آج سے تقریباً ڈیڑھ برس قبل جب شیخ رشید احمد نے اپنی نئی کتاب ''لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘‘ لکھنے کااعلان کیا تو عام آدمی یہ سوچتا تھا کہ اس کتاب کو کون پڑھے گا کیونکہ اب تو جدید سائنسی دور میں لوگوں کی کتاب، ان کا ریڈیو، ٹی وی وغیرہ سب کچھ تو موبائل فون یا لیپ ٹاپ میں سمٹ چکا ہے‘ لوگ کتب کا بھی نیٹ ایڈیشن ہی پڑھتے ہیں لیکن جونہی یہ کتاب ''دنیا پبلشرز‘‘ نے شائع کی تو اس کی طلب توقع سے کہیں زیادہ دیکھنے میں آئی اور اتنی شہرت ملی کہ پہلی اشاعت کی کاپیاں تقریب رونمائی سے قبل ہی ختم ہو گئیں۔ طلب میں اضافے کے باعث اس کتاب کے اب تک تین ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جس سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ کتب بینی کا شوق ابھی زندہ ہے اور لوگ مطالعے کا ذوق بھی رکھتے ہیں۔ اب اس کتاب کا انگریزی ایڈیشن ''From Lal Haveli to the United Nations‘‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔ انگریزی ایڈیشن کی ترتیب و تدوین اور اشاعت بھی ''دنیا پبلشرز‘‘ کی کاوش ہے اور آج (بدھ کو) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں اس کی تقریب رونمائی ہے۔
اس کتاب کی مقبولیت کی وجہ وہ سیاسی انکشافات ہیں جو شیخ رشید نے اس کتاب میں کیے ہیں۔ اس ایڈیشن میں شیخ رشید احمد کے خاندان، بچپن، زمانۂ طالب علمی، طلبہ یونین سے قومی سیاست تک کے پچاس سال کے نشیب و فراز اور جہدِ مسلسل پر مبنی 12 باب شامل ہیں۔ کتاب تحریری مواد کے 303 جبکہ مختلف عالمی رہنمائوں کے ساتھ نادر تصاویر کے 26 صفحات پر مشتمل ہے۔ اپنی اس سوانح میں شیخ رشید صاحب نے بتایا کہ انسان کا عزم پختہ ہو اور وہ مسلسل جدوجہد جاری رکھے تو غربت سمیت کوئی دیوار اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ شیخ صاحب نے کتاب میں بتایا ہے کہ کس طرح زمانۂ طالب علمی میں غربت کے باوجود انہوں نے طلبہ یونین سے سیاسی سفرکا آغاز کیا، پھر محلے کی بلدیاتی سیاست میں حصہ لیا، چوہدری ظہور الٰہی سے تعلق بنایا، ایوب خان کے خلاف تحریک اور محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم چلائی۔ ''بنگلہ دیش نامنظور تحریک‘‘ میں سرگرم رہے اور ذوالفقارعلی بھٹو کے جلسے کو الٹ دیا۔ جنرل ضیا الحق، محمد خان جونیجو، میاں محمد نواز شریف، پرویز مشرف، میر ظفر اللہ جمالی، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیز کی حکومتوں میں بھی اپنی اہمیت منوائی اور اب وزیراعظم عمران خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر داخلہ کی حیثیت سے موجود ہیں۔
اس کتاب کو پڑھ کرانسان کا عزم پختہ ہوتا ہے کہ اگر محنت جاری رکھی جائے تو ایک عام گھرانے کا بچہ بھی 15 اہم وزارتوں کی سربراہی کر کے ریکارڈ قائم کر سکتا ہے۔ شیخ رشید احمد اپنی داستانِ حیات میں بتاتے ہیں کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو نااہل کرانے میں مرکزی کردار انہی کا تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ پانامہ کیس میں ساری کی ساری محنت ان کی تھی کیونکہ ان کا جو کیس تھا وہ آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت تھا، انہوں نے عدالت سے نواز شریف کی نااہلی کی درخواست کی تھی جبکہ (موجودہ وزیراعظم) عمران خان کا کیس آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نہیں تھا۔ البتہ خان صاحب بھی سپریم کورٹ کی ہر پیشی میں شیخ صاحب کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوتے تھے۔ وہ کافی متاثر ہوئے تھے۔ شیخ صاحب لکھتے ہیں: میں نے خود ان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نعیم بخاری شیخ رشید کی طرح مختلف کیسوں کے حوالے کیوں نہیں دیتے، نعیم بخاری کو بھی ایسے حوالے دینے چاہئیں۔ جب یہ فیصلہ آیا تو سپریم کورٹ میں ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جب سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تو ایک دم بعض لوگوں کے چہرے کھل اٹھے اور بعض لوگوں کے مرجھا گئے۔ جب میں عدالت سے باہر گیا تو میں نے کہا کہ دیکھیں تابوت بھی نکلا ہے اور ثبوت بھی نکلا ہے۔ جب میں راولپنڈی کی طرف روانہ ہوا تو تین چار گاڑیاں میرے ساتھ تھیں۔ جس چوک میں جاتے تھے سو‘ دو سو آدمی کھڑے ہوتے اور استقبال کرتے تھے لیکن عید گاہ روڈ پر لوگوں کی زیادہ تعداد تھی۔ جب میں لال حویلی پہنچا تو مبارک باد دینے والوں کا ایک تانتا بندھا ہوا تھا۔ نواز شریف کے نااہل قرار دیے جانے کے بعد میرا یہ جملہ کہ تابوت بھی نکلے گا اور ثبوت بھی نکلے گا‘ زبان زد عام تھا۔
اسی طرح ایک جگہ شیخ صاحب لکھتے ہیں کہ میں لال حویلی میں بیٹھا تھا کہ نعیم الحق (مرحوم) کا مجھے فون آیا اور بتایا کہ پارٹی (پی ٹی آئی) کی کمان نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ تحریک انصاف کے وزیراعظم کے امیدوار ہوں گے۔ میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ سوچ لیں‘ پارٹی میں عمران خان بہت خیال رکھتے ہیں‘ ہر بات میں احترام دیتے ہیں لیکن پارٹی اس بات کو پسند نہیں کرے گی کہ پارٹی سے باہر‘ عوامی مسلم لیگ کا ممبر قومی اسمبلی‘ عمران خان کی پارٹی کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار ہو۔ نعیم الحق (مرحوم) نے یہ کہا کہ یہ کپتان کا فیصلہ ہے اور آپ جا کر کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائیں۔ اس طرح میں پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار بنا۔ جس پر میرے دل میں عمران خان کیلئے عزت اور قدر میں اور اضافہ ہوا۔
ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں ایک ایسی استادی کی گئی کہ ختم نبوت کے مسئلے میں حلف نامہ تبدیل کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی کے ممبر نے میری اس جانب توجہ مبذول کرائی۔ جب میں نے دیکھا تو یہ ایک بہت بڑی سازش تھی۔ میں نے قومی اسمبلی میں جب یہ بات اٹھائی تو ایک زلزلہ آ گیا۔ مولانا فضل الرحمن کی پارٹی بھی اس حلف نامے سے ''ختم نبوت کی شق کی تبدیلی‘‘ کا ووٹ دے چکی تھی۔ سینیٹ میں شاید انہوں نے اختلاف کیا لیکن قومی اسمبلی میں ایک خصوصی سازش کے تحت ختم نبوت کا حلف نامہ بدلا گیا تھا۔ میں نے قومی اسمبلی میں دھواں دھار تقریر کی اور قومی اسمبلی کے فلور پر اعلان کیا کہ جمعہ کے دن سے پہلے پہلے اگر آپ نے یہ 7B اور 7C کی شقیں بحال نہ کیں اور ختم نبوت حلف نامہ پرانے والا نہ لائے تو میں سارے ملک میں احتجاج کی کال دینے کا اعلان کرتا ہوں۔ یہ کال میں نے قومی اسمبلی میں ہی دی اور اس کا اتنا اثر ہوا کہ جب انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حکومت کو رپورٹ دی کہ شیخ رشید راجہ بازار میں جمعہ کے دن نکلے گا تو سپیکر ایاز صادق نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے کہا کہ ہم جمعرات کو ہی اس بل میں ترمیم کر دیں گے۔ بعد میں اسی بنیاد پر 2018ء میں ''مجاہد ختم نبوت‘‘ میں نے اپنے الیکشن کا ٹائٹل منتخب کیا۔ قومی اسمبلی میں 7B اور 7C میں ترمیم کر دی گئی تھی لیکن پھر ختم نبوت کا پرانا حلف نامہ بحال کر دیا گیا اور قادیانیوں کا پرانا سٹیٹس برقرار رکھا گیا۔ ختم نبوت کے اس بل پر حمایت میں پورا ایوان ایک طرف ہو گیا۔ لوگوں نے کہا کہ شیخ رشید آپ نے اپنے گناہ بخشوا لیے ہیں‘ آپ نے ثابت کیا کہ آپ حقیقی عاشق رسولؐ ہیں۔ آج اس بل کا سارا سہرا آپ کے سر جاتا ہے۔
شیخ رشید احمد کی کتاب کے اردو ایڈیشن نے جہاں فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں‘ وہیں غیر ملکی سفیروں، مغربی سیاستدانوں اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے انگریزی ایڈیشن کی طلب بھی بہت زیادہ تھی جسے پورا کرنے کے لیے 'لال حویلی سے اقوام متحدہ تک‘ کا من و عن انگریزی ترجمہ کیا گیا جبکہ اس کے سرورق کے ڈیزائن سمیت اس کا سائز اور معیار بالکل اردو ایڈیشن جیسا رکھا گیا ہے۔ یہ کتاب طلبہ کیلئے سبق آموز، ذوقِ مطالعہ رکھنے والوں کیلئے تاریخی دستاویزاور سیاسی کارکنوں کیلئے بہترین نصاب کا درجہ رکھتی ہے جو ہماری ملکی سیاست کی ایک سچی و کھری داستان ہے اور ہمارے معاشرے کی عکاسی بھی کرتی ہے۔