کالم لکھنے سے قبل تازہ حالات و واقعات پر نظر ڈالی تو بظاہر ایک چھوٹی سی خبر نے فوراً اپنی طرف متوجہ کر لیا اور میں سوچنے لگا کہ ہمارے مشرقی ہمسائے بھارت کے عزائم کتنے خطرناک ہیں اور وہ اپنی دفاعی صلاحیتوں میں کس قدر اضافہ کرتا جا رہا ہے جبکہ ادھر عالم یہ ہے کہ ہمارے بعض سیاستدان اور کچھ دیگر مفاد پرست طبقات اپنے دشمن کے ناپاک عزائم کو بھانپنے، ان کا مقابلہ کرنے اور انہیں خاک میں ملانے کے لیے افواجِ پاکستان کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے، ان میں دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق اضافہ کرنے اور عسکری صلاحیتوں کو مضبوط و مستحکم بنانے کے بجائے اپنے ہی قومی اداروں کو متنازع بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور اس عمل کا پاکستان کے دشمنوں کو براہِ راست فائدہ ہوتا ہے۔ خبر یہ تھی ''بھارتی حکومت کی جانب سے دفاعی افواج کو دیے گئے فاسٹ ٹریک خریداری کے اختیارات کے تحت 750 ڈرونز ہنگامی بنیادوں پر خریدنے کے لیے ٹینڈرز جاری کر دیے گئے۔ ان ڈرونز کو بھارتی فوج کی سپیشل فورسز بٹالین کے حوالے کیا جائے گا، آر پی اے وی (ریموٹلی پائلٹڈ ایریئل وہیکل) ڈرونز دن رات‘ ہر طرح کے حالات میں کام کر سکتے ہیں‘‘۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی خبر ہے لیکن اس نے مجھے لمحہ بھر میں گہری سوچوں میں گم کر دیا۔ میں سوچنے لگا کہ ہم یوں تو بھارت کو اپنا ازلی دشمن سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہیں ہو جاتا‘ بھارت سے ہمارے تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔ انسانی حقوق، مذہبی آزادی، اقلیتوں کے تحفظ، سیاسی رواداری، آئین و قانون، عدل و انصاف، کھیل اور دفاعی صلاحیت سمیت ہر جگہ ہم اپنا مقابلہ بھارت سے کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم عملی طور پر اپنے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام ضروری لوازمات پورے نہیں کر رہے۔
کھیلوں کی مثال ہی لے لیں، ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ایتھلیٹ ارشد ندیم اور انعام بٹ پہلوان سمیت ہمارے تمام کھلاڑی روایتی حریف بھارت کے کھلاڑیوں کو ہر مقابلے میں شکست سے دوچار کریں، بھارت کے کھلاڑیوں کو خاک چٹائیں اور اس کے بعد سبز ہلالی پرچم کے ہمراہ میدان کا چکر لگا کر ہمارا سر فخر سے بلند کریں، لیکن ہم نے اس بات پر کبھی توجہ نہیں دی کہ بھارت اپنے کھلاڑیوں کی ٹریننگ پرکروڑوں روپے خرچ کرتا ہے، انہیں اچھی ملازمتوں کیساتھ بھاری سپانسرشپ دی جاتی ہے اورجو ایتھلیٹس بین الاقوامی مقابلوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں‘ انہیں سال بھر ٹریننگ کے لیے بیرونِ ملک بھیجا جاتاہے جبکہ ہم نے گزشتہ تین‘ چار برسوں میں اپنے کھلاڑیوں سے چھوٹی چھوٹی ملازمتیں بھی چھین لیں اور پھر انہیں سال بھر کبھی ڈیوٹی جوائن کرنے اور کبھی کسی دوسرے ڈسپلن کی خلاف ورزی کے بہانے بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔ سپانسر شپ تو دور کی بات‘ ہم اپنے کھلاڑیوں اور ٹیموں کو محض فضائی ٹکٹ کا خرچہ بچانے کی وجہ سے انٹرنیشنل مقابلوں میں شرکت سے روک دیتے ہیں اور صاف صاف کہہ دیتے ہیں کہ اگر کوئی کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرنا چاہتا ہے تو ٹکٹ سمیت اپنا تمام خرچہ خود برداشت کرے۔ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے اور سوچتے کہ جو کھلاڑی پہلے ہی بیروزگار یا معاشی مسائل کا شکار ہے‘ جو مشکل سے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال رہا ہے‘ وہ وطن عزیز پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے سخت محنت و ٹریننگ کے بعد یہ خرچے کہاں سے اور کیسے پورے کرے گا حالانکہ یہ ذمہ داری تو ریاست (ملک میں کھیلوں کے منتظم اداروں) کی ہے۔ تازہ ترین مثال لے لیں‘ گزشتہ ہفتے آسٹریلین فٹ بال لیگ (اے ایف ایل) کا ایشیاکپ کھیلنے کے لیے پاکستان بوائز اور گرلز ٹیموں نے بینکاک (تھائی لینڈ) جانا تھا، ٹیموں کی ٹریننگ اور سلیکشن کے لیے آسٹریلوی کوچ کی خدمات بھی حاصل کی گئیں لیکن دونوں ٹیموں کی بیرونِ ملک روانگی کے لیے ہوائی ٹکٹ کا بندوبست نہ ہو سکا۔ اے ایف ایل پاکستان کے سیکرٹری نے پاکستان سپورٹس بورڈ سمیت ہر دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کسی نے بھی ان کاہاتھ نہ تھاما اور عین وقت پر ٹیم بینکاک لے جانے کے لیے انہیں اپنی ذاتی گاڑی فروخت کرنا پڑی۔ ستم ظریفی یہ کہ قیمتی گاڑی بیچ کر بھی وہ صرف بوائز ٹیم کے ٹکٹ ہی خرید سکے اورعین وقت پر ویمن ٹیم کو یہ کہہ کر ڈراپ کر دیا گیاکہ حکومت سمیت کوئی قومی ٹیم کے ٹکٹس سپانسر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لڑکوں کی ٹیم ایک شخص کی قربانی سے‘ رو دھو کر کسی نہ کسی طرح بینکاک پہنچ گئی اور ایشیا کپ کی ٹرافی جیت کر اس نے یہ ثابت کیا کہ اگر کوئی ادارہ ہماری ویمن ٹیم کو بھی سپانسر کرتا تو آج پاکستان ایشیا میں بھارت کوایک اور شکست دے کر ویمن گولڈ میڈل بھی جیت کر آتا۔ آج ہم فیس بک سمیت سوشل میڈیا پر اے ایف ایل ایشیاکپ کی فاتح ٹیم کی تصویریں اَپ لوڈ کر کے مبارکباد کے پیغامات تو شیئر کر رہے ہیں لیکن اس بات بارے نہیں سوچ رہے کہ اس کے پیچھے محنت کس کی تھی؟ بھارت نے مرد و خواتین‘ اپنی دونوں ٹیموں کو تمام مراعات کے ساتھ بھیجا اور پاکستان سے صرف ایک ٹیم اپنی مدد آپ کے تحت مشکلات کا سامنا کرکے ٹورنامنٹ میں پہنچی اور اس کے باوجود ایشیا کپ جیتنے میں کامیاب رہی۔
بات اس خبر سے شروع ہوئی تھی کہ 'بھارتی حکومت کی جانب سے دفاعی افواج کو دیے گئے فاسٹ ٹریک خریداری کے اختیارات کے تحت 750 ڈرونز ہنگامی بنیادوں پرخریدنے کے لیے ٹینڈرز جاری کر دیے گئے ہیں۔ مذکورہ بالا مثال دینے کامقصد صرف یہ تھا کہ ہم اپنی خواہشات میں تو بھارت کا ہر شعبے میں مقابلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے تیاری اور ضروریات پوری نہیں کرتے۔ بھارت کی فوج تعداد کے لحاظ سے تین گنا سے زیادہ بڑی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے پاکستانی فوج کو جس جرأتِ ایمانی کی دولت سے مالامال کر رکھا ہے اور ہمارا بزدل دشمن اسی کے خوف کے سبب ہر وقت سہما سہما رہتا ہے ورنہ جس طرح وہ اپنی صلاحیتوں میں روز بروز اضافہ کرتا جا رہا ہے اس کے مقابلے میں ہم اپنے دفاعی اداروں کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے الٹا انہیں سیاست میں ملوث کرتے رہتے ہیں۔ ہمارا دشمن پاک سرزمین کے خلاف آئے روز دہشت گردی و تخریب کاری کے منصوبے بناتا رہتا ہے اور بزدلانہ وار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جبکہ ہم صرف بڑھکوں سے ہی کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس طرح ہمارا دشمن پاکستان میں جاسوسی نیٹ ورک کو پھیلانے اور اپنے اہداف کو ہِٹ کرنے کیلئے مزید 750 ڈرونز طیارے ہنگامی بنیادوں پر خرید رہا ہے، ریاست گجرات میں پاکستان کی سرحد سے محض 130 کلومیٹر دور دیسا میں ایک ہوائی اڈا تعمیر کر رہا ہے‘ اس سے دشمن کے مذموم عزائم واضح ہیں مگر اس کے جواب میں ہم آج بھی اداروں کو متنازع بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہم اپنے اداروں کو سیاسی لڑائی جھگڑوں سے ہی باہر نہیں نکلنے دے رہے۔ ہم آج بھی یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے ادارے قومی سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ سیاسی لڑائیوں میں بھی دخیل ہوں حالانکہ اعلیٰ عسکری قیادت متعدد بار یہ واضح کر چکی ہے کہ عساکرِ پاکستان اپنے آئینی کردار کی پاسدار ہیں‘ انہیں سیاسی معاملات میں نہ گھسیٹا جائے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم ماضی سے سبق سیکھیں، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، قومی معاملات پر متفقہ فیصلے کریں، باہمی سیاسی مخالفت میں قومی اداروں کو استعمال کرنے یا انہیں متنازع بنانے کے بجائے ان کی دفاعی صلاحیتوں کو مزید مستحکم کریں اور اپنے اندرونی مسائل کو سیاسی طریقوں سے گفت و شنید اور مشاورت سے حل کیا جائے۔ اس وقت پوری دنیا مہنگائی سمیت مختلف بحرانوں کا شکار ہے، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک ان بحرانوں سے متاثر ہیں لہٰذا اگر ہم نے قومی معاملات پر اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ نہ کیا اور حالات کی سنگینی کا ادراک نہ کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ حقیقتاً ملک اس وقت انتہائی نازک صورتحال سے دوچار ہے اور ہمیں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے تاکہ دشمن کے خطرناک عزائم کو خاک میں ملانے کے ساتھ اپنے مسائل حل کر سکیں۔ وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ اب بھی ہم متوجہ نہ ہوئے تو بحران مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔