اسے قوم کی حرماں نصیبی کے علاوہ کیا نام دیا جائے کہ ہمارے ہاں کالاباغ ڈیم کے حوالے سے ہمیشہ حقائق سے ہٹ کر پروپیگنڈا کیا گیا اور اس منصوبے کو سیاسی بنا کر متنازع بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی اور اب بھی کی جا رہی ہے۔ بھاشا ڈیم اور تربیلا ڈیم پر سمجھوتا ہو سکتا ہے تو کالا باغ ڈیم پر کیوں نہیں ہو سکتا۔ دنیا بھر میں آبی منصوبے تنازعات کا شکار ہوتے ہیں، پاکستان میں بھی اگر ایسا ہو رہا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تنازعات کو دور کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کی کونسل کے آئینی فورم میں اتفاقِ رائے سے ان کا حل تلاش کیا جائے۔ اس میں شک نہیں کہ بھارت کالا باغ ڈیم کی مخالفت کیلئے باقاعدہ سرمایہ کاری کرتا آیا ہے، اسی وجہ سے یہ منصوبہ سیاسی تنازعات کا شکار چلا آ رہا ہے؛ البتہ اس کی مخالفت بعض سنجیدہ حلقے حقائق سے لاعلم ہونے کی بنا پر بھی کرتے ہیں۔ اگر بھاشا ڈیم کی بات کریں تو وہ بھی اسی دریا پر بن رہا ہے، وہ بھی فالٹ لائن پر واقع ہے۔ کالا باغ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اگر کالاباغ ڈیم میں طغیانی آئے تو اس کے سبب نوشہرہ ڈوب سکتا ہے۔ اگر اسی کلیے پر پرکھا جائے تو بعض ماہرین کے مطابق اگر ایسی صورتحال بھاشا ڈیم کو درپیش ہو تو شاید آدھا خیبر پختونخوا ڈوب جائے مگر بھاشاڈیم کی حمایت اور کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی جاتی ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ بھارت نے اس حوالے سے خاصی لابنگ کر رکھی ہے جبکہ کچھ نادان دوستوں کی گمراہی بھی اس میں کارفرما ہے۔ کالا باغ ڈیم پنجاب میں ضرور بن رہا ہے مگر یہ کسی ایک صوبے کا نہیں‘ ملک کا ڈیم ہو گا۔ مخالفت کرنے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اس عظیم منصوبے کو مزید لٹکانے کے بجائے اس کے مخالفین کو حقائق جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔
بھوک، قحط، تباہی پھیلانے والے سیلابوں سے بچنے اور سستی بجلی کے حصول کے لیے کالا باغ ڈیم بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ ڈیم قلیل مدت میں آسانی سے آپریشنل ہو سکتا ہے اور یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ کالا باغ ڈیم سے صرف ایک صوبے کو فائدہ ہو گا۔ کالا باغ ڈیم ایک قومی منصوبہ اور صوبوں کے لیے یکساں فوائد کا حامل ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو حالیہ سیلاب سے پاکستان میں زراعت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ بیس لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کاشت کی گئی فصلیں سیلابی ریلوں میں بہہ گئی ہیں۔ اگر یہ ڈیم ہوتا تو اتنی تباہی نہ ہوتی اور ہماری بنجر ہو جانے والی زمینیں بھی زرخیز ہوتیں۔ بعض نادان لوگ اس منصوبے کے نام پر بھی غیر ضروری اعتراض کرتے ہیں، حالانکہ یہ نام ڈیم کے کالاباغ قصبہ کی حدود میں ہونے کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے منگلا کے مقام پر منگلا ڈیم اور تربیلا کے مقام پر تربیلا ڈیم کا نام رکھا گیا۔ 2004ء میں کالاباغ ڈیم کی تعمیری لاگت کا تخمینہ چھ ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ اب تک اربوں روپے اس پروجیکٹ پر خرچ کیے جا چکے ہیں۔ اگر یہ منصوبہ شروع کیا جاتا ہے تو چھ سال میں اس کی لاگت ملکی وسائل سے حاصل کرنا بالکل بھی مشکل کام نہیں۔ اگر پاکستانی قوم نیلم جہلم پروجیکٹ کے لیے سرچارج دے کر اپنی جیب سے ڈیم بنا سکتی ہے تو کالاباغ ڈیم کے لیے بھی پیسے دے سکتی ہے، لیکن اس کے لیے قوم کو اعتماد کی اشد ضرورت ہے۔ پنجاب کی کل بیالیس ہزار ایکڑ زمین‘ جس میں سے تقریباً تین ہزار ایکڑ زیر کاشت رقبہ ہے، جبکہ خیبر پختونخوا کی کل تین ہزار ایکڑ اراضی‘ جس کا معمولی سا حصہ زیر کاشت ہے‘ کالاباغ ڈیم کی تعمیرکی وجہ سے متاثر ہو گی۔ تربیلا اور منگلا ڈیم بننے سے پہلے سندھ کی نہریں مقامی کسانوں کو چونتیس ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا کرتی تھیں جبکہ ان دونوں ڈیموں کے تعمیر کے بعد یہ تقریباً پینتالیس ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا کرنے لگی ہیں یعنی گیارہ ملین ایکڑ فٹ پانی اضافی ملا ہے۔ کالاباغ ڈیم کے بننے کی وجہ سے تین ملین ایکڑ فٹ مزید پانی سندھ کی نہروں کے حوالے کیا جا سکے گا، لہٰذا یہ کہنا کہ سندھ صحرا بن جائے گا، ایک غیر حقیقی اور بالکل غلط مفروضہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر سے سندھ کے کسانوں کا فائدہ ہو گا۔
اس اہم قومی منصوبے کی تاریخ کاجائزہ لیا جائے تو 1958ء میں جب صدر ایوب خان نے زمامِ اقتدار سنبھالی تو اس وقت ملک میں کوئی ڈیم نہیں تھا۔ ایوب خان نے فوری طور پر حکم دیا کہ ملک بھر میں ڈیمز بنانے کے لیے سروے کیے جائیں۔ چھ مہینے کے انتہائی مختصر وقت میں سروے مکمل کر لیے گئے اور سروے ٹیم نے دریائے سندھ اور دریائے جہلم پر متعدد مقامات کی نشاندہی کی جہاں ڈیم بنائے جا سکتے تھے؛ تاہم فوری طور پر دریائے جہلم پر منگلا اور دریائے سندھ پر تربیلا و کالاباغ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ تینوں مقامات منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو یہ تینوں علاقے ملک کے وسط میں واقع تھے، لہٰذا ان ڈیموں سے پورے ملک کو آسانی سے بجلی سپلائی کی جا سکتی تھی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ان تینوں مقامات پر ڈیموں کو بہ آسانی ملک کے نہری نظام سے جوڑا جا سکتا تھا اور ان ڈیموں کے پانی کو زراعت کیلئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ابتدائی طور پر دریائے جہلم پر واقع منگلا ڈیم کی تعمیر کا فوری طور پر آغاز کر دیا گیا جبکہ وسائل کی کمی کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ تربیلا اور کالاباغ ڈیم باری باری بنائے جائیں۔ تربیلا اور کالا باغ ڈیم میں سے پہلے تربیلا ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ ورلڈ بینک ڈیم بنانے کے لیے قرض دینے پر رضامند ہو گیا تھا‘ لہٰذا حکومت نے سوچا کہ چونکہ تربیلا ڈیم پر پیسے کالا باغ ڈیم سے زیادہ لگنے ہیں‘ لہٰذا ورلڈ بینک کے کھاتے سے تربیلا ڈیم بنوا لیتے ہیں اور بعد میں کالا باغ ڈیم اپنی جیب سے بنا لیں گے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ایوب خان کے سیاسی مخالفین نے تربیلا اور آس پاس کے علاقے میں سیاسی گڑبڑ پیدا کرنا شروع کر دی تھی، یہ علاقہ چونکہ ہری پور ڈسٹرکٹ کا حصہ تھا جو ایوب خان کا آبائی علاقہ تھا لہٰذا اپنے آبائی علاقے میں اپنی مخالفت دیکھ کر صدر ایوب خان نے سوچا کہ حکومت میں رہتے ہوئے تربیلا کے لوگوں کا تعاون بہ آسانی حاصل کیا جا سکے گا، ہو سکتا ہے کہ ان کے بعد اس ڈیم پر سیاست شروع ہو جائے لہٰذا پہلے تربیلا ڈیم بنایا جائے۔ اس وقت شاید کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ آنے والے دنوں میں کالا باغ ڈیم بنانے میں جو سیاسی مشکلات سامنے آئیں گی وہ تربیلا ڈیم کی مخالفت کا عشر عشیر بھی نہیں ہوں گی۔ قصہ مختصر‘ ایوب دور کے آخری سالوں میں تربیلا ڈیم پر کام شروع ہوا جو 1976ء میں جا کر بخیر و خوبی مکمل ہوا۔ اس کے تعمیر کے بعد چونکہ ملک میں سیاسی تبدیلیوں کا دور شروع ہو چکا تھا‘ لہٰذا مزید نئے ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے پس پشت ڈال دیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر پیپلز پارٹی کے پچھلے دورِ حکومت تک‘ جب بھی کالاباغ ڈیم کی بات ہوئی سیاسی مخالفت کی ایسی آندھی چلی کہ کالاباغ ڈیم کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
مارچ 1991ء میں چاروں صوبوں کے وزائے اعلیٰ نے مشترکہ مفادات کونسل میں پانی کی تقسیم کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے اور باقاعدہ طور پر صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا فارمولہ طے پایا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ دریائے سندھ اور دیگر دریائوں پر اتفاقِ رائے سے کالا باغ ڈیم سمیت چھوٹے بڑے ڈیم بنائے جائیں گے۔ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے بعداس وقت صوبہ سرحد (کے پی) کے وزیراعلیٰ میر افضل خان، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ولی خان، سندھ کے وزیراعلیٰ جام صادق اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے پانی کی تقسیم کے اس فارمولے کی بھرپور حمایت کی تھی اور اس پر اطمینان کا اظہار کیا تھا لیکن شاید یہ اتفاق و اتحاد دشمن کو ہضم نہیں ہو سکا۔ کچھ عرصہ بعد برطانیہ سے ایک ٹیم نوشہرہ آئی اور نوشہرہ کے مکانوں کی چھتوں پر نشان لگانا شروع کر دیے جس پر ڈیم مخالفین کی جانب سے یہ خبر پھیلا دی گئی کہ کالاباغ ڈیم بننے سے نوشہرہ ڈوب جائے گا حالانکہ وہ نشانات ڈیم کی سیٹلائٹ امیجنگ کیلئے لگائے گئے تھے تاکہ ریسرچ سٹڈی مکمل کی جا سکے اور گرائونڈ بریکنگ کے بعد کام کا آغاز ہو سکے۔ ڈیم مخالف کئی لابیاں متحرک تو پہلے سے تھیں‘ لہٰذا انہیں عوام کو گمراہ کرنے کا ایک نیا موقع میسر آ گیا۔ (جاری)