یہ طے شدہ بات ہے کہ پاکستانی قوم ہزار ہا سیاسی اختلافات کے باوجود کسی بھی مشکل گھڑی میں ہمیشہ متحد ہو کر جذبۂ حب الوطنی کا بھرپور مظاہرہ کرتی ہے۔ 1947ء سے لے کر آج تک اس حوالے سے لاتعداد مثالیں موجود ہیں کہ قوم نے جانی و مالی‘ ہر قسم کی قربانی کی ایسی روشن مثالیں قائم کیں کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ پوری قوم کو 8 اکتوبر 2005ء کی صبح 8 بج کر 50 منٹ پر زلزلے کی صورت میں برپا ہونے والی قیامت صغریٰ آج بھی ایک ڈرائونے خواب کی طرح یاد ہو گی۔ اس روز میری دفتر سے چھٹی تھی، اس کے باوجود جب ٹیلی وژن پر ہولناک تباہی کے مناظر دیکھے تو رہا نہ گیا اور اخبار کے دفتر جا پہنچا۔ شمالی علاقہ جات خصوصاً آزادکشمیر سے تباہی و بربادی کی خبریں متواتر آ رہی تھیں۔ اس وقت سوشل میڈیا جیسا آسان فورم دستیاب نہیں تھا‘ جس کی وجہ سے صحیح حالات و واقعات دو روز بعد تک ہی سامنے آ سکے تھے اور تبھی وزیراعظم آزاد کشمیر سردار سکندر حیات کا رُلا دینے والا بیان سننے کو ملا کہ ''میں تو اب ایک قبرستان کا وزیراعظم رہ گیا ہوں‘‘۔ اس زلزلے کے دو روز بعد مجھے دفتر سے حکم ملا کہ آپ نے رپورٹنگ ٹیم کے ہمراہ زلزلے کی کوریج کے لیے آزاد کشمیر جانا ہے۔
یہ رمضان المبارک کا مہینہ تھا‘ اس لیے افطاری کے لیے منرل واٹر کی بوتلیں، کھجوریں اور کچھ پھل وغیرہ گاڑی میں رکھ لیے۔ ماسک اور ڈسپوز ایبل گلوز بھی خرید لیے اور اگلے روز صبح صبح مظفر آباد روانہ ہو گئے۔ آزادکشمیر پہنچے تو سامنے واقعی قیامتِ صغریٰ کا منظر تھا۔ سردار سکندر حیات کا بیان حقیقت دکھائی دے رہا تھا۔ ہر طرف انسانی نعشیں بکھری پڑی تھیں جن سے تعفن پھیل رہا تھا۔ کوہالہ پل سے لے کر مظفر آباد شہر تک‘ نہ تو کوئی پولیس اہلکار نظر آیا اور نہ ہی کوئی انتظامی افسر دکھائی دیا۔ پاکستانی یا کشمیری حکمران تو بہت دور کی بات‘ کوئی مقامی سیاسی یا عوامی نمائندہ بھی نظر نہ آیا۔ اس سانحے میں تقریباً 87 ہزار سے زائد افراد جاں بحق، 75 ہزار سے زائد زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوئے تھے۔ اس تباہی کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے خود اس قیامت کے مناظر دیکھ رکھے ہوں۔ کوئی عمارت، کوئی سڑک، کوئی گلی‘ حتیٰ کہ کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں انسانی نعشوں کے ڈھیر نہ لگے ہوں۔ جس وقت ہم مظفر آباد پہنچے تھے‘ اس وقت تک کوئی امدادی ٹیم وہاں نہیں آئی تھی اور نہ ہی امدادی سرگرمیاں شروع ہوئی تھیں۔ راستہ بند ہونے کی وجہ سے ہمیں گاڑی شہر سے باہر ہی کھڑی کرنا پڑی۔ شام کو افطاری کا وقت قریب آیا تو پانی لینے کے لیے دور سڑک پر کھڑی گاڑی کا رخ کیا، ایسے میں ایک گاڑی مخالف سمت سے نمودار ہوئی اور ہمارے سامنے آ کر رک گئی۔ یوں لگا جیسے اس میں کوئی جاننے والا ہے۔
گاڑی سے اترنے والوں میں سے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی و سماجی رہنما زاہد حسین کاظمی تھے اور دوسرے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین‘ سابق وزیراعظم عمران خان تھے۔ زاہد کاظمی صاحب نے ہمارا تعارف خان صاحب سے کرایا تو وہ انٹرویو دینے پر آمادہ ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دو روز سے مسلسل سفر میں ہیں۔ وہ راولپنڈی سے چلے، زلزلہ متاثرہ علاقوں‘ ایبٹ آباد اور بالاکوٹ سے ہوتے ہوئے‘ تمام علاقوں کا خود سروے کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے ہیں۔ انہوں نے اس سے آگے آزاد کشمیر کے دیگر متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنا تھا تاکہ اندازہ کیا جا سکے کہ کس کس علاقے میں کس کس چیز کی اور کتنی کتنی ضرورت ہے۔ کپتان نے بتایا کہ جمائما خان بڑی تعداد میں امدادی سامان بھجوا رہی ہیں اور اس کے لیے ہم خود سروے کر رہے ہیں تا کہ امدادی سامان کو خود مستحقین تک پہنچا سکیں۔ یہ وہ گھڑی تھی جب ابھی تک پاکستان اور آزاد کشمیر میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے سیاست دان خوابِ غفلت ہی سے بیدار نہیں ہوئے تھے اور صرف عمران خان ہی تھے‘ جو اپنی جماعت کے ایک بانی کارکن زاہدکاظمی کے ہمراہ‘ بھوک اور پیاس کی پروا کیے بغیر ان دشوار گزار علاقوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ یقینا ان کے عوامی خدمت کے جذبے کی ایک روشن مثال ہے۔ بعد ازاں سیاسی مصروفیات اور سکیورٹی خدشات کے باعث کپتان کی سرگرمیاں محدود ہوگئیں یا شاید ان کی ترجیحات میں کچھ تبدیلی آ گئی‘ ورنہ یہ حقیقت ہے کہ وہ آج بھی عطیات جمع کرنے اور ریلیف کے کاموں کے حوالے سے ایک پسندیدہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔
مظفر آباد پہنچنے کے بعد اور وہاں سے واپسی پر ہم نے دیکھاکہ ہزاروں لوگ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنی ذاتی گاڑیوں میں خوراک، بستر، کمبل اور دیگر امدادی سامان لے کر متاثرہ علاقوں کی طرف رواں دواں ہیں۔ شاید یہی وہ جذبہ تھا جس نے اس قیامت خیز زلزلے کی تباہ کاریوں سے بحالی تک کے مراحل میں پوری قوم کو سرخرو کیا اور آزاد کشمیر سمیت تمام متاثرہ علاقوں کی رونقیں دوبارہ بحال ہو گئیں اورکاروبارِ زندگی کا پہیہ دوبارہ رواں دواں ہو گیا۔ دنیا نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے دوران بھی پاکستانی قوم کا اتحاد اور جذبۂ ایثار دیکھا۔ سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد بھی پاکستانی قوم نے تمام تر سیاسی اختلافات کو بھلا کر لازوال اتحاد کا عملی مظاہرہ کیا اور دہشت گردی کے خلاف یک زبان ہوکر افواجِ پاکستان کا ساتھ دیا اور اس جنگ میں کامیابی حاصل کی۔
آج کل ہمارا ملک بدترین معاشی بحران کا شکار ہے، مہنگائی عروج پر ہے بلکہ روز بروز مزید بڑھ رہی ہے، امریکی ڈالر سمیت غیر ملکی کرنسی بے قابو ہو چکی ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جس کے باعث سفید پوش طبقہ اپنی گاڑیاں پارک کرنے پر مجبور ہو گیا ہے، بجلی کے نرخوں میں بھاری اضافے کے باوجود توانائی کا بحران ٹلنے کا نام نہیں لے رہا، سی این جی سٹیشنوں کی بندش کے باوجود گھر کے چولہوں میں گیس کا پریشر نہ ہونے کے برابر ہے، ہماری معیشت کا انحصار آئی ایم ایف اور دیگر غیر ملکی قرضوں و امدادی رقوم پر ہے، جن کی کڑی شرائط ملک میں جاری بحرانوں کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔ اگر اس مشکل وقت میں ہماری سیاسی قیادت 'میثاقِ معیشت‘ پر متفق ہو جائے اور مشترکہ طور پر قوم کی رہنمائی کرے تو قوم کا بچہ بچہ اپنی خواہشات کی قربانی دے سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف ہم اپنے قرضے اتار سکیں گے بلکہ اپنے ملک کے اندر پیدا اور تیار ہونے والی مصنوعات استعمال کرکے غیرملکی کرنسی کو بھی لگام دے سکتے ہیں۔ اگر آج قوم تہیہ کر لے کہ ہم صرف پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات ہی استعمال کریں گے تو مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہو جائے گا اور مقامی صنعت ترقی کرے گی۔
آج کل ہمارے برادر مسلم ممالک ترکیہ اور شام 2005ء جیسے زلزلے کی تباہ کاریوں سے دوچار ہیں۔ اب تک قریب بیس ہزار اموات ہو چکی ہیں جبکہ یہ تعداد کئی گنا بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ترکیہ میں 3 ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ ترکیہ وہ ملک ہے جس نے ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ زلزلے کی تباہ کاریاں ہوں یا سیلاب متاثرین کی بحالی کا معاملہ‘ ترکیہ نے ہمیشہ امدادی سرگرمیوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے، اب ہماری باری ہے۔ وزیراعظم ریلیف فنڈ برائے متاثرینِ زلزلہ (ترکیہ) کیلئے اکائونٹ قائم کر دیا گیا ہے، وزیراعظم ریلیف فنڈ کے قیام کا نوٹیفکیشن بھی جاری ہو چکا ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ اس مشکل گھڑی میں ہم اپنے ترک بھائیوں اور بہنوں کی دل کھول کر مدد کریں۔ جو مخیر حضرات اور بڑے کاروباری ادارے ہیں‘ انہیں چاہئے کہ اپنی حیثیت کے مطابق زیادہ سے زیادہ عطیات جمع کرائیں۔ عام شہریوں کو بھی چاہئے کہ اپنی مالی استطاعت کے مطابق ہی سہی‘ لیکن اس کارِ خیر میں حصہ ضرور ڈالیں۔ ہماری سیاسی قیادت کو بھی اپنے تمام تر اختلافات کو پس پشت ڈال کر قوم کی رہنمائی کرنی چاہئے تاکہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ پاکستانی قوم ہر قسم کے بحرانوں کا مقابلہ کرنا جانتی ہے اور قومی معاملات پر ہم سب ایک ہیں۔ اس سے ہمارے دشمنوں کو بھی سبق ملے گا اور ہم اپنی معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے کے ساتھ ساتھ ترکیہ و شام کے زلزلہ متاثرین کے زخموں پر مرہم بھی رکھ سکیں گے۔