گزشتہ سال اکتوبر میں خبر آئی تھی کہ 'برطانیہ کی وزیراعظم لز ٹرس نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ وہ چھ ہفتے تک برطانیہ کے وزیراعظم کے عہدے پر رہیں۔ 10 ڈائوننگ سٹریٹ کے باہر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں احساس ہو گیا ہے کہ میں وہ کام نہیں کر سکی جس پر مجھے کنزرویٹو پارٹی نے منتخب کیا تھا، اس لیے میں نے ہز میجسٹی (بادشاہ چارلس) سے بات کی ہے تاکہ انہیں مطلع کیا جا سکے کہ میں کنزرویٹو پارٹی کے رہنما کے عہدے سے استعفیٰ دے رہی ہوں‘۔ معاشی بحران کے دوران برطانیہ میں لز ٹرس کو وزیراعظم منتخب کیا گیا تھا مگر وہ ڈیڑھ ماہ بعد ہی مستعفی ہو کر گھر چلی گئیں۔ اب چند روز پہلے ایک اور خبر آئی ہے۔ ' نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے آئندہ ماہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کا اعلان کر دیا، 42 سالہ جیسنڈا آرڈرن نے کہا ہے کہ انہوں نے موسم گرما کی چھٹیوں کے دوران اپنے مستقبل پر غور کرنے کا وقت نکالا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید تھی کہ میں اس چیز کی تلاش کر پائوں گی جو مجھے اپنا کام جاری رکھنے کی تحریک دے پائے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا، اس صورت حال میں اپنا کام جاری رکھنے کا فیصلہ نیوزی لینڈ کی خدمت نہیں ہو گا‘‘۔
ان خبروں نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ 'کیا ہمارے سیاست دان بہت سیانے ہیں یا گورے بالکل کورے ہیں؟ لز ٹرس نے صرف بیالیس دنوں میں ہی سوچ لیا کہ عوام نے معیشت کو ٹھیک کرنے کا جو مینڈیٹ انہیں دیا تھا اور اتنی بڑی سلطنت کی ذمہ داری انہیں سونپی تھی‘ وہ ڈیڑھ ماہ گزرنے کے باوجود معیشت کو درست پٹڑی پر چڑھا سکیں اور نہ ہی ملک کے معاشی حالات کو بہتر کر سکیں بلکہ برطانیہ مزید بحرانوں کا شکار ہونے لگا، انہیں نے ٹیکسز میں کمی کا اعلان کیا تھا، لیکن اب انہیں ٹیکس بڑھانا پڑ رہا تھا، بجائے اس کے کہ وہ یہ ''مشکل فیصلہ‘‘ کرتیں‘ انہوں نے سوچا کہ ان کا مزید اقتدار میں رہنا ملک و قوم کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ وہ سمجھتی تھیں کہ ان کی جگہ کسی ایسے شخص کو برطانیہ کا وزیراعظم ہونا چاہئے جو عوامی مینڈیٹ پر پورا اتر سکے اور ملکی معیشت کو مستحکم کرکے عوام کو مہنگائی سے نجات دلا سکے۔ جب ان کے ذہن میں آیا کہ وہ اپنے منصب سے انصاف نہیں کر پا رہیں تو انہوں نے بلاتاخیر اسے چھوڑ دیا۔ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ابھی تک میرے سیاسی مخالفین آزاد گھوم رہے ہیں‘ پہلے انہیں جیل میں ڈالا جائے‘ کوئی الزام لگا کر انہیں نااہل کیا جائے یا ایسا قانون پاس کیا جائے جس سے میری پارٹی اور میں ہی ہمیشہ کیلئے برسرِ اقتدار رہیں۔ اسی طرح کورونا وائرس جیسے بحرانوں میں ملک کی قیادت کرنے والی نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے بھی جب یہ سمجھ لیا کہ اب اگر وہ مزید اقتدار میں رہیں تو ملک کی بہتر طور پر خدمت نہیں کر سکیں گی تو انہوں نے بھی کرسی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ دراصل جیسنڈا آرڈرن کو ان کے کچھ مخالفین کورونا ویکسین کو لازمی قرار دینے کی وجہ سے معطون ٹھہرا رہے تھے‘ ایک دن مخالفین کے ایک گروہ نے پارلیمنٹ ہائوس کے قریب دھرنا دیا اور سڑکیں بلاک کر دیں، پولیس نے طاقت کے زور پر انہیں روکا۔ نیوزی لینڈ جیسا پُرامن ملک اس احتجاج اور اس کو جبراً روکنے کے طریقے کا بار نہ اٹھا سکا اور جیسنڈا آرڈرن نے سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کرنے کے بجائے مستعفی ہونے کو ترجیح دی۔
شاید پاکستانی اور بیرونی سیاستدانوں میں یہی فرق ہے جس کی وجہ سے ہمارا ملک روز بروز پیچھے جا رہا ہے اور مغربی ممالک مختلف بحرانوں کے باوجود ترقی کے زینے عبور کرتے جا رہے ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ کورونا وائرس نے جس شدت سے دوسرے ممالک بالخصوص یورپی ممالک و امریکہ میں تباہی مچائی‘ وہ تباہ کاریاں پاکستان میں نہیں برپا ہوئیں‘ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ ہماری حکومت نے لاک ڈائون کے حوالے سے بلی چوہے کا کھیل کھیلنے کے سوا کچھ نہیں کیا اور نہ ہی ہماری قوم نے احتیاطی تدابیر پر سو فیصد عمل کیا۔ یہ صرف خدا کا فضل و کرم تھا کہ سرزمینِ پاک محفوظ رہی ورنہ ہمارے سیاست دانوں کے پاس یہی جواز ہونا تھا کہ 'ہم قدرت کے کاموں میں مداخلت نہیں کر سکتے‘۔ ہمارے حکمرانوں اور اربابِ اختیار نے اپنی ساری ناکامیوں پر قدرت کا پردہ ڈال کر بری الذمہ ہو جانا تھا۔
بات دو خواتین وزرائے اعظم کے استعفوں سے شروع ہوئی، جنہوں نے مہنگائی اور دیگر سیاسی بحرانوں پر فوری قابو نہ پا سکنے پر حکومت چھوڑ دی۔ پاکستانی سیاست کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جو حکومتیں راقم الحروف نے دیکھ رکھی ہیں‘ ان میں صرف صدر ضیاء الحق کا دور ہی ایسا نظر آتاہے جس میں مہنگائی کا جن بوتل میں بند رہا اور شاید مارشل لاء کے خوف سے باہر نہ نکل سکا، ورنہ اس کے علاوہ ہر دور میں یہ جن ایسا بے قابو ہوا کہ عوام کے ساتھ حکومتوں کو بھی کھاگیا۔ صدر ضیاء الحق کے بعد آنے والی تمام سیاسی حکومتیں ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ پرویز مشرف دور میں بھی آٹے اور چینی کے بحران سر اٹھاتے رہے اور مہنگائی کا گراف بڑھتا رہا؛ البتہ آخری دور میں سیاسی عدم استحکام کے باوجود روپے کی بے قدری اور ڈالر کو یوں بے لگام ہونے کے مناظر دیکھنے میں نہیں آئے۔ ضیا دور کے بعد آنے والے چند چیدہ چیدہ وزرائے اعظم کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو محترمہ بینظیر بھٹو دو مرتبہ ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں لیکن وہ اپوزیشن کے ساتھ رسہ کشی کے کھیل سے باہر نہ نکل سکیں۔ میاں محمد نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم بنے لیکن آج بھی وہ یہی کہتے ہیں کہ اگر انہیں ایک بار پھر موقع ملا تو وہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے اور معیشت ٹھیک کر دیں گے، حالانکہ اس وقت بھی انہی کی جماعت برسر اقتدار ہے، وہ خود تو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر براجمان نہیں لیکن ہدایات اور پالیسیاں انہی کی چلتی ہیں، صرف وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر ان کے چھوٹے بھائی براجمان ہیں۔ یہ درست ہے کہ نواز شریف کے دور میں ملک میں انفراسٹرکچر کے حوالے سے بہتری آئی، امن و امان بحال ہوا، موٹر ویز کا جال بچھایا گیا لیکن وہ بھی ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نہ نکال سکے اور بیرونی قرضوں پر ہی انحصار رکھا جو آج ہماری معاشی تباہی کی اصل وجہ ہے۔ عمران خان نے ملک میں بدعنوانی اور ناانصافی کے خلاف تبدیلی کا نعرہ لگایا اور ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالنے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی صورت آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے لیکن جب اقتدار مل گیا تو پھر وہ بھی روایتی سیاستدان ہی ثابت ہوئے اور انہوں نے بھی وہ انتقامی سیاست شروع کر دی جو کئی دہائیوں سے ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنے دعووں اور وعدوں کے برعکس سابق حکومتوں کے مقابلے میں زیادہ بیرونی قرضے لیے اور آئی ایم ایف سے ایسا معاہدہ کیا جس کی سزا آج بھی قوم بھگت رہی ہے۔ سو دنوں میں معاشی انقلاب کے دعوے کرنے والے خان صاحب‘ جو مغرب میں پڑھنے اور اسے سب سے زیادہ سمجھنے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ اپنی حکومت کی ناکامیوں پر مستعفی ہونے کی روایت قائم نہ کر سکے اور اقتدار کا مزہ چکھنے کے بعد اب پھر اس کے فراق میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ کاش پی ٹی آئی حکومت نے اپنے وعدوں کے مطابق آتے ہی کشکول توڑ دیا ہوتا، کاش غیر ملکی قرضوں کی خاطر ایسے معاہدے نہ کیے جاتے جن کی وجہ سے آج ڈالر سٹیٹ بینک کے کنٹرول سے باہر ہو چکا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی عہدہ سنبھالنے سے قبل بڑے بڑے دعوے کیے تھے کہ ڈالر کی اصل قیمت 180 روپے سے کم ہے اور وہ جلد ہی اسے 200 روپے پر باندھ دیں گے لیکن اب یہ 280 روپے تک پہنچنے والاہے۔ پٹرول کی قیمت 70 روپے فی لٹر کرنے کا وعدہ کرنے والے نے 35 روپے مزید اضافہ کر کے پٹرول کو بھی 250 روپے پر پہنچا دیا ہے۔ پیاز بھی اب 260 روپے فی کلو تک پہنچ چکا ہے مگر ہمارے یہاں نہ تو آج تک کسی نے اپنی ذمہ داری قبول کی ہے اور نہ ہی مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی ڈالر، پیاز اور فی لٹر پٹرول کی قیمت تقریباً برابر ہو چکی ہے اور قومی معیشت استحکام کے بجائے مزید تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ توانائی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے اور حکومت توانائی بچت پالیسی پر عملدرآمد کرانے میں مکمل ناکام دکھائی دیتی ہے مگر کسی طرف سے استعفیٰ نہ آیا ہے اور نہ ہی آئے گا۔