گھر سے نکلا تو ایک سینئرصحافی دوست سے ملاقات ہو گئی جو گزرے وقتوں میں سابق وزیراعظم عمران خان کے بڑے مداح اور حامی تھے۔ میں نے کہا کہ راجہ صاحب! آپ پی ٹی آئی کے مظاہرے میں کیوں نہیں گئے، ''آپ کی جماعت‘‘ کے کارکن تو چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں بجلی کے کھمبوں پر چڑھنے لگ گئے ہیں اور آپ یہاں گھوم رہے ہیں۔ راجہ صاحب نے حسبِ روایت مسکرا کر کوئی جواب دینے کے بجائے شرمندگی کا اظہارکیا اور کہنے لگے: انسان ہونے کے ناتے غلطی ہو جانا بڑی بات نہیں لیکن جب غلطی کا ادراک ہو جائے تو اس کے بعد بھی اس پر ڈٹے رہنا اور اصلاح نہ کرنا ناقابلِ معافی جرم ہے۔ جب سے میں نے شمس آباد (راولپنڈی) کے علاقے میں ایک شہری کے احتجاجاً بجلی کے کھمبے پر چڑھ جانے اور کرنٹ لگنے کا سنا ہے اور سوشل میڈیا پر اس کی وڈیوز دیکھی ہیں تو افسوس کے ساتھ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہوں کہ نوجوانوں نے کپتان کے بیانیے سے کیا نتیجہ اخذ کیا ہے؟ ابتداً پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے یہ تاثر دیا کہ ضلع اورکزئی کا رہائشی زینت اللہ عمران خان پر ہوئے حملے کی ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر پر احتجاجاً بجلی کے کھمبے پر چڑھا تھا لیکن بعد میں سوشل میڈیا پر اس نوجوان کا ایک بیان سنا جو کسی یوٹیوبر نے ریکارڈ کیا تھا‘ جس میں وہ بتا رہا تھا کہ وہ ایک غریب آدمی ہے اور ہر روز کے احتجاجی دھرنوں اور سڑکوں کی بندش سے اس کا روزگار تباہ ہو گیا ہے۔ اس کے گھر میں فاقوں کی نوبت آ چکی ہے۔ جب سے یہ حقیقت آشکار ہوئی تو اس کے بعد سے میں خود سے بھی شرمندہ شرمندہ ہوں اور دل خون کے آنسو رو رہا ہے کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ بہانے بہانے سے لانگ مارچ کو لٹکایا جا رہا ہے اور اسلام آباد پہنچنے کا نام ہی نہیں لیا جا رہا، راولپنڈی کی مصروف ترین شاہراہیں بند کر کے عام عوام کے لیے عذاب کی سی صورتحال پیدا کر دی گئی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ راولپنڈی میں مری روڈ، پشاور روڈ اور پرانا ایئر پورٹ روڈ بند کرنے سے وزیراعظم شہباز شریف، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور وفاقی حکومت کو پریشانی ہو گی یا راولپنڈی؍ اسلام آباد کے رہائشیوں اور ملک بھر سے وفاقی دارالحکومت آنے والے عام شہریوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی؟ کتنی ہی ایمبولینسیں ٹریفک جام میں پھنسی ہوں گی، کتنے ہی مریضوں کی زندگیاں دائو پر لگ رہی ہوں گی۔ پہلے کورونا کے سبب طلبہ و طالبات کے دو قیمتی سال ضائع ہوئے اور تعلیمی نظام شدید متاثر ہوا اور اب سیاسی احتجاج کی وجہ سے جڑواں شہروں کے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس سے لوگوں کا روزگار متاثر ہو رہا ہے۔ یہ احتجاج وفاقی حکومت سے زیادہ عوام کے خلاف نظر آتا ہے کیونکہ اس سے عوام کے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔
راجہ صاحب کی باتیں سننے کے بعد آفس پہنچا تو دفتر سے باہر ہی قریبی مارکیٹ کے ایک تاجر نے روک لیا۔ پہلے تو ملک کے حالات اور سڑکوں کی بندش بارے بات چیت شروع کر دی اور پھر اپنا رونا رونے لگا۔ ایک ساتھی تاجر کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے کہ چودھری صاحب سے پوچھ لیں ہم غیر سیاسی لوگ ہیں، کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کر کے روزانہ بارہ گھنٹے دکان پر بیٹھ کر اپنے خاندان کے لیے رزقِ حلال کمانے والے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہر تاجر کسی نہ کسی سیاسی جماعت کو ووٹ ضرور دیتا ہے لیکن آج تک کسی سیاسی جماعت یا رہنما نے ہمارے گھر میں دال اور آٹا ڈال کر نہیں دیا بلکہ ہم اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ سالانہ لاکھوں روپے ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں جس سے سرکار کا نظام چلتا ہے لیکن یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ جب بھی کوئی پارٹی حکومت میں ہوتی ہے تو وہ مخالفین کے احتجاج اور دھرنوں کو معیشت تباہ کرنے کی سازش قرار دیتی ہے لیکن جب وہ خود اپوزیشن میں ہو تو خود بھی معیشت کا پہیہ جام کر کے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ احتجاج ایک جمہوری حق ہے لیکن اس کا طریقہ کار بھی جمہوری ہونا چاہئے۔ شہرکی مصروف ترین سڑکیں اور کاروبار بند کرنا قطعاً غیر سیاسی، غیر اخلاقی، غیر قانونی اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم عمل ہے۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں روات ٹی چوک پر پی ٹی آئی کے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران شہری اور مظاہرین آمنے سامنے آ گئے۔ کارکنوں نے جی ٹی روڈ کو روات کے مقام پر بلاک کیا جس پر شہریوں نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ خواتین سمیت شہریوں نے مظاہرین سے راستہ کھولنے کیلئے اصرار کیا جس پر مظاہرین اور شہریوں کے درمیان تلخ کلامی اور جھگڑا ہو گیا۔ اسی طرح راولپنڈی میں آئی جے پی روڈ پر شہریوں نے خود ہی رکاوٹیں ہٹا کر ٹریفک بحال کرا لی۔ حالانکہ اس روڈ کو بلاک کرنے والوں کی تعداد تقریباً سو کے قریب تھی مگر وہاں ٹریفک بلاک ہونے کی وجہ سے پھنسے ہوئے شہریوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی جنہوں نے جلتے ہوئے ٹائروں اور لکڑیوں کو ہٹا کر روڈ کا ایک حصہ کھول دیا۔ ادھر انجمن تاجران شمس آباد، فیض آباد، عنایت بازار، مری روڈ نے ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو تحریری درخواست دیتے ہوئے سڑکوں اور کاروبار کی بندش کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چار روز کے دوران شمس آباد اور فیض آباد کے ساڑھے تین ہزار سے زائد تاجروں کا کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکاہے، مری روڈ کی بندش سے مزید نقصان کا اندیشہ ہے، انتظامیہ اور پولیس کو چند لوگوں نے یرغمال بنا رکھا ہے، مسئلہ حل نہ ہوا تو تاجر برادری انتہائی قدم اٹھا سکتی ہے۔ دوسری جانب راولپنڈی میں پاکستان تحریک انصاف کے ایک احتجاجی کیمپ کے باہر ایک بزرگ خاتون نے سڑکوں کی بندش کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ وہ خاتون راستے بند ہونے پر پی ٹی آئی قیادت پر برس پڑی۔ ان خاتون کا کہنا تھا کہ کئی گھنٹوں سے سڑکوں پر خوار ہو رہی ہوں، تمام راستے بند ہیں، چند منٹ کا فاصلہ تین گھنٹے میں طے کر کے اب پہنچی ہوں۔ مذکورہ بالا حالات و واقعات بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی خان صاحب کو بتائے کہ اگر آپ کی پارٹی کے کارکنان اسلام آباد نہیں آنا چاہتے اور لانگ مارچ کی ناکامی کا خدشہ درپیش ہے تو جمہوری عمل یہی ہے کہ عوام کے خدشات اور جذبات کا احساس کیا جائے اور فی الحال لانگ مارچ کو ملتوی کر دیا جائے۔ اس حوالے سے خان صاحب ہی کچھ کر سکتے ہیں۔ ماضی کی طرح‘ دوبارہ تیاری کے ساتھ آنے کا کہہ کر از راہِ مہربانی عوام کے لیے شاہراہیں کھلوا دیں۔
سوشل میڈیا پر ایک وڈیو خاصی وائرل ہوئی ہے جس میں ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی واثق قیوم عباسی پنڈی کی ایک مصروف شاہراہ بند کرکے پنجاب پولیس کے سکیورٹی حصار میں سڑک پر کرکٹ کھیل رہے ہیں جبکہ ان کے عقب میں ٹائر جل رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں عوام شاہراہوں کی بندش کے باعث خوار ہوتے رہے، ایمبولینسوں سمیت سکول و کالجز کی بسیں ٹریفک میں پھنسی رہیں لیکن کسی پولیس افسر یا اہلکار نے ٹریفک کھلوانے کی کوشش نہیں کی بلکہ سبھی ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی کرکٹ کو انجوائے کرتے رہے۔ اس دوران عام شہری سڑک کھولنے کے لیے پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کی منت سماجت کرتے رہے مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ شاید چیئرمین پی ٹی آئی کو ادراک نہیں کہ حکومت سے نکلنے کے بعد ان کا بیانیہ عوام میں کافی مقبول ہو رہا تھا، دوسری طرف مہنگائی کی وجہ سے عوام موجودہ وفاقی حکومت اور پی ڈی ایم اتحاد کے خلاف ہو رہے تھے اور حالات پی ٹی آئی کے لیے روز بروز سازگار ہو رہے تھے لیکن اب لانگ مارچ سے پہلے ہی غیرمعینہ مدت کیلئے سڑکوں کی بندش سے ان کا بیانیہ مقبولیت کھونے لگا ہے۔ ویسے بھی پی ٹی آئی کا لانگ مارچ تو وفاقی حکومت کے خلاف تھا لیکن اس وقت عملاً پنجاب کو بند کر رکھا ہے جہاں اس کی اپنی حکومت ہے۔ جگہ جگہ ناکے لگا کر سڑکوں کی بندش غریبوں کے لیے فاقوں کا سبب بننے لگی ہے، لہٰذا کپتان یا تو لانگ مارچ کی رفتار بڑھائیں یا پھر یہ ناکے ختم کروا کے عوام کو فاقوں سے بچائیں ورنہ یہ ناکے اور عوام کے فاقے پی ٹی آئی کی سیاست کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔