معلوم نہیں لوگ کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ حکومت نے تین برسوں میں کچھ نہیں کیا؟ یہ لوگ یا تو اپنی محنت مزدوری میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ ان کے پاس حکمرانوں کی پُرجوش تقریریں سننے اور متاثر ہونے کا وقت نہیں ہوتا یا پھر وہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے فالوورز نہیں ہیں۔ روزانہ اخبارات پڑھیں یا ٹیلی وژن پر خبریں سنیں تو انہیں پتا چلتا رہے کہ حکومت کیا کچھ کر رہی ہے۔ موجودہ حکمران جماعت نے تبدیلی کانعرہ لگا کر ووٹ لیے تھے تبدیلی کیسی ہو گی‘ یہ عوام کو اس وقت سوچنا چاہئے تھا جب 2018ء میں تبدیلی کے نام پر ووٹ دے رہے تھے۔ اب تو صرف یہ دیکھیں کہ روزانہ کہاں کہاں اور کس کس جگہ پر تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ موجودہ دورِ حکومت میں شاید ہی کوئی ایسا ہفتہ گزرا ہو جس میں اعلیٰ سطح پر کوئی نہ کوئی تبدیلی (تبادلہ) نہ رونما ہوئی ہو۔ بات اوپر سے شروع کریں یا نیچے سے‘ تبدیلی تو مسلسل ظاہر ہو رہی ہے۔ اگر کہیں تبدیلی نہیں آ سکی تو عوام کو بتایا جاتا رہا کہ کارکردگی اتنی اچھی ہے کہ تبدیلی کی ضرورت ہی نہیں۔ ویسے ملکِ عزیز میں شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہو جہاں موجودہ حکومت کے دور میں بڑے پیمانے پر تبدیلی نہ آئی ہو۔ حکومتی سطح پر ہی دیکھ لیں‘ ملک کی اہم ترین وزارتوں؛ داخلہ، خزانہ، اطلاعات و دیگر میں کئی بار وفاقی وزرا کے قلمدان تبدیل ہوئے۔ وفاقی سطح پر سیکرٹریوں کے تبادلے تو اس طرح ہوتے رہے کہ پہلے سکیورٹی گارڈز بھی اتنی جلدی تبدیل نہ ہوتے ہوں گے۔ صوبائی سطح پر اہم ترین انتظامی عہدے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کے تبادلے بھی اس قدر تیزی سے ہوتے رہے کہ اب ان اہم ترین انتظامی عہدوں پر براجمان افسران کوئی بھی اہم فیصلہ کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے مستقبل کاکچھ پتا نہیں ہوتا۔ قومی اداروں کے سربراہان کے تقرر و تبادلے بھی غیر روایتی طور پر کیے گئے۔ ملک میں کھیلوں کا نظم و نسق چلانے والے سب سے بڑے ادارے پاکستان سپورٹس بورڈ میں تین برس کے دوران لگ بھگ ایک درجن کے قریب سربراہان آئے اور گئے۔ جو تین تین ماہ کے لیے آتے رہے‘ وہ صرف اپنا مفاد دیکھتے رہے۔ تین سال بعد مستقل ڈی جی کی تعیناتی عمل میں آئی۔ لاہور اور راولپنڈی سمیت اہم ڈویژنوں اور اضلاع میں کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں اور پولیس سربراہان کی تقرریاں بھی تبدیلی کی دلچسپ مثال ہیں۔ یہ سب کچھ تبدیلی ہی تو ہے‘ جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔
اپوزیشن کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب پر تنقید کی گئی تو حکومت نے ایک رپورٹ جاری کرکے بتا دیا کہ سردار عثمان بزدار کی کارکردگی تمام وزرائے اعلیٰ پہ بھاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق‘ باقی تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی وزیراعلیٰ پنجاب کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں‘ حتیٰ کہ خیبر پختونخوا‘ جہاں پی ٹی آئی حکومت کو ساڑھے آٹھ سال سے زائد عرصہ ہو چلا ہے‘ وہاں کے چیف منسٹر صاحب بھی کارکردگی میں سردار عثمان بزدار سے پیچھے ہیں۔ ایسی رپورٹ جاری ہونے کے بعد تو کسی تبدیلی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اب چونکہ اپوزیشن نے کچھ زیادہ ہی شور مچانا شروع کر دیا ہے کہ حکومت کی کارکردگی صفر ہے تو اس کے جواب میں حکومت نے بتایاکہ ایسی بات نہیں‘ تمام وزارتوں کی کارکردگی صفر نہیں۔ وزیراعظم صاحب نے بہترین کارکردگی دکھانے پر 10 وفاقی وزرا میں تعریفی اسناد تقسیم کی ہیں۔
وزیراعظم آفس میں ہونے والی تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے دس وفاقی وزرا میں تعریفی سرٹیفکیٹس تقسیم کیے۔ جن وزرا کو شاندار کارکردگی پر سرٹیفکیٹ ملا ان کی وزارتوں کے ملازمین کو بھی اضافی الائونس دیا جائے گا۔ کارکردگی کی بنیاد پر وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید تمام وزرا پر بازی لے گئے۔ یہ الگ بات کہ کورونا فارمولے کے تحت بورڈ امتحانات میں 1100 میں سے 1100 نمبر لینے والے طلبہ کی طرح‘ وہ خود بھی حیران و پریشان ہوں گے کہ لوگوں میں اپنی ٹاپ پوزیشن کو کس طرح ڈیفنڈ کریں اور کیا بتائیں کہ ان کی بہترین کارکردگی کو جانچنے کا پیمانہ کیا تھا۔ بہرحال کارکردگی کی بنیاد پر مراد سعید کی وزارتِ مواصلات کا پہلا نمبر رہا، اسد عمر کی وزارتِ پلاننگ کا دوسرا، غربت کے خاتمے کی وزارت کا تیسرا، شفقت محمود کی وزارتِ تعلیم کا چوتھا، شیریں مزاری کی وزارتِ انسانی حقوق کا پانچواں، خسرو بختیار کی وزارتِ صنعت کا چھٹا، نیشنل سکیورٹی ڈویژن کا ساتواں، عبدالرزاق دائود کی وزارتِ تجارت کا آٹھواں، وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی وزارتِ داخلہ کا نواں جبکہ سید فخر امام کی نیشنل فوڈ اینڈ سکیورٹی وزارت کا دسواں نمبر رہا۔ اس حوالے سے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد ارباب کا کہنا ہے کہ پرفارمنس ایگریمنٹ کا نظام شفاف بنایا گیا ہے۔ وزیراعظم صاحب نے پرفارمنس ایگریمنٹ کو پہلے دن سے ہی اونر شپ دی۔ 2020ء میں وزارتوں کی کارکردگی صرف 49 فیصد تھی، پہلے کوارٹر میں وزارتوں کی کارکردگی 62 فیصد تھی، اس کوارٹر کے اختتام پر وزارتوں کی کارکردگی 79 فیصد ہو گئی‘ اور بہترین کارکردگی پرٹاپ ٹین وفاقی وزرا کو ایوارڈز دیے گئے۔
ہمارے ملک میں عام آدمی کی بات کو تو ویسے بھی اہمیت نہیں دی جاتی جبکہ اپوزیشن کی تنقید کو بھی سیاسی مخالفت سے تعبیر کر کے ٹال دیا جاتا ہے لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ حکومت ہی کے ایک وفاقی وزیر نے ہی وزارتوں کی کارکردگی جانچنے کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہزاد ارباب کو خط لکھا ہے جس میں وزارتِ خارجہ کو گیارہواں نمبر دینے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ وزیر خارجہ نے اپنے خط میں کہا ہے کہ پرفارمنس ایگریمنٹ کی پہلی سہ ماہی میں وزارتِ خارجہ نے 26 میں سے 22 اہداف حاصل کیے، دوسری سہ ماہی میں 24 میں سے 18 اہداف کامیابی سے حاصل کیے۔ وزارتِ خارجہ نے یقینی بنایا کہ ریویو پیریڈ کے دوران کوئی معاملہ زیرِ التوا نہ رہے۔ خط میں مؤقف اپنایا گیا کہ اس دوران وزارتِ خارجہ نے اعلیٰ سطح کی سرگرمیاں بھی کیں۔ وزارتِ خارجہ کے کاموں پر کسی تشویش کا کوئی اظہار نہیں کیا گیا۔ 30 فیصد کارکردگی جائزہ سے متعلق کوئی تحریری گائیڈ لائنز نہیں دی گئیں۔ وزارتِ خارجہ کی یہ گریڈنگ ریویو کمیٹی کے طریقۂ کار پر سوالات اٹھاتی ہے۔ حکومت کے لیے اصل تشویشناک بات یہی ہے کہ اب کابینہ اور پارٹی کے اندر سے بھی انگلیاں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ پی ٹی آئی اپنے ہی کئی متحرک ارکان کو شوکاز نوٹس جاری کر چکی ہے لیکن نوٹسز سے معاملہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان تحریکِ انصاف کے ''ہم خیال‘‘ ترین گروپ کے رابطوں میں مزید تیزی آ گئی ہے۔ گروپ ارکان کے باہمی رابطوں کا ابتدائی رائونڈ مکمل ہو چکا ہے، جس کے بعد گروپ کا باضابطہ اجلاس جلد طلب کیے جانے کا امکان ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ نون کے رابطوں کے بعد ترین گروپ کی چوہدری برادران سے ملاقات کرانے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ مشترکہ دوست گروپ کے مرکزی رہنمائوں کی چوہدری برادران سے ملاقات کے لیے متحرک ہیں۔ یہ گروپ بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کر نے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بدلتی سیاسی صورتِ حال سے یہ الگ نہیں رہے گااور اس حوالے سے اپنا فعال سیاسی کردار ادا کرے گا۔ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘ ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ صورتحال حکومت کے لیے پریشانی کا موجب ضرور ہے۔
کوئی حکومت کو آگاہ کرے کہ کارکردگی رپورٹیں، تعریفی اسناد، تقریریں اور وضاحتیں ابتدائی تین برسوں تک تو کسی نہ کسی طرح چلتی رہی ہیں لیکن اب شاید یہ سب کچھ کام نہ آئے۔ اب عوام حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ملک بھر میں کنٹونمنٹ بورڈز‘ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات اور ضمنی الیکشن کے نتائج حکمران جماعت کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونے چاہئیں۔ یہ سب کچھ اپوزیشن کی تنقید نہیں بلکہ عوامی ردعمل ہے جو آئندہ عام انتخابات میں اس سے بھی شدید ہو سکتاہے۔