حکومت تبدیل ہو چکی ہے۔ کل کی حزبِ اختلاف‘ آج حزبِ اقتدار ہے جبکہ سابق حکمران عوام کی عدالت میں پہنچ گئے ہیں۔ اتنی تبدیلیوں کے بعد بھی ملک میں سیاسی کھیل رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک طرف حکمران اتحاد نئی حکومت کی تشکیل میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف سابق حکمران جماعت جلسے‘ جلوسوں اور احتجاج کے ذریعے عوام میں اپنا سیاسی بیانیہ پھیلا کر اپنی کارکردگی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ خیر یہ سیاسی کھیل توشاید اب اگلے ڈیڑھ سال تک چلتا ہی رہے گا‘ جب تک انتخابات نہیں ہو جاتے۔ ہم نے تو یہ دیکھنا ہے کہ حکومتی تبدیلی کے بعد عوامی مسائل و مشکلات میں کچھ کمی واقع ہو رہی ہے یا مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اور کیا نئی حکومت عوام کو باقی ماندہ ماہِ مقدس میں ریلیف فراہم کر پائے گی یا نہیں؟
نومنتخب وزیراعظم محمد شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کے حوالے سے ان کے سیاسی مخالفین بھی معترف ہیں۔ ہر کوئی مانتا ہے کہ بیورو کریسی سے کام لینا اور مہینوں کے منصوبے ہفتوں میں مکمل کرانا شہباز شریف کا خاصہ ہے۔ بطور وزیراعلیٰ پنجاب انہوں نے میٹرو بس سمیت بڑے بڑے منصوبے ریکارڈ کم مدت میں مکمل کرائے جس سے عوام کو سہولت ملی اور قومی خزانے کی بچت بھی ہوئی۔ اپنی انہی صلاحیتوں کے باعث وہ خادم اعلیٰ کے نام سے مشہور تھے اور ان کے طرز حکمرانی کو 'پنجاب سپیڈ‘ کا نام دیا جاتا تھا۔ وزیراعظم بننے کے بعد وہ جس طرح پہلے ہی روز صبح آٹھ بجے وزیراعظم ہائوس پہنچ گئے اور دفتری نظام الاوقات تبدیل کیے‘ ہفتہ وار دو چھٹیاں ختم کر کے ایک چھٹی کاحکم دیا اور پہلے ہی چار سال سے زیر تعمیر اسلام آباد میٹرو بس سروس کو پانچ یوم کے اندر چلانے کے احکامات جاری کیے تو اس سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر
راولپنڈی کی آبادی میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اسلام آباد میٹرو بس سروس نہ صرف چل گئی ہے بلکہ وزیراعظم صاحب نے رمضان المبارک میں عوام کے لیے سفر کی سہولت بالکل مفت کر دی ہے۔ ساتھ ہی وزیراعظم صاحب نے روات سے بھی میٹرو بس سروس شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند ہے لیکن اس سے پہلے حکومت کو راولپنڈی صدر سے براستہ پشاور روڈ گولڑہ موڑ میٹرو بس سروس شروع کرنی چاہئے جس کا بطور وزیراعلیٰ پنجاب‘ شہباز شریف صاحب نے اعلان بھی کیا تھا لیکن پھر ان کی حکومت ختم ہونے سے یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔ اگر حکومت صدر سے گولڑہ موڑ، موٹروے چوک تک میٹرو بس سروس شروع کرتی ہے تو اس سے جڑواں شہر‘ راولپنڈی اور اسلام آباد ایک رِنگ روڈ سرکل کی طرح میٹروبس سروس سے منسلک ہو جائیں گے۔ راولپنڈی کینٹ کی آبادی بھی اسلام آباد یا نیو ایئر پورٹ جانے کے لیے جدید سہولت سے مستفید ہو سکے گی۔ اس حصے کے لیے حکومت کو پشاور روڈ پر اضافی ٹریک بنانے کی ضرورت بھی نہیں بلکہ صرف میٹرو بس سٹیشن ہی بنانا پڑیں گے۔ یوں اس منصوبے سے لاکھوں کی آبادی کو فائدہ ہوگا اور ایک نیا میگا پروجیکٹ بھی مکمل ہو جائے گا۔
لئی ایکسپریس وے کا منصوبہ دوسری بار شروع ہونے کے قریب تھا کہ حکومت تبدیل ہو گئی اور راولپنڈی کا یہ گیم چینجر منصوبہ ایک بار پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف کوچاہئے کہ اس منصوبے کے بارے میں بھی بریفنگ لیں اور جلد از جلد اس منصوبے کو شروع کرائیں۔ ممکن ہے کہ راولپنڈی میں مقامی مسلم لیگی قیادت وزیراعظم کو یہ کہہ کر اس منصوبے سے دور رکھنے کی کوشش کرے کہ یہ گزشتہ حکومت‘ شیخ رشید احمد کا منصوبہ ہے اس لیے اس کی تعمیر سے دور رہا جائے مگر میرے خیال میں اگر موجودہ حکومت اس منصوبے پرکام شروع کرے گی تو اس کا کریڈٹ اسی حکومت کو جائے گا اور تختی بھی میاں شہباز شریف ہی کے نام کی لگے گی، لہٰذا عوامی اجتماعی مفاد پر مبنی اس منصوبے کو شروع کرنے میں ہچکچاہٹ کے بجائے میٹرو بس سروس منصوبے کی طرح عملی قدم اٹھا کر اس کا کریڈٹ سمیٹا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم صاحب کو چاہئے کہ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے کو بھی ''پاکستان سپیڈ‘‘ سے مکمل کرائیں۔ یہ منصوبہ بھی طویل مدت سے التوا کا شکار چلا آ رہا ہے۔ پہلے بھی شہباز شریف کے دورِ حکومت میں اس پرکام شروع ہوا تھا‘ پھر پی ٹی آئی حکومت میں اس کی الائنمنٹ تبدیل کی گئی جس میں کرپشن کا عنصر در آیا اور منصوبہ التوا کا شکار ہو گیا۔ اب یہ منصوبہ دوبارہ شہباز شریف دور کی پرانی الائنمنٹ پر واپس آ گیا ہے۔ گزشتہ حکومت نے اپنے آخری دنوں میں عجلت میں ایف ڈبلیو او کے سائٹ آفس میں چند افسران اور وزراء کو بلا کر سابق وزیراعظم سے اس منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھوایا تھا تاکہ آئندہ عام انتخابات میں اس منصوبے کا کریڈٹ لیا جا سکے لیکن حقیقت سب جانتے ہیں کہ ابھی تک عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوا اور جس رفتار سے کام ہو رہا ہے‘ وہ انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ اس لیے نومنتخب حکومت کو اس اہم منصوبے پر بھی ذاتی توجہ دینی چاہئے بلکہ نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کو راولپنڈی میں لئی ایکسپریس وے اور رنگ روڈ کے منصوبوں پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور ان منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کرانا چاہئے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی سابق دور میں پنجاب سرکار کا ایک انتہائی مفید اور کامیاب منصوبہ تھا جس کی وجہ سے اہالیان پنجاب کو صاف ستھری خوراک میسر آتی تھی لیکن تبدیلی سرکار کے دور میں یہ ادارہ عملاً غیر متحرک اور برائے نام رہ گیا تھا، اسے دوبارہ اس کی روح کے مطابق نہ صرف فعال کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ملک بھر میں 'پاکستان فوڈ اتھارٹی‘ کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ تمام شہریوں کو معیاری خوراک میسر ہو سکے۔ موجودہ کمشنر راولپنڈی پنجاب فوڈ اتھارٹی کے پہلے ڈائریکٹر جنرل تھے جنہوں نے اس ادارے کو کامیاب کیا مگر پھر ان کا تبادلہ کر دیا گیا اور اس اہم ترین ادارے کوعملی طور پر غیر متحرک اور غیر موثر کر کے چھوڑ دیا گیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک بھر کے شہریوں کو صحت مند غذا فراہم کرنے کے لیے پاکستان فوڈ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے اور کوئی متحرک افسر تعینات کیا جائے تاکہ صحیح نتائج حاصل ہو سکیں۔
راولپنڈی میں سپورٹس ہاسٹل اور سوئمنگ پول سمیت اس وقت اربوں روپے کے متعدد منصوبے جاری ہیں جن پر کام کی رفتار کم ہے اور چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے ان کا تعمیراتی معیار بھی انتہائی ناقص ہے۔ اگر وزیراعظم شہبازشریف نے ذاتی طور پر توجہ نہ دی اورکسی روز اچانک لیاقت باغ سپورٹس کمپلیکس سمیت راولپنڈی میں جاری ترقیاتی منصوبوں کا دورہ نہ کیا تو قومی خزانے سے اربوں روپے ضائع ہونے کے علاوہ یہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے ناقص تعمیر کے باعث جلد ہی اپنی افادیت کھو بیٹھیں گے لہٰذا ابھی وقت ہے کہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت اس طرف توجہ دیں تاکہ منصوبے بروقت مکمل ہو سکیں اور ان کا معیار بھی بہتر ہو۔ حکومت کو جڑواں شہروں کے سنگم پر واقع زیر تعمیر آئی جے پی روڈ کے تعمیراتی کام کے معیار اور رفتار کا بھی جائزہ لینا چاہیے تاکہ دونوں شہروں کے مابین ہیوی ٹریفک والی اس مصروف ترین شاہراہ کی تعمیر مطلوبہ معیار کے مطابق ہو سکے۔ شہباز شریف صاحب کو چاہئے کہ جس رفتار سے انہوں نے اپنے گزشتہ ادوارِ حکومت میں پنجاب میں کام کیا‘ وہی رفتار اور جذبہ وفاقی سطح پر بھی جاری رکھیں تاکہ مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ عوام کو حقیقی تبدیلی کی جھلک نظر آئے اور عام آدمی کی گھبراہٹ ختم ہو سکے۔ اگر اتحادی حکومت عوام کو حقیقی ریلیف دینے میں کامیاب ہو گئی اور عوامی منصوبوں کو بہتر انداز میں مکمل کیا گیا تو اگلے انتخابات میں عوام اس کا بھرپور ساتھ دیں گے ورنہ پھر سابق حکومت تو اپنا بیانیہ مقبول کرانے میں کوشاں ہے ہی۔ عوام کو اگر اب بھی ریلیف نہ ملا اور موجودہ حکومت بھی عذر اور بہانے ہی تراشتی رہی تو پھر عام آدمی پی ٹی آئی کے بیانیے کو سچ ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔