرے اور لاہور تیسرے نمبر پر تھا۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی کے مطابق‘ 151 سے 200 درجے تک آلودگی مضرِ صحت اور سانس کے مریضوں کے لیے نہایت خطرناک ہے جبکہ201 سے 300 درجے تک کی آلودگی عام انسان کے لیے بھی انتہائی مضرِ صحت ہے۔ پولیس کو سموگ پر قابو پانے کے لیے ضلعی انتظامیہ اور اداروں کے ساتھ مل کر کارروائیاں کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ صوبے میں آلودگی پھیلانے پر گزشتہ ہفتے 135 مقدمات درج ہوئے اور 116 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ سموگ کا پھیلائو روکنے کیلئے لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے کریک ڈائون کرتے ہوئے ایک ہفتے کے دوران دھواں چھوڑنے والی 60 گاڑیاں بند اور ساڑھے تین لاکھ روپے سے زائد کے جرمانے کیے۔ لاہور میں سموگ میں ٹرانسپورٹ کے منفی کردار کو اجاگر کرنے کے لیے سائیکل ریلی کا انعقاد بھی کیا گیا جس میں کمشنر لاہور نے بھی شرکت کی۔
وزیراعظم کے ایک معاونِ خصوصی کہتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے‘ فضائی آلودگی کی مانیٹرنگ کے لیے ایئر کوالٹی مانیٹرنگ سٹیشن لگائے جا رہے ہیں‘ اس معاملے حکومت اکیلی کچھ نہیں کر سکتی‘ پرائیویٹ سیکٹر کی بھی اس میں شمولیت ضروری ہے۔ اگر لاہور کو مکمل بند بھی کر دیا جائے تب بھی آلودگی پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ حالیہ دنوں میں ہوا کا کم ہونا ایک بڑا ماحولیاتی اور صحت کا مسئلہ بن گیا ہے، فضائی آلودگی کی وجہ سے عوام کو سانس لینے میں دشواری کے مسئلے سے لے کر متعدد طبی پیچیدگیوں سے نبرد آزما ہونا پڑ رہا ہے۔ فضائی آلودگی نہ صرف پھیپھڑوں کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ یہ بخار، گلا خراب اور امراضِ چشم کے علاوہ دیگر امراض کا بھی سبب بنتی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا کی 90 فیصد سے زائد آبادی آلودہ ہوا میں سانس لے رہی ہے جس میں نقصان دہ گیسز اور ذرات شامل ہیں جو ہمارے پھیپھڑوں کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ جب ہم فضائی آلودگی میں سانس لیتے ہیں تو اس سے ہمیں سانس لینے میں دقت، کھانسی، سینے میں گرگراہٹ، دمہ اور سینے میں درد جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے ہمارے دل، دماغ، جلد اور دیگر اہم اعضا بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایک جدید تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فضائی آلودگی بچوں کی علمی صلاحیتوں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے، بڑوں کے علمی زوال کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ڈپریشن کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی آلودگی آکسیڈیٹیو تنائو کو جنم دیتی ہے جس کے نتیجے میں بچوں میں مہاسوں، جھریوں اور ایگزیما کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ فضائی آلودگی سے آنکھیں خشک ہو جاتی ہیں اور جلن کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ جو لوگ کنٹیکٹ لینز پہنتے ہیں وہ اس طرح کی پیچیدگیوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔
آلودگی بڑوں کے مقابلے میں بچوں کے لیے زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ ان کے جسم کے اہم اعضا جیسے دماغ اور پھیپھڑوں وغیرہ کی نشوونما جاری ہوتی ہے لہٰذا بالغوں کے مقابلے بچوں میں سانس کے مسائل بہت آسانی سے پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے لہٰذا ایسے اوقات میں‘ جب اردگرد کی ہوا آلودہ ہو‘ بچوں کا زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچوں کی خوراک میں زیادہ وٹامن سی شامل کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ بچے سبزیاں کھائیں‘ جیسے ساگ، گوبھی وغیرہ۔ انہیں آملہ، موسمبی یا امرود وغیرہ دیں، یہ اینٹی آکسیڈنٹ ہوتے ہیں جو جسم کو فضائی آلودگی کے مضر اثرات سے بچاتے ہیں۔ جب بھی آپ کے بچے گھر سے باہر نکلیں تو انہیں ماسک پہننے کا ضرور کہیں اور ان کو اس کی اہمیت بھی سمجھائیں۔ گھر کے اندر فضائی آلودگی کو کم کرنے اور ہوا کو سانس لینے کے قابل بنانے کے لیے اپنے گھر میں ایلوویرا، سپائیڈر پلانٹ، بانس، کھجور اور دیگر مختلف پودے لگائیں۔ بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت گھر کے اندر گزارنے پر مجبور کیا جائے‘ اس کے لیے انہیں ان کی پسند کے تخلیقی آرٹ ورک میں مصروف کیا جا سکتا ہے۔ بچوں کو مفید ورزشیں اور صحت مند طرزِ زندگی کو اپنانے کی اہمیت سکھائیں۔ اس کے لیے بچوں کو باہر لے جانے کی ضرورت نہیں ہے، ان کے ساتھ صبح سویرے اٹھیں اور گھر میں کچھ معمول کی ورزشیں کریں۔ اس سے ان کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا ہے کہ تعلیمی اداروں میں تین دن کی چھٹیاں ہونے سے سموگ کم ہو گی‘ چھٹیوں کی وجہ سے سموگ کے لیول میں فرق پڑتا ہے‘ ہم تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا چاہتے ہیں‘ اب امتحانات مقررہ وقت پر اور مکمل نصاب کے ساتھ ہوں گے۔ اگر یہ کہا جاتا کہ بچوں کو آلودگی سے بچانے کیلئے ہفتے میں صرف چار یوم سکول کھول رہے ہیں تو بھی بات تھی لیکن یہ کہناکہ تین روز تعلیمی ادارے بند رکھنے سے سموگ کم ہوتی ہے‘ لطیفہ ہی قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ جو آلودگی فضا میں شامل ہو چکی ہے‘ جب تک بارش نہیں ہو گی‘ وہ وہیں موجود رہے گی اور لوگوں کی صحت کو نقصان پہنچاتی رہے گی۔ حکومت کو چاہئے کہ سکول بند کرنے کے بجائے اینٹوں کے بھٹے اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر سختی کرے جبکہ صنعتی شعبے میں آلودگی سے بچائو کے لیے قوانین پر بھی سختی سے عمل درآمد کرایا جانا چاہئے تاکہ بچوں کی صحت کے ساتھ ساتھ ان کا تعلیمی مستقبل بھی محفوظ بنایا جا سکے۔