گزشتہ دنوں ایک وفاقی وزیر کی جانب سے ایک قومی ادارے میں بیان جمع کرایا گیا کہ وہ ایک وکیل بھی اور ایک وزیر بھی‘ لہٰذا ان کے بیانات کو اسی تناظر میں دیکھا جائے۔ ان کی بات کو آسان الفاظ میں دیکھا جائے تو مفہوم شاید اس طرح سے ہے کہ چونکہ وہ ایک وکیل ہیں لہٰذا وہ جو بھی بات کرتے ہیں‘ ضروری نہیں کہ وہ ان کی ذاتی رائے ہو یا ان کے دل سے نکلی ہو‘ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ موقف ان کے کلائنٹ کا ہو جس سے وہ ذاتی طور پر بھلے سو فیصد متفق نہ ہوں لیکن پیشہ ورانہ معاملات کو آگے بڑھانے یا مخالف فریق کا موقف دبانے کے لیے انہوں نے ایسا موقف اختیار کیا ہو۔اس بیان کے بعد میرے جیسا عام آدمی تو یہی نتیجہ اخذ کر رہا ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد اپنے اقتدار کو دوام بخشنا‘ شاید حکمرانوں کے لیے عوام کومطمئن رکھنے سے بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
اگر ملکی حالات اچھے ہوں، تعلیم یافتہ و ہنرمند نوجوانوں کے لیے ملازمت کا حصول آسان ہو، مہنگائی میں کمی آ رہی ہو یا کم از کم چیزوں کی قیمتیں مستحکم ہوں‘ ہر بندہ اپنی آمدن کے اندر رہتے ہوئے خوشحال زندگی بسر کر رہا ہو، امن و امان کی صورت حال ایسی ہو کہ عام شہری جب چاہے اپنے منتخب نمائندوں تک رسائی رکھتا ہو، تعلیم اور صحت کی سہولتیں بہترین اور عام آدمی کی دسترس میں ہوں، ہر طرف میرٹ و انصاف کا بول بالا ہو تو یقینا ہر شہری مطمئن ہو گا، ہر چہرے پر مسکراہٹ ہو گی تو ہمارے سیاستدانوں کو سیاہ کو سفید کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی لیکن اگر سو دنوں میں دودھ کی نہریں نکالنے جیسے دعووں کے بعد معیشت کا پہیہ پھِر جائے‘ یعنی الٹا چلنا شروع کر دے، لوگوں کی آمدن تو نہ بڑھ سکے لیکن اشیائے ضروریہ کے نرخ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنا شروع ہو جائیں‘ ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کرنے والی حکومت کو لاکھوں ڈیلی ویجز و دیگر ملازمین کی بیروزگاری کے طعنے مل رہے ہوں، پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کے اعلانات ہمارے لیڈروں کو بھول چکے ہوں لیکن آئے روز غریبوں کی بستیاں اجڑ رہی ہوں اور آشیانے مسمار کیے جا رہے ہوں، انتظامی معاملات اس قدر پیچیدہ ہو جائیں کہ سیالکوٹ جیسے واقعات و سانحات رونما ہونے لگ جائیں تو پھر سیاستدانوں کو عوام کے اطمینان اور تسلی کے لیے جعلی اعداد و شمار ہی کاسہارا لینا ہی پڑتا ہے؛ البتہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ اس طرح کچھ وقت گزاری تو کی جا سکتی ہے مگر معاملات کو زیادہ عرصہ تک چلانا ممکن نہیں رہتا۔
قومی پرائس مانیٹرنگ کمیٹی کو دی گئی بریفنگ کی ایک رپورٹ نظر سے گزری جس میں بتایا گیا ہے کہ ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی میں 0.48 فیصد کمی ہوئی ہے،11 اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی، 19 میں استحکام رہا اور 21 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ٹماٹر، پیاز، آلو، چکن اور چینی سمیت مختلف اشیا کی قیمتوں میں کمی کا رجحان دیکھا گیا۔ میں اس رپورٹ پر نہ تو حیران ہوا اور نہ ہی پریشان‘ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ مارکیٹ میں چکن اور چینی سمیت تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اب بھی آسمان سے باتیں کر رہی اور اہل زمین کی دسترس سے باہر ہیں۔ اس رپورٹ سے غریب شہریوں کو تو ہرگز نہیں بہلایا جا سکتا؛ البتہ وزارتِ خزانہ کے حکام سمیت اربابِ اختیار کو ضرور مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ میرے ذہن میں تو چند روز قبل صوبائی دارالحکومت لاہور سے ملنے والی وہ خبر بھی کلبلا رہی ہے کہ روٹی اور نان کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ نان بائی ایسوسی ایشن نے 10 والی روٹی 12 روپے اور 15 روپے والا نان 18 روپے کا کر دیا ہے۔ اس حوالے سے ان کا موقف ہے کہ آٹا، گیس اور بجلی کے ریٹ بڑھ گئے ہیں، آٹے کا تھیلا 850 روپے سے بڑھ کر 1100 روپے کا ہو گیا ہے جبکہ گیس اور بجلی کے ریٹ بھی آئے روز بڑھ رہے ہیں، ان حالات میں موجودہ قیمت پر نان اور روٹی نہیں بیچ سکتے۔ بادی النظر میں ان کا موقف اپنی جگہ پر ٹھیک محسوس ہوتا ہے۔ اب غریب آدمی کے حالات اچھے ہیں یا برے‘ کوئی روٹی خرید سکتا ہے یا نہیں‘ یہ ان کے نہیں‘ حکومت کے سوچنے کا کام ہے۔ آٹا، بجلی اور گیس سمیت جب ہر چیز آئے روز مہنگی ہو گی تو چیزوں کے نرخ کس طور برقرار رہ سکتے ہیں؟ اور یہی کچھ ہمیں مارکیٹ میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔
گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا: پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا نصب العین ہے، خیبر پختونخوا میں دوسری بار کامیابی پر لوگ بہت حیران تھے، غربت کم ہونے پر صوبے میں دوتہائی اکثریت ملی۔ خیبر پختونخوا میں ہر خاندان کو ہیلتھ انشورنس دیں گے، پنجاب میں بھی یکم جنوری سے ہیلتھ انشورنس کارڈ تقسیم ہونا شروع ہو رہے ہیں، پاکستان اب بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے، دنیا کے امیر ترین ممالک میں بھی ہیلتھ کوریج نہیں میسر، صحت کارڈ غریب اور سفید پوش‘ دونوں طبقات کیلئے ہے۔ اب اگر وزیراعظم صاحب کے بیان کو بھی اُسی پیمانے پر پرکھا جائے جو وفاقی وزیر صاحب نے بیان کیا ہے تو پھر یقینا ان باتوں پر سر دھننا بنتا ہے، حکومت کی تعریف بھی کرنا پڑے گی اور یہ بھی کہا جائے گا کہ اگلے پانچ سال بھی پی ٹی آئی ہی حکومت کرے گی کیونکہ ملک میں حالات جیسے بھی ہوں‘ اور عام لوگوں پر جو کچھ بھی بیت رہا ہو‘ ان سب سے قطع نظر‘ انہوں نے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے حالات کا خوش کن پہلو ہی سامنے رکھا ہے۔ تھوڑی تفصیل میں جائیں تو خان صاحب نے جو کہا‘ وہ کافی حد تک درست ہے‘ پاکستان کو فلاحی ریاست بنانا ہی ہم سب کا نصب العین ہے، یقینا موجودہ حکومت بھی یہی چاہتی ہو گی‘ لیکن اگر حالات کا پہیہ الٹا چل رہا ہے اور معیشت کاگراف تیزی سے نیچے کی طرف جا رہا ہے تو اپنے بیانات اور تقاریر میں یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ہماری پالیسیوں سے معیشت کو نقصان پہنچا کیونکہ عوام کو مایوس بھی تو نہیں کرنا۔
دوسری بات جنابِ وزیراعظم نے یہ کہی کہ خیبر پختونخوا میں ہم نے غربت کم کی‘ اسی لیے لوگوں نے نہ صرف ہمیں کامیاب کیا بلکہ دو تہائی اکثریت دے کر اتحادیوں کے چنگل سے بھی بچا لیا۔ ویسے اس وقت پی ٹی آئی حکومت سے متعلق زمینی حقائق دیکھے جائیں تو وہ ایک صوبے میں تو مخلوط حکومت سے بچ گئی لیکن پنجاب، بلوچستان اور مرکز میں حکومت اتحادیوں کے درمیان پھنسی ہوئی ہے۔ باقی جہاں تک غربت میں کمی کی بات ہے تو وہ بھی وفاقی وزیر صاحب کے فارمولے کے تناظر میں دیکھی جائے۔ حکومت یہ تو کہہ رہی ہے کہ پاکستان اب بھی دنیا کا سستا ترین ملک ہے مگر دیگر ملکوں کے ساتھ موازنے میں قوتِ خرید کو مدنظر نہیں رکھا جا رہا۔ اس وقت لگ بھگ 40 فیصد آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے‘ قوتِ خرید کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ بجلی اور گیس کے نرخ اتنے بڑھ چکے ہیں کہ آمدنی کا بیشتر حصہ یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا ہے، اس کے بعد پیچھے جو بچتا ہے اس پر یہی محاورا صادق آتا ہے کہ گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اربابِ اختیار کسی اور دنیا میں رہتے ہیں‘ ویسے یہ بات کسی قدر درست بھی ہے کہ نہ تو انہیں اپنی محدود تر تنخواہ میں ہر ماہ اپنے گھر کا بجٹ بنانا ہوتا ہے‘ نہ بجلی‘ گیس کے بل جمع کرانا ہوتے ہیں‘ نہ آٹے‘ دال‘ گھی اور چینی کے نرخ ان کے کانوں میں پڑتے ہیں‘ ایسے میں انہیں یہ ملک جنت نہ محسوس ہو تو کیا ہو؟ ویسے کسی کو اس بات سے اختلاف ہو تو وہ اپنی کرنسی کا‘ پچھلے تین برسوں میں‘ دیگر غیرملکی کرنسیوں کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھ لے‘ اسے خود ہی اندازہ ہو جائے گا کہ واقعی پاکستان دنیا میں سستا ترین ملک ہے بلکہ اب بھی روزانہ کی بنیاد پر سستا ہوتا چلا جا رہا ہے اور ہر روز سستا ہونے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔