کرپشن کوکچھ نہ کہو!

اتوار کی شب پی ٹی آئی کے کارکنان بڑی تعداد میں ملک کے لگ بھگ سبھی شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے۔ راولپنڈی لیاقت باغ چوک سمیت مختلف علاقوں میں اس طرح ریلیاں نکل رہی تھیں کہ یہ اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ جشن منا رہے ہیں یا احتجاج کر رہے ہیں۔ کچھ نوجوان 'وزیراعظم عمران خان‘ اورکچھ 'گو امریکا گو‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ حکومت تو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ختم ہوئی ہے تو پھر سڑکوں پر احتجاج کر کے عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنے اور شہر بھر کی ٹریفک جام کرنے کاکیا مقصد ہے؟ اس پر پی ٹی آئی کے حامی ہمارے ایک محترم دوست شاہ جی نے مسکراتے ہوئے خوبصورت تبصرہ کیا کہ دراصل ہم احتجاج نہیں بلکہ اس بات کا جشن منا رہے ہیں کہ آپ لوگ مہنگائی، بیروزگاری اور معاشی بدحالی کے باعث بڑی تنقید کرتے تھے، اب ہم دیکھیں گے کہ نئی حکومت اس دلدل سے کس طرح نکلتی ہے۔ ہم کہتے تھے کہ یہ عالمی مسئلہ ہے مگر تب کوئی یقین نہیں کرتا تھا۔ نئے حکمران‘ جو پہلے ہی پٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھانے کا عندیہ دے چکے ہیں‘ اب یہی جواز پیش کریں گے تو عوام عام انتخابات تک ان ''نئے حکمرانوں‘‘ کے بھی خلاف ہو جائیں گے‘ جس کا جنرل الیکشن میں فائدہ پی ٹی آئی اور کپتان کو ہو گا۔ ہم نے حسبِ عادت شاہ جی سے سوال کیا کہ پھر آپ لوگ ''گو امریکا گو‘‘ کے نعرے کیوں لگا رہے ہیں؟ اس پر شاہ جی نے مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے جواب دیا کہ اس کا مطلب ہے 'چلو امریکا چلیں‘۔
شاہ جی کی مزاحیہ باتیں تو ہم ہمیشہ انجوائے کرتے ہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ سوچنے پر بھی مجبور ہو گئے کہ آخر سابق حکومت نے اپنے پونے چار سالہ دورِ اقتدار میں ایسے کون سے کارنامے سرانجام دیے کہ جن پر آج عوام اس کے خاتمے پر افسردہ ہوکر احتجاج کریں۔ دماغ پر پورا زور ڈالنے کے باوجود بھی ایسی کوئی خوبی یاد نہیں آ رہی تھی جسے کارکردگی کہا جا سکے۔ ابھی شاہ جی اپنی پارٹی کی کارکردگی کے بارے میں مزاحیہ تبصرے کر ہی رہے تھے کہ ہماری نظر میٹرو پِلر پر لگے ایک بینر پر پڑی جس پر بڑا نمایاں کرکے 'Say no to corruption‘ لکھا تھا۔ ہم نے پھر شاہ جی سے سوال کیا کہ آپ کی حکومت تو کرپشن کے خلاف تھی اور ملک بھر میں کرپشن کے خلاف یہ بینرز بھی لگائے گئے‘ پھر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں (سابق) حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت پر کروڑوں روپے رشوت لینے کے الزامات کیوں لگے اور وزیراعظم نے شکایات ملنے کے باوجود ان پر ایکشن کیوں نہ لیا؟ اس پر شاہ جی نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال داغ دیا۔ کہنے لگے کہ کیا آپ کو 'Say no to corruption‘ کا مطلب نہیں معلوم؟ ہم نے ان کی باتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے کہا کہ آپ ہی بتا دیں۔ وہ کہنے لگے کہ اس کا مطلب ہے کہ ''کرپشن کو کچھ نہ کہو‘‘۔
شاہ جی کی خوبی یہ ہے کہ وہ کبھی تنقید پر غصہ نہیں کرتے اور اپنے سیاسی مخالفین کی باتوں پر بھی اس طرح مزاحیہ تبصرہ کرتے ہیں کہ کوئی بھی ان کی باتوں کا برا نہیں مناتا بلکہ سخت ترین سیاسی حریف بھی مسکرا دیتا ہے۔ شاید یہی ان کی اچھی صحت اور حاضردماغی کا سبب ہے اور اسی وجہ سے وہ ہر دلعزیز ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ کاش ہمارے تمام سیاسی رہنما شاہ جی کی طرح ہنس مکھ اور خوش مزاج ہو جائیں‘ اس سے ہمارا ماحول کتنا خوشگوار بن جائے گا۔ لوگ نہ صرف ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت کرنے لگ جائیں گے بلکہ ملک میں ایک اچھا سیاسی کلچر بھی پروان چڑھنے لگے گا۔ سابق حکومت کے کئی وزرا اور مشیران تو صحافیوں کی کوئی ایسی بات بھی برداشت نہیں کرتے تھے جو ان کی مرضی یا موقف کے خلاف ہو یا جس سوال کا ان کے پاس جواب نہیں ہوتا تھا۔ البتہ اسی حکومت میں شیخ رشید جیسے کئی ایسے بھی وزرا تھے جن کے پاس سخت سے سخت سوال کا بھی ایسا جواب موجود ہوتا تھا کہ وہ خبرنامے یا اخبار کی شہ سرخی بن جاتی تھی۔
بات سابق حکومت کے احتجاج سے شروع ہوئی تھی‘ سو اب پی ٹی آئی کو چاہیے کہ ایک سو چھبیس دنوں والے دھرنے کے تجربے سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے نئی حکومت کو اپوزیشن میں ٹف ٹائم دے اور انتظار کرے کہ نئی حکومت مہنگائی و بیروزگاری کے مسائل کا کس طرح سامنا کرتی ہے۔ حکومت میں رہتے ہوئے پی ٹی آئی کو ان مسائل کوحل کرنا تھا جس میں سابق حکمران ناکام رہے تھے لیکن اب اپوزیشن میں رہتے ہوئے اسے محض حکومتی پالیسیوں پر نظر رکھنی اور ان کی سمت درست کرنے کے لیے تنقید کرنا ہے‘ اور یہ کام اس سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی ابھی رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ ہے‘ عوام کو سڑکوں پر نہیں نکالنا چاہیے۔ سال میں ہمارے پاس یہی تو ایک موقع ہوتا ہے کہ ہم اللہ پاک سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور روزے رکھیں‘ کیا پتا اگلا رمضان کس کو نصیب ہونا ہے‘ ویسے بھی ممکن ہے کہ اگلے عام انتخابات کی وجہ سے آئندہ رمضان میں انتخابی مہم زوروں پر ہو اور پھر ایسا موقع نہ مل سکے۔
اب پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کے باوجود‘ 174 ووٹ لے کر شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں‘ نئی حکومت تشکیل کے مراحل سے گزر رہی ہے، وفاق کے بعد ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی تبدیلی کا موسم چل رہاہے، کوئی اب پی ٹی آئی والوں کو سمجھائے کہ جس جس نے ''تبدیلی‘‘ کاحصہ بننا ہے‘ اسے کون روک سکتا ہے؟ جب 2018ء میں ''تبدیلی‘‘ آئی تھی‘ اس وقت بھی یہی مہرے استعمال ہوئے تھے۔ اب نئی حکومت کو کام کرنے دینا چاہیے اور پی ٹی آئی کو ڈٹ کر اپوزیشن کرنی چاہیے۔ شنید ہے کہ پی ٹی آئی نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اور کسی بھی وقت قومی اسمبلی سے استعفے دیے جا سکتے ہیں، اس سے سیاسی ماحول مزید تنائو کا شکار ہو گا اور یہ فیصلہ اتنا کوئی درست بھی نہیں۔ ویسے بھی اب شاید ایک سو چھبیس دنوں والے دھرنے جیسا ماحول نہ مل سکے، بلکہ شاید 'اتوار والی موج‘ بھی اب نہ رہے کیونکہ اتوار کی شب تک تو نئے وزیراعظم کے انتخاب کا مرحلہ باقی تھا‘ انتظامیہ بھی شش و پنج کا شکار تھی جبکہ پنجاب میں بھی علامتی طور پر ہی سہی‘ عثمان بزدار صاحب براجمان تھے لیکن اب لمحہ بہ لمحہ حالات تبدیل ہو رہے ہیں لہٰذا اب یہی بہتر ہو گا کہ حکمت عملی تبدیل کرکے کچھ روز سکون سے گزاریں اور عوام کو بھی اس سیاسی کشمکش سے باہر نکالیں۔
دوسری طرف نئی حکومت کو بھی چاہئے کہ روایتی سیاست سے ہٹ کر عوام کی فلاح و بہبود پرتوجہ دے۔ مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں، روپے کی قدر میں استحکام لایا جائے ، پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں کمی ہو گی تو ہی عوام کو ریلیف ملے گا لیکن اگر خدانخواستہ نئی قومی حکومت بھی عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے مخالفین کو سبق سکھانے پر متوجہ رہے گی اور اپنی توانائیاں غلط جگہ پر ضائع کرے گی تو پھر شاید عوام میں مقبولیت حاصل نہ کر پائے کیونکہ اب اس کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے مہینوں نہیں بلکہ دنوں میں کارکردگی دکھانا ہو گی تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹی جا سکیں کیونکہ آئندہ عام انتخابات میں عوام اسی جماعت کا ساتھ دیں گے جو مہنگائی اوربیروزگاری جیسے مسائل حل کرے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں