مسلم لیگ (ن) کے صوابی کے جلسے میں خطاب کے لیے پارٹی کی ایک سینئر رہنما سٹیج پر آئیں تو ایک سینئرصحافی مسکراتے ہوئے بولے: مائیک آج پھر ان کے ہاتھ آ گیا ہے‘ اللہ خیرکرے۔ کہنے لگے کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جب سیاستدانوں کے پاس کہنے کو اورکچھ نہیں ہوتا تو وہ قومی اداروں پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف اپنے کارکنوں کوجوش دلانا ہوتا ہے یا پھر اپنے بیان کو شہ سرخی میں جگہ دلوانے کے لیے وہ کچھ بھی الٹا سیدھا بول دیتے ہیں‘ انہیں اس بات کا بالکل اندازہ نہیں ہو پاتا کہ قومی اداروں پر تنقید سے دشمن کتنا خوش ہوتا ہے اور اسے وطن عزیز پر تنقید کے لیے ایک ریفرنس مل جاتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ہمارے سیاست دانوں کے غیرذمہ داران بیانات سے ملک دشمن عناصر بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ اس سے چوبیس گھنٹے قوم کی حفاظت اور خدمت پر مامور اداروں کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران‘ جوانوں اور ان کے خاندان والوں کو شدید صدمہ پہنچتا ہے۔
بات ہو رہی تھی جلسے میں ایک سیاسی رہنما کے ہاتھ میں مائیک آنے کی۔ حسبِ توقع اس دن بھی انہوں نے اپنی تقریر میں اداروں کا ذکر کرنا لازم سمجھا اور کہا ''پوری قوم پاکستان کے استحکام کے لیے افواجِ پاکستان کو دیکھتی ہے، افواج پاکستان کے سربراہ کی ریپوٹیشن بے عیب ہونی چاہیے، جس پر کوئی داغ نہ ہو وہ فوج کا سربراہ بنے‘‘۔ کاش کوئی انہیں سمجھاتا کہ کوئی نااہل یا بدعنوان شخص اپنی دولت یا اثر و رسوخ کی بنا پر الیکشن میں حصہ لے کر پارلیمنٹ کا رکن بلکہ وزیر بھی بن سکتا ہے لیکن نہ تو وہ اپنی دولت یا خاندانی اثر و رسوخ کی وجہ سے نظامِ عدل کا حصہ بن سکتا ہے اور نہ ہی افواجِ پاکستان میں کمیشن حاصل کر سکتا ہے۔
کسی بھی شخص کی پاک فوج میں بھرتی مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد ہی طے پاتی ہے۔ لیفٹیننٹ بننے کے لیے متعدد ذہنی، جسمانی اور تحریری امتحانات پاس کرنا ہوتے ہیں‘ اس مرحلے کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں دنیا کی مشکل اور سخت ترین تربیت کے طویل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیفٹیننٹ سے میجر کے رینک تک پہنچنے میں عمر کا ایک حصہ بیت جاتا ہے۔ ہمارے بہادر افسران کی اکثریت میجر کے عہدے ہی سے ریٹائر ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کرنل کے رینک تک تو انتہائی غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کے حامل افسران ہی پہنچ پاتے ہیں جبکہ لیفٹیننٹ کرنل سے میجر جنرل تک پہنچنے کے لیے مزید کئی برس کی محنت درکار ہوتی ہے اور لاکھوں باصلاحیت افسران میں سے کوئی ایک خوش قسمت ہی جنرل کے رینک تک پہنچ پاتا ہے۔ ان سارے مراحل کا سرسری سا بھی جائزہ لیا جائے تو یہ یقین ہوجاتاہے کہ افواجِ پاکستان کا سپہ سالار صرف وہی شخص بن سکتا ہے جو نہ صرف انتہائی اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کا حامل ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کا سارا کیریئر بے داغ، شہرت قابل رشک اور صلاحیتیں لاجواب ہوں۔ کسی بھی صورت کوئی اوسط افسر اس اعلیٰ ترین منصب تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔
جہاں تک سیاست دانوں کی بات ہے تو شاید ہی کوئی ایسا خوش قسمت سیاسی لیڈر ہو جس پر کرپشن سمیت مختلف قسم کے الزامات نہ لگے ہوں۔ ضروری نہیں تمام الزامات درست ہوں‘ حزبِ اقتدار والے اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے ہمیشہ الزامات اور مقدمات کا سہارا لیتے ہیں اور پھر جب اقتدار رخصت ہوتا ہے، اپوزیشن کو حکومت مل جاتی ہے اور حکمران ایوانوں سے نکل کر اپوزیشن بینچوں پر آ جاتے ہیں تو وہی الزامات ان پر لگ جاتے ہیں جو وہ اپنے دورِ اقتدار میں اپوزیشن رہنمائوں پر لگاتے تھے۔ یوں الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ ہماری قومی سیاست کا ایک اہم ہتھیار بن چکا ہے لیکن ہمیں اپنی مسلح افواج پر فخر ہے کہ آج تک ہماری عسکری قیادت پر کوئی الزام نہیں لگا۔
ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ پاک فوج کے سپہ سالار نے نہ تو مدتِ ملازمت میں مزید توسیع کی خواہش ظاہر کی ہے اور نہ ہی وہ ایکسٹینشن لیں گے بلکہ وہ اپنے مقررہ وقت پر ریٹائر ہو جائیں گے۔ میرے خیال میں اس وضاحت کے بعد اس معاملے پر بات کرنا اور اسے زیرِ بحث لانا انتہائی غیر ذمہ دارانہ فعل ہے جس سے ہمارے دشمن کو بھی بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ نئی عسکری قیادت کی تعیناتی میں ابھی چھ ماہ سے زائد کا عرصہ باقی ہے‘ اس لیے اس ایشو پر بات کرنا محض سستی شہرت حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ یا کوئی شرارت ہو سکتی ہے۔ اس معاملے کو خواہ مخواہ چھیڑنے والے یقینا ملکی مفادات کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ وفاق اور پنجاب میں حکومتوں کی تبدیلی کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی اداروں پر مسلسل تنقید کرتی چلی آ رہی ہے۔ قومی اداروں کے ترجمان بار بار اس تنقید کا جواب دے چکے ہیں۔ عدلیہ واضح کر چکی ہے کہ اس کا مقصد صرف اور صرف آئین و قانون پر عمل کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ہے جبکہ آئی ایس پی آر کی طرف سے بھی بار ہا اپیل کی گئی ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، افواجِ پاکستان اپنی پیشہ ورانہ قومی ذمہ داریوں تک محدود ہیں اور سیاست سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں‘ لیکن اس کے باوجود کبھی خان صاحب‘ کبھی ان کے رفقا یا کبھی حکومتی اتحاد کے رہنما براہِ راست یا بالواسطہ قومی اداروں اور شخصیات پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ اپوزیشن اور نو منتخب حکومت کے رہنما اپنی تقاریر میں قومی اداروں پر بات کیے بغیر ہی نہیں رہ سکتے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی ایک طرف تو اپنے بیانات میں اداروں کی غیر جانبداری کا اعتراف کر رہے ہیں اور دوسری جانب قبل از وقت انتخابات کے لیے ان سے مدد مانگ رہے ہیں۔ دوسری طرف کپتان کے ایک تازہ بیان نے سب کوحیران کرنے کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پیغامات آ رہے ہیں لیکن میں کسی سے بات نہیں کر رہا، میں نے نمبر بلاک کر دیے ہیں، جب تک الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوتا‘ تب تک کسی سے بات نہیں ہو گی‘ احتسابی کیسز کے حوالے سے ہمارا کوئی اثر نہیں تھا لیکن جن کا اثر تھا، اگر وہ چاہتے تو آٹھ سے دس لوگوں کو سزائیں ہو جاتیں۔
کوئی خان صاحب کو بتائے کہ حکومت آتی جاتی رہتی ہے‘ بیس بائیس برس کی طویل جدوجہد کے بعد آپ وزیراعظم بنے، ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ آپ کی بااختیار حکومت تھی، اگر آپ نے اس مدت کو غنیمت جانتے ہوئے سیاسی مخالفین پر تنقید کے بجائے ملک بلکہ صرف پنجاب میں ہی کرپشن کی روک تھام کی ہوتی یا مہنگائی سمیت عوام کے بنیادی مسائل کے حل پر توجہ دی ہوتی تو یقینا آج حالات مختلف ہوتے اور آپ کی حکومت بھی مدت پوری کرتی لیکن اگر آپ کے تجربات کامیاب نہیں ہوئے اور حکومت اپنے ہی وزن سے گر گئی‘ تو اب آئندہ عام انتخابات کی تیاری کریں۔ اپنی غلطیوں کا جائزہ لیں اور انہیں سدھارنے کا پلان مرتب کریں۔ ذاتی مفادات کے لیے اداروں کو نشانہ نہ بنائیں‘ یہ نہ تو آپ کے لیے بہتر ہے اور نہ ہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ کوئی محترمہ مریم نواز، سابق صدر آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمن اور ان کے دیگر اتحادیوں کو بھی سمجھائے کہ قومی ادارے غیر جانبدار ہیں تو ہی وہ ایوانِ اقتدار تک پہنچ پائے ہیں ورنہ شاید آج بھی کئی رہنما جیلوں میں ہوتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت عوام تمام سیاست دانوں کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے مایوس ہیں اور یہ سوچنے پر مجبور کہ سیاستدانوں کی قومی اداروں پر تنقید کا مقصد محض سستی شہرت حاصل کرنا ہے یا خدانخواستہ اس کے پیچھے کوئی اور مقاصد ہیں؟ بہرحال پوری قوم آزاد عدلیہ اور بہادر افواجِ پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے اور اداروں پر بلاجواز تنقید ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔