اس بات میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں مہنگائی کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا تھا۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی کابینہ مہنگائی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام رہے تھے جس کی وجہ سے حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ ملک بھر میں معاشی طور پر پریشان حال عوام حکومت کے خلاف بولنے لگے، جس سے اپوزیشن کو شہ ملی اور سابق حکومت کے خلاف مہنگائی مارچ سمیت مختلف محاذوں پر احتجاج شروع ہو گیا جو بالآخر تحریک عدم اعتماد کی صورت میں عمران خان حکومت کو اقتدار کے ایوانوں سے نکالنے کا سبب بنا۔ سابق حکمرانوں پر احتساب کے مقدمات کو سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنے، اپوزیشن جماعتوں پر سیاسی مقدمات بنانے، بغیر ٹھوس وجہ گرفتاریاں کرکے انہیں جیلوں میں بند کرنے اور میڈیا کی آواز دبانے کے لیے فیک سوشل میڈیا اکائونٹس سے صحافیوں کی کردار کشی جیسے الزامات بھی عائد کیے گئے لیکن اگر ان حالات کے باوجود حکومت ملک میں عام آدمی کے حالاتِ زندگی کو بہتر بنانے پر توجہ دیتی، مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرتی، ذخیرہ اندوزی اور اشیائے ضروریہ کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے عناصر کی سرکوبی کرتی تو شاید پی ٹی آئی کی حکومت آج بھی قائم ہوتی کیونکہ ایک عام شہری کے بنیادی مسائل روٹی، کپڑا اور مکان ہی ہیں۔
غریب کو دو وقت کی روٹی عزت اور سکون سے ملتی رہے تو وہ کبھی بھی سیاسی ہنگاموں میں نہیں الجھتا، لیکن جب بچوں کی بھوک برداشت سے بڑھ جانے پر مائیں بچوں سمیت نہروں میں چھلانگ لگانے پر مجبور ہوں، جب باپ بچوں کو عید پر بھی ایک جوڑا کپڑوں کا نہ بنا کر دے پائے اور خودکشی جیسے انتہائی اقدام پر مجبور ہو جائے، جب غریب بچے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے روٹی چوری کرنے لگیں اور جب تڑپتے بیمار والدین کی دوائی کے لیے اچھے گھرانوں کی بیٹیوں کو اپنا دامن دوسروں کے آگے پھیلانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ملے تو پھر عام آدمی اسے حکمرانوں کا ہی قصور سمجھتا ہے۔ ایک غریب دیہاڑی دار بھی سوچتا ہے کہ شاید حکومت بدلے گی تو نئے حکمران بحرانوں پر قابو پا لیں گے، شاید مہنگائی کم ہو اور اس کے مسائل میں کمی واقع ہو۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال عمران خان کی مقبول ترین حکومت کو بھی لے ڈوبی۔ اس وقت کہا جاتا تھا کہ کپتان اگلے پانچ سال بھی حکومت کرے گا۔ اپوزیشن بھی خان صاحب کی مقبولیت سے اتنی خائف تھی کہ خاموشی سے دبکے رہنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا تھا لیکن مہنگائی و معیشت کا مسئلہ ایسا تھا جو آہستہ آہستہ سابق حکومت کی مقبولیت کو دیمک کی طرح چاٹ گیا اور وہ جو کبھی اقتدار کے نشے میں مست ہو کر دوسروں کو دھمکاتے تھے‘ آج خود مجبور و بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ جو اپنے ہر بیان میں دوسروں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی باتیں کرتے تھے‘ آج اپنے لیے محفوظ ٹھکانے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ شاید یہی مکافاتِ عمل ہے اور قدرت کا قانون بھی، کیونکہ قدرت جس انسان کو عروج اور اختیارات بخشتی ہے‘ اس پر کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالتی ہے جنہیں پورا کرنا اس کے فرائض منصبی میں شامل ہوتا ہے۔
بات مہنگائی سے شروع ہوئی تھی اور شاید یہی سابق حکومت کے خاتمے کی سب سے بڑی وجہ تھی جس کے نتیجے میں حالات اس قدر بدل گئے کہ دو برس قبل تک جیلوں میں قید رہنے والے سیاسی رہنما آج برسرِ اقتدار ہیں اور سابق حکمران آج تھانوں، کچہریوں اور جیلوں میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں۔ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی تو عام آدمی کا خیال تھاکہ پی ٹی آئی حکومت معاشی صورتحال کو سنبھالنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے، شاید پی ڈی ایم اتحاد مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے، شاید پٹرول ایک بار پھر سو روپے سے کم قیمت پر ملنے لگے، شاید بجلی کی قیمتوں میں کمی ہو اور گیس پریشر میں بہتری کے ساتھ گاڑیوں کے لیے سی این جی بھی آسانی سے دستیاب ہو۔ پاکستانی عوام کو یہ جھانسا بھی دیا گیا تھا کہ جس طرح میاں نواز شریف کے گزشتہ دورِ حکومت میں اسحاق ڈار نے امریکی ڈالر کو قابو کیے رکھا، وطن واپس آکر ڈار صاحب ایک بار پھر اسے لگام ڈالیں گے اور پاکستانی کرنسی مستحکم ہونے کے ساتھ ہی مہنگائی کا جن خودبخود بوتل میں بند ہو جائے گا۔ پی ڈی ایم رہنما دعویٰ کرتے تھے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ ایسے اقدامات کریں گے جن سے محض چھ ماہ میں عوام کو واضح فرق نظر آنے لگے گا۔ انہی دعووں اور وعدوں کے ساتھ مارچ 2022ء میں ''مہنگائی مکائو مارچ‘‘ کی قیادت کرنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف وزیراعظم پاکستان اور فروری 2022ء میں کراچی سے اسلام آباد تک مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کرنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وفاقی وزیر خارجہ بن گئے۔ سابق حکومت کو ہر وقت آڑے ہاتھوں لینے والے جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے صاحبزادے بھی وفاقی کابینہ کا حصہ بن گئے جبکہ امریکی ڈالر کے لیے خوف کی علامت سمجھے جانے والے اسحاق ڈار نے وطن واپس آکر سینیٹر کاحلف اٹھانے کے بعد وفاقی وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھال لیا۔ شروع میں تو وزیر خزانہ صاحب نے عوام کو بڑی تسلیاں دیں کہ وہ ڈالر کو 180روپے تک لے آئیں گے جبکہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھی عوام کی دسترس میں لا کر دکھائیں گے۔ اسحاق ڈار کی وطن واپسی پر چند روز تک غیر ملکی کرنسی کو بریک بھی لگی رہی اور پاکستانی روپے کی قدر میں اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن پھر حالات پہلے سے بھی زیادہ گمبھیر ہونے لگے اور آج معاشی صورت حال اس سے کہیں زیادہ بدتر ہو چکی ہے جہاں اپریل میں عمران خان حکومت نے چھوڑی تھی اور ناامیدی کا یہ مقام ہے کہ بہتری کی کوئی امید بھی نظر نہیں آ رہی۔
کالم لکھتے ہوئے ایک خبر پر نظر پڑی جس کے مطابق ''ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے صحت کا شعبہ بری طرح متاثر ہونے لگا۔ دسمبر 2022ء میں دوائیں اور طبی سہولتیں ساڑھے 13 فیصد مہنگی ہوئیں، دسمبر میں دوائوں اور خام مال کی قیمتوں میں 15.40 فیصد اضافہ ہوا۔ ادارۂ شماریات کے مطابق ایک ماہ میں طبی آلات کی قیمتوں میں 6 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا۔ دسمبر میں ڈاکٹروں کی فیس میں 15 فیصد، دانتوں سے متعلق علاج میں 13.59فیصد، میڈیکل ٹیسٹوں کی مد میں 16.40 فیصد اور ہسپتالوں کی فیس میں ساڑھے 6 فیصد تک کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس حوالے سے معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ادویات کے لیے خام مال اور طبی آلات کی درآمدات میں آسانی اور ٹیکسوں میں کمی کرنی چاہیے تاکہ ان کی قیمتوں میں کمی لائی جا سکے‘‘۔
کوئی حکومت اور وفاقی وزرا کو بتائے کہ امریکی ڈالر یا پٹرولیم مصنوعات کا اثر اوپر سے نیچے تک‘ پوری مارکیٹ پر پڑتا ہے لیکن ایک غریب آدمی کو زندہ رہنے کے لیے سب سے زیادہ دو وقت کی روٹی اور علاج معالجہ کی مفت یا کم ازکم سستی سہولتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پہلے تو وفاقی حکومت پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مخالف سیاسی جماعت کی صوبائی حکومتوں کا بہانہ بنا کر دلاسہ دے رہی تھی لیکن اب تو وہاں بھی وفاق کی مرضی کی نگران حکومتیں قائم ہو چکی ہیں‘ لہٰذا اب حکومت کے پاس مہنگائی، بیروزگاری اور توانائی بحران کا ملبہ دوسروں پر ڈالنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ اب حکومت کو توانائی بچت پالیسی پر بہرطور عمل درآمد کرانا ہوگا اور مہنگائی کو ہر حال میں قابو کرنا ہو گا ورنہ پھر اس حکومت کو بھی ویسے ہی انجام سے دوچار ہونا پڑے گا جس سے عمران خان کی مقبول حکومت ہوئی تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ وفاقی حکومت سابق حکمرانوں کے نقش قدم پر چل کر مخالفین پر کیسز بنانے اور انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیلنے کے بجائے حقیقی مسائل پر توجہ دے۔ مہنگائی کنٹرول کرنے پر اپنی توانائیاں صرف کرے، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کا قلع قمع کرے تاکہ عام آدمی کو کم از کم روٹی اور دوائی توسستے داموں میسر آ سکے۔ اگر اب بھی معیشت کو نہ سنبھالا گیا تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ انتخابات کا سال ہے اور عام انتخابات میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعے اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔