مثبت سرگرمیوں کا فقدان

سوشل میڈیا کے 'دانشوروں‘ نے نوجوان نسل کو اخلاقی لحاظ سے کمزور کرنے میں پہلے ہی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ اور مخالفین پر بے جا تنقید کے لیے نوجوانوں کا اخلاق مزید بگاڑ کے رکھ دیا۔ سوشل میڈیا اکائونٹس کے حوالے سے متعدد سرکاری و بین الاقوامی رپورٹس منظر عام پر آ چکی ہیں‘ جن میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک اور ٹویٹر سمیت مختلف سماجی ویب سائٹس پر لاکھوں جعلی اکائونٹس بنے ہوئے ہیں جن کا مقصد اسلام، پاکستان اور سیاسی مخالفین کے حوالے سے منفی پروپیگنڈا کرنا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ تین‘ چار برسوں کے دوران ان جعلی اکائونٹس میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے اور ان کے ذریعے مخالفین کو گالیاں دینا اب ایک رواج بن چکا ہے۔ بدقسمتی سے ان لاکھوں جعلی اکائونٹس سے شیئر ہونے والے مواد کو نوجوان نسل قومی ٹرینڈ سمجھ کر اس قدر تیزی سے آگے پھیلاتی ہے کہ اسے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جعلی اور منفی ٹرینڈز کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ ملک میں نوجوان نسل کے لیے مثبت سرگرمیوں کا فقدان ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کھیلوں کے فروغ سمیت نوجوان نسل کے لیے مثبت سرگرمیاں کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی ہیں۔ 2018ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور 1992ء کے ورلڈ کپ کے فاتح عمران خان وزیراعظم پاکستان منتخب ہوئے تھے تو پی ٹی آئی کی جانب سے بڑے بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے لیکن ہمارے جیسے لوگ‘ جو قومی حالات پر تھوڑی بہت نظر رکھتے ہیں‘ جانتے تھے کہ کپتان بھی وزیراعظم بننے کے بعد اقتدار کے چکروں اور سیاسی جھمیلوں میں پھنس جائیں گے۔ ان چکروں سے نکلنا کسی بھی شخصیت کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ دنیا میں بہت کم ایسے حکمران دیکھے گئے ہیں جنہوں نے حکومتی ذمہ داریوں سے مکمل انصاف نہ کر پانے پر خود کو اقتدار سے الگ کر لیا یا اپنی مدت پوری ہونے کے بعد پُرامن طریقے سے اقتدار منتقل کیا ہو۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ جو بھی ایک بار اقتدار کا مزہ چکھ لیتا ہے‘ وہ اس کے دوبارہ حصول کے لیے زندگی بھر تمام جائز و ناجائز اور قانونی و غیر قانونی حربے آزماتا رہتا ہے۔ خیر‘ بات کپتان کی ہو رہی تھی‘ ہم جیسے کھیلوں سے محبت کرنے والے شہریوں کو ابتدا میں یہ خوش فہمی لاحق تھی کہ عمران خان وزیراعظم بن کر اور کچھ کریں یا نہ کریں لیکن ملک میں کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کریں گے کیونکہ وہ خود بھی ایک کھلاڑی ہیں اور اسی ناتے سے اس مقام تک پہنچے ہیں لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ کھیلوں کو جتنا نقصان اس دور میں پہنچا‘ شاید ہی ملکی تاریخ میں کبھی پہنچا ہو۔
کورونا لاک ڈائون کے دوران جب ملک میں کھیلوں کے میدان بھی بند کر دیے گئے اور کھیلوں سمیت مختلف مثبت سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں تو نوجوان نسل منشیات سمیت متعدد منفی سرگرمیوں کا شکار ہو گئی۔ سٹریٹ کرائمز میں نمایاں اضافہ ہوا، ہراسانی و تشدد کے واقعات خوفناک حد تک بڑھ گئے، نوجوانوں میں منشیات کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ گیا، موبائل فون کا استعمال اس حد تک بڑھا کہ اس سے خاندانی نظام متاثر ہونے لگا۔ بعض رپورٹس کے مطابق اس دوران سوشل میڈیا فورمز پر جعلی اکائونٹس کی بھی بھرمار ہو گئی۔ ٹک ٹاک اور پب جی جیسی علتوں نے بھی اسی دوران جڑ پکڑی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جب کورونا وائرس کی شدت میں کمی واقع ہوئی اور کھیلوں پر سے پابندیاں ہٹائی گئیں تو نوجوان نسل آہستہ آہستہ دوبارہ کھیل کے میدانوں کا رخ کرنے لگی جس سے سٹریٹ کرائمز کا تناسب کم ہوا، تشدد کے واقعات میں کمی آئی اور منشیات کا استعمال کم ہو گیا ۔ اس بات سے ہر کوئی متفق ہے کہ کھیلوں سمیت دیگر مثبت سرگرمیاں نوجوانوں کو نہ صرف برائی سے بچاتی ہیں بلکہ یہ ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے بھی ضروری اور مفید ہیں۔
کالم لکھتے ہوئے ایک خبر نظرسے گزری تو پھر وہی ساری باتیں دماغ میں گھومنے لگیں کہ کاش ہمارے حکمران نوجوان نسل کو مثبت سرگرمیاں فراہم کرنے کے لیے بہترین وسائل مہیا کرتے۔ خبر یہ تھی ''وزیراعظم آزاد کشمیر کے ہیلی کاپٹر کو مظفر آباد کے کرکٹ سٹیڈیم میں لینڈ کر دیا گیا۔ وزیراعظم کا ہیلی کاپٹر اترنے کے باعث سٹیڈیم میں جاری کلب ٹورنامنٹ کا میچ روک دیا گیا، دوسرے روز بھی گرائونڈ میں کھڑے ہیلی کاپٹر کی وجہ سے میچ نہ ہو سکا۔ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ ٹیموں نے 50 ہزار روپے فی میچ فیس جمع کرا کے گرائونڈ کرائے پر حاصل کر رکھا ہے لیکن اس کے باوجود دو روز سے ہیلی کاپٹر کی وجہ سے ٹورنامنٹ تعطل کا شکار ہے۔ مظفر آباد کے کمشنر نے بتایا کہ وزیراعظم آزاد کشمیر کو دیر ہو رہی تھی‘ اس وجہ سے ہیلی کاپٹر سٹیڈیم میں اتارا گیا، ایس او پیز کے مطابق ہیلی کاپٹر جلد دوسری جگہ منتقل کر دیا جائے گا‘‘۔ بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی خبر ہے اورکمشنر کے مطابق وزیراعظم آزاد کشمیر کو دیر ہو رہی تھی‘ اس لیے ہیلی کاپٹرکو سٹیڈیم میں اتارا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا مظفرآباد میں دوسرا کوئی ہیلی پیڈ نہیں ہے جہاں ہیلی کاپٹر کو اتارا جا سکتا؟ اگر ایمرجنسی میں ہیلی کاپٹر کھیلوں کے میدان میں اتارا ہی گیا تھا تو پھر اسے وہاں سے فوری منتقل کیوں نہ کیا گیا اور میچ دوبارہ شروع کیوں نہ کرایا گیا؟ ایسی کون سی ایمرجنسی تھی کہ ہیلی کاپٹر کو اصل ہیلی پیڈ کے بجائے کرکٹ گرائونڈ میں اتارنا پڑا اور اگر کوئی ایمرجنسی تھی بھی تو پھر دو دن تک اسے وہاں سے ہٹایا کیوں نہیں گیا؟ مذکورہ خبر میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ کرکٹ گرائونڈ کا باقاعدہ کرایہ ادا کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود نوجوان کھلاڑیوں کا میچ روک کر انہیں بے بسی کی تصویر بنا دیا گیا۔ ہو سکتاہے کہ یہ سطور شائع ہونے تک وہ ہیلی کاپٹر وہاں سے کہیں اور منتقل ہو چکا ہو لیکن نوجوانوں کے دو دن ضائع کرنے کا ذمہ دارکون ہے؟ قوم کے شاہینوں کو کھیلوں سمیت مختلف مثبت سرگرمیاں فراہم کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے جس کی انجام دہی میں ہماری تمام حکومتیں نہ صرف ناکام رہی ہیں بلکہ کسی کو احساسِ زیاں بھی نہیں ہے۔
ایک اور خبر ہے کہ بھارت نے پاکستان کی بلائنڈ کرکٹ ٹیم کو ویزہ دینے سے انکار کر دیا ہے جس کی وجہ سے قومی ٹیم پانچ سے سترہ دسمبر تک بھارت میں ہونے والے بلائنڈ کرکٹ ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم ہو گئی ہے۔ قومی بلائنڈ کرکٹ ٹیم‘ جو ورلڈ چیمپئن اورگزشتہ دو ورلڈکپ کی رنراَپ رہی ہے‘ کو اتوار کو بھارت روانہ ہونا تھا مگر بھارتی حکام نے عین وقت پر اسے ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔اس پر سب سے پہلے تو ورلڈ بلائنڈ کرکٹ کونسل کو نوٹس لینا چاہیے۔ سیاسی بنیادوں پر ویزہ دینے سے انکار پر آئندہ بھارت کی میزبانی پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے، اس سے قبل 2009ء میں انگلینڈ بھی پاکستانی بلائنڈ کرکٹ ٹیم کو ویزہ دینے سے انکار کر کے ورلڈ کپ میں شرکت سے محروم کر چکا ہے۔ یہاں افسوسناک امریہ ہے کہ حکومتی سطح پر بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے ویزوں کے لیے کوئی مؤثر کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی اس ضمن میں مضبوط آواز بلند کی گئی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کھیل ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔
پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں ڈپارٹمنٹل سپورٹس پر پابندی لگائی گئی تھی جس کی وجہ سے سینکڑوں نوجوان کھلاڑی بیروزگار ہونے کی وجہ سے کھیلوں کو خیرباد کہنے پر مجبور ہو گئے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے ڈپارٹمنٹل سپورٹس تو بحال کر دی ہیں لیکن ابھی تک کرکٹ سمیت دیگر کھیلوں کی محکمانہ ٹیمیں بحال نہیں ہو سکیں جو لمحۂ فکریہ ہے۔ کاش ہمارے حکمران جان سکتے کہ مظفر آباد سٹیڈیم میں ہیلی کاپٹر کھڑا کرنے جیسے اقدامات مثبت سرگرمیوں کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ جب تک ملک میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے کھیلوں کی سہولتیں عام نہیں کی جائیں گی‘ اس وقت تک نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں سے بچانا مشکل ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ کھیل، ثقافت اور سیاحت کے شعبوں پر خصوصی توجہ دے اور ملک میں مثبت سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے تاکہ سٹریٹ کرائمز، منشیات کے استعمال اور تشدد جیسے واقعات کو روک تھام کی جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں