25 دسمبر کو پوری قوم نے حسبِ روایت بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ کا 147واں یوم پیدائش منایا۔ کہنے کو تو ہم یوم قائد ملی جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے محض روایتی انداز میں سال کے ایک دن کو قائداعظم محمد علی جناح کے نام سے منسوب کر رکھا ہے۔ اگرچہ 25 دسمبر کو ہم یومِ قائد سے منسوب کرتے ہیں مگر اس دن بھی ہم اپنے قائد کو شایانِ شان طریقے سے خراجِ تحسین پیش نہیں کرتے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہم بحیثیت پاکستانی اپنے قومی معاملات کو سال بھر قائداعظمؒ کے فرمودات کے مطابق چلائیں لیکن زمینی حقائق یہی ہیں کہ ہم سال میں 364 دن تک بانیٔ پاکستان کو صرف کرنسی نوٹوں کی حد تک یاد رکھتے ہیں اور محض 25 دسمبر کو روایتی طور پر ان کے چند اقوال و پیغامات بارے سننے کو ملتا ہے مگر وہ بھی زبانی‘ کلامی طور پر۔
25 دسمبر کا دن عالمی سطح پر کئی حوالوں سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ عیسوی تقویم میں یہ سال کا 359 واں دن ہے۔ اس دن عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات میں سے چند اہم واقعات یہ ہیں۔ 336ء میں روم میں پہلی بارحضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا یوم ولادت (کرسمس) منایا گیا۔ 1000ء میں ہنگری کے سٹیفن کنگ نے ایک مسیحی ریاست کے طور پر مملکت مجارستان (ہنگری) کی بنیاد رکھی۔ 1025ء میں پولینڈ کے مشہور بادشاہ میشکا دوم لیمبرٹ کی بطور بادشاہ تاجپوشی ہوئی۔ 1130ء میں مملکت صقلیہ (اٹلی) کے پہلے بادشاہ کے طور پر صقلیہ کے راجر دوم کو تاج پہنایا گیا۔ یہ وہی صقلیہ ہے‘ جسے انگریزی میں سسلی کہا جاتا ہے اور جس کے مافیاز دنیا بھر میں مشہور رہے ہیں۔ 1643ء میں بحر ہند میں ایک جزیرے کی دریافت ہوئی‘ جسے25 دسمبر کی مناسبت سے کرسمس کے نام سے موسوم کیا گیا۔ 1876ء اسی دن قائداعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی جبکہ 1976ء میں قائد کا صد سالہ یوم پیدائش شایانِ شان طریقے سے منانے کے لیے ایک یادگاری سکہ جاری کیا گیا۔ 1991ء میں روسی صدر میخائل گوربا چوف نے اس دن استعفیٰ دیا تھا۔ 2003ء اسی روز سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس میں سولہ افراد جاں بحق اور پچاس زخمی ہوئے تھے۔
25 دسمبر قائداعظم کے علاوہ بھی کئی اہم شخصیات کا یومِ ولادت ہے۔ 1642ء میں سر آئزک نیوٹن اسی دن پیدا ہوئے۔ 1876ء میں مشہور جرمن کیمیا دان ایڈولف اوٹو رین ہولڈ ونڈاس (Adolf Otto Windaus)، جس نے 1928ء میں نوبیل انعام برائے کیمیا حاصل کیا۔ 1918ء میں انور سادات‘ جو مصر کے صدر بنے اور 1978ء میں نوبیل انعام حاصل کیا۔ 1919ء میں مشہور بھارتی موسیقار اور ہدایتکار نوشاد۔ 1924ء میں سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی۔ 1936ء میں معروف بھارتی ہدایت کار اسماعیل مرچنٹ۔ 1939ء میں غلام احمد بلور۔ 1939ء میں امریکی گیت نگار اور تخلیق کار باب جیمز۔ 1949ء میں میاں محمد نواز شریف۔ 1949ء میں انور اقبال، پاکستانی اداکار اور ہدایت کار۔ 1971ء میں جسٹن ٹروڈو، کینیڈا کے سیاستدان اور موجودہ وزیراعظم۔ ان کے علاوہ بھی یہ دن کئی اہم شخصیات کا یومِ پیدائش ہے۔ 25 دسمبر بعض عالمی شہرت یافتہ شخصیات کا یوم وفات بھی ہے‘ جن میں برطانوی فلمساز و اداکار چارلی چیپلن (1977ء)، ترکیہ کے سابق صدر عصمت انونو (1973ء)، بھارت کے سابق صدر ذیل سنگھ گیانی (1994ء ) اور اردو ادب کے معروف نقاد، محقق اور شاعر شمس الرحمن فاروقی (2020ء ) سرفہرست ہیں۔ اس دن دنیا بھر میں مختلف تہوار منائے جاتے ہیں جن میں سب سے زیادہ نمایاں کرسمس ہے۔ بیشتر مسیحی اس تاریخ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ پیدائش مناتے ہیں۔ (واضح رہے کہ کچھ مسیحی طبقات 6 جنوری، 7 جنوری یا 18 جنوری کو کرسمس مناتے ہیں، روس سمیت آرتھوڈوکس عیسائی 7 جنوری کو کرسمس مناتے ہیں)۔بھارت میں 25 دسمبر کا دن 'یوم خوش نظمی‘ کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ وطن عزیز میں اس دن بانیٔ پاکستان قائداعظم کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے۔
بات یومِ قائداعظم سے شروع ہوئی تھی اور پھر 25 دسمبر کا ذکر چل پڑا۔ بابائے قوم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876ء کو سندھ کے دارالحکومت کراچی میں پیدا ہوئے۔ (کچھ طبقات کراچی کے بجائے سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے علاقے 'جھرک‘ کو قائداعظم کی جائے پیدائش قرار دیتے ہیں مگر یہ درست نہیں۔ خود قائداعظم محمد علی جناح نے 7 اکتوبر 1938ء کو سندھ میں مسلم لیگ کی ایک صوبائی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جائے پیدائش کراچی ہے) قائداعظم نے ابتدائی تعلیم کا آغاز 1882ء میں کیا اور 1893ء میں اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلینڈ روانہ ہو گئے جہاں سے انہوں نے 1896ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا اور بیرسٹری کی ڈگری حاصل کر کے وطن واپس آئے۔ قائداعظم نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز 1906ء میں انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت سے کیا؛ تاہم 1913 ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ 1929ء میں خود مختار ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے تحفظ کی خاطر مشہور چودہ نکات پیش کیے۔ 1930ء میں آپ کو تپِ دق جیسا موذی مرض لاحق ہوا جسے آپ نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور چند قریبی رفقا کے علاوہ سب سے چھپائے رکھا۔ کراچی میں جناح پونجا کے گھر جنم لینے والے محمد علی جناح نے برصغیر میں ایک نئی تاریخ رقم کی اور مسلمانوں کی ایسی قیادت کی کہ 1947ء میں ان کے لیے ایک علیحدہ وطن کا حصول ممکن بنایا۔ قیامِ پاکستان کے بعد آپ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ مسلمانوں کے حقوق اور علیحدہ وطن کیلئے اَن تھک جدوجہد نے قائداعظم کی صحت پر نہایت منفی اثرات مرتب کیے اور قیامِ پاکستان کے محض ایک سال بعد 11 ستمبر 1948ء کو قائداعظم اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ قائداعظم کی رحلت کے موقع پر انڈیا کے آخری وائسرے اور بھارت کے گورنر جنرل لارڈ مائونٹ بیٹن کا کہنا تھا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ جناح اتنی جلدی اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو میں ہندوستان کی تقسیم کا معاملہ کچھ عرصے کے لیے ملتوی کر دیتا، وہ نہ ہوتے تو پاکستان کا قیام ممکن نہیں تھا۔ قائداعظم کے کٹر مخالف اور بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ میں ایک طویل عرصے سے جناح صاحب کو ناپسند کرتا چلا آیا ہوں لیکن اب جبکہ وہ ہم میں نہیں رہے تو ان کے لیے میرے دل میں کوئی تلخی نہیں، صرف افسردگی ہے کہ انہوں نے جو چاہا وہ حاصل کر لیا لیکن اس کی کتنی بڑی قیمت تھی جو انہوں نے ادا کی۔
آج قائداعظم کے پاکستان میں چہار جانب بدعنوانی، بدانتظامی، لاقانونیت اور ناانصافی کا راج ہے۔ میرٹ کی دھجیاں سرعام اڑائی جا رہی ہیں۔ ہم نے اپنے بابائے قوم کے فرمودات کو یکسر بھلا دیا ہے۔ پاکستان اس وقت شدید قسم کے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے جن میں سیاسی، معاشی اور توانائی بحران سرفہرست ہیں۔ ملک میں لاقانونیت ہے، امن و امان کی صورتِ حال مخدوش ہے، سیاسی افراتفری عروج پر ہے۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے بجائے اقتدار کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ ہماری کرنسی روز بروز تنزلی کا شکار ہے اور ہم عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ قائداعظم کے افکار کو بھلا دینا اور ان پر عمل نہ کرنا ہے۔ یوم قائد کو ایک روایتی دن کے طور پر منانے کی بجائے ہمیں قائداعظم کے اصولوں اور افکار کو اپنانا اور اپنی عملی زندگی میں لاگو کرنا ہو گا۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی بانیٔ پاکستان کے ارشادات پر عمل پیرا ہو کر وطن عزیز کو اسلامی جمہوری ریاست بنانے کے لیے اس ڈگر پر چلانا ہو گا جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا اور جو راہِ عمل آپ نے اپنے افکار سے واضح کی تھی تاکہ پاکستان ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہو سکے اور برصغیر کے مسلمانوں نے جس وطن کا خواب دیکھا تھا‘ وہ شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔