کوئی کہہ رہا تھاکہ ''عمران خان کیا زبردست چالیں چلتے ہیں، حکومت کو ہر روز ٹف ٹائم دے رہے ہیں، حکمرانوں کو ایک چال سمجھ آتی ہے تو وہ دوسری چل دیتے ہیں، حکومت انہیں گرفتارکرنا چاہتی ہے لیکن ایسا کر نہیں سکتی کیونکہ پارٹی کارکنان زمان پارک کے باہر ان کی حفاظت کے لیے ہر وقت موجود رہتے ہیں‘‘۔ ہر انسان کی سوچ دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ ہر کسی کا نظریہ اور سیاسی رائے بھی الگ ہوتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حقیقی آزادی کے نام پر ایک تحریک شروع کی، ان کاخیال تھاکہ ماضی کی طرح لوگوں کا سمندر ان کی کال پر باہر نکلے گا اور موجودہ نظام حکومت کو بہا کر لے جائے گا۔ لاہور سے مارچ شروع ہوا لیکن اس کا دم خم لاہور سے باہر نہ نکلا۔ پہلے حقیقی لانگ مارچ کا شیڈول، پھر روٹ اور پھر ارادہ ہی بدل گیا۔ وزیر آباد میں‘ جہاں کپتان کا قافلہ کافی سکڑ چکا تھا‘ ان پر ہونے والے حملے کے بعد لانگ مارچ معطل کر دیا گیا۔ بعد ازاں راولپنڈی میں ریلی کا اعلان کیا گیا اور کہاگیا کہ موجودہ حکمرانوں کو اسلام آباد سے نکالنے اور حکومت سے استعفیٰ لے کر ہی واپس آئیں گے لیکن شاید یہاں بھی خان صاحب کی توقعات کے مطابق کارکن جمع نہیں ہو سکے اور وہ وفاقی حکومت سے استعفے لینے کے بجائے موجودہ پارلیمنٹ سے باہر نکلنے کا اعلان کرکے واپس چلے گئے۔ ایک ہفتے بعد وہ پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ پردۂ سکرین پر آئے اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس ساری تحریک کو حقیقی آزادی کا نام دیا گیا تھا جو حکمرانوں سے استعفے لینے کے لیے شروع کی گئی تھی مگر استعفوں والی بات الٹ ہو گئی اور لینے کے دینے پڑ گئے۔ خدا جانے یہ کیسی چال تھی کہ آزادی کی تحریک 'جیل بھرو‘ یعنی خود کو قید کرانے میں تبدیل کر دی گئی جس کا بدھ کو لاہور سے آغاز ہو چکا ہے۔
جیل بھرو تحریک شروع کرنے سے قبل بتایا گیا تھا کہ تیس ہزار کارکنان نے اپنے چیئرمین کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے جیل جانے کے لیے رجسٹریشن کرا لی ہے ۔ جبکہ میڈیا میں یہ خبریں رپورٹ ہو رہی تھیں کہ اس تحریک کے لیے ہونے والی رجسٹریشن زیادہ حوصلہ افزا نہیں نکلی اور پارٹی کارکنان موجودہ مشکل معاشی صورتحال میں اپنے اہلِ خانہ کو مہنگائی کی دلدل میں چھوڑ کر جیل جانے کوتیار نہیں۔ البتہ پی ٹی آئی کی جانب سے جیل بھرو تحریک کا ایک باقاعدہ شیڈول جاری کیاگیا اور بتایا گیا کہ ہرشہر سے دو‘ دو سو کارکنان اور پارٹی رہنما گرفتاریاں پیش کریں گے، لیکن جب صوبائی دارالحکومت لاہور سے پاکستان تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کا آغاز ہوا تو پہلے روز پارٹی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی ، سیکرٹری جنرل اسد عمر سمیت درجن بھر رہنمائوں اور تقریباً 80 کارکنوں ہی نے رضاکارانہ گرفتاریاں پیش کیں۔ گرفتاری دینے والے رہنمائوں اور کارکنان کو ابتدائی طور پر کوٹ لکھپت جیل اور بعد ازاں صوبے کی دوسری جیلوں میں منتقل کر دیا گیا۔ دوسرے دن پشاور میں پی ٹی آئی رہنمائوں اور کارکنان نے گرفتاریاں پیش کیں لیکن وہاں تعداد دو سو سے کہیں کم تھی۔ تیسرا مرحلہ اہالیانِ راولپنڈی نے عبور کرنا تھا اور سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان اور زلفی بخاری سمیت لگ بھگ 80 کارکنان نے گرفتاریاں دیں۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ تحریک وہی کامیاب ہوتی ہے جس کی قیادت پارٹی کے مرکزی قائدین خود کر رہے ہوں۔ وہ تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوتی جس میں مرکزی لیڈر خود پیچھے بیٹھ جائے اور دوسرے درجے کی لیڈرشپ یا کارکنان کو آگے کر دے۔ شاید یہاں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خان صاحب کی توقعات کے مطابق جیل بھرو تحریک میں رضاکارانہ گرفتاریاں پیش نہیں کی جا رہیں۔ اگر خان صاحب مختلف مقدمات میں اپنی ضمانتیں نہ کراتے اور پہلی گرفتاری خود پیش کرتے تو شاید واقعی جیلیں کم پڑ جاتیں کیونکہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان میں کپتان کے مداحوں کی تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ہے اور وہ اس وقت ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔
جیل بھرو تحریک میں جتنے کارکنان اور لیڈر گرفتاریاں پیش کر رہے ہیں‘ اتنی تعداد میں گرفتاریاں تو انتظامیہ اور پولیس کسی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے پکڑ دھکڑ میں ہی کر لیتی ہے۔ ایسی تحریک کا فائدہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں لوگ گرفتاریاں دیں کہ حکومت کے لیے واقعتاً جیلوں میں جگہ کم پڑ جائے۔ توقع سے کم لوگوں کی جانب سے گرفتاریاں پیش کیے جانے کے بعد حکومت کیلئے اس معاملے سے نمٹنا اور جوابی حکمت عملی مرتب کرنا نسبتاً آسان دکھائی دے رہا ہے۔ پہلے روز کوٹ لکھپت جیل میں قید کیے جانے والے سیاسی اسیران کو دوسری جیلوں میں منتقل کیا گیا تو کئی پی ٹی آئی کارکنوں اور گرفتار رہنمائوں کے اہلِ خانہ نے گرفتاریوں کو ''غیر قانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کر لیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے جیل بھرو تحریک میں از خود گرفتاری دینے والے پی ٹی آئی رہنمائوں کو 16 ایم پی او 3 کے تحت بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، اسیران کو 30 روز تک مختلف جیلوں میں بند رکھا جائے گا۔ لاہور کی کوٹ لکھپت اور کیمپ جیل میں گنجائش سے زائد قیدیوں پر پی ٹی آئی رہنمائوں شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور دیگر کو رحیم یار خان، بھکر، لیہ، راجن پور اور اٹک کی جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ جیل بھرو تحریک میں از خود گرفتاری دینے والے پی ٹی آئی رہنمائوں کی گرفتاری کے بعد مختلف وڈیوز بھی منظرِ عام پر آئی ہیں۔ شاہ محمود قریشی کی ایک وڈیو اس وقت وائرل ہے جس میں مخدوم صاحب کہہ رہے ہیں کہ ان کا خیال تھا کہ انہیں سی سی پی او آفس لے جایا جائے گا لیکن وہ تو گزر چکا ہے اور انہیں کہیں اور لے جایا رہا ہے۔ شاہ محمود قریشی کے صاحبزادے زین قریشی نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں موقف اپنایا گیا ہے کہ شاہ صاحب کو غیر قانونی طور پر حبسِ بے جا میں رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب سینیٹر اعجاز چودھری کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں کو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے۔ اب کوئی پی ٹی آئی کے ذمہ داران سے سوال کرے کہ پہلے آپ نے از خود گرفتاری دی اور اب خود ہی گرفتاریوں کو غیر قانونی کہہ کر عدالتوں میں کیس کر رہے ہیں۔ آپ نے اپنے دورِ اقتدار میں مخالفین کو جیلوں میں ڈالا تھا‘ پھر کیوں اپنے سیاسی مخالفین سے یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ آپ کو گرفتاری کے بعد جیل منتقل کرنے کے بجائے آپ کے پسندیدہ پولیس افسران کے دفاتر میں لے جائیں گے‘ جہاں آپ پریس کانفرنس کریں گے اور خوشی خوشی گھر آ جائیں گے۔ آپ کارکنان کو تو جیل جانے کی ترغیب دے رہے ہیں اور خود جیل جانے سے گھبرا رہے ہیں؟ اس پر ایک نگران صوبائی وزیر کا بھی ردعمل سامنے آیا ہے کہ ''ان کا خیال تھا کہ گرفتار کرکے صوبائی حکومت انہیں سی سی پی او آفس میں بٹھائے گی، چائے، بسکٹ کھلائے گی لیکن پولیس نے انہیں جیل بھیج دیا‘ پی ٹی آئی نے 200 گرفتاری دینے کا اعلان کیا تھا لیکن 100 سے بھی کم لوگوں نے گرفتاری دی ہے‘‘۔
حیرت ہے کہ قوم کو حقیقی آزادی دلانے کیلئے شروع ہونے والی تحریک کا انجام جیل بھرو کیوں بنا دیا گیا۔ جیل تو قید خانہ ہے‘ آزادی جیل جانے سے نہیں بلکہ رہائی کی صورت میں ملتی ہے۔ اب یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جیل بھرو تحریک میں رضاکارانہ گرفتاریاں پیش کرنے والے لیڈران اور کارکنان ضمانتوں کی درخواستیں دائر کریں گے یا نہیں؟ تحریک کی کامیابی تو اسی صورت میں ہو گی کہ کوئی بھی گرفتار لیڈر یا کارکن ضمانت نہ کرائے، اور اتنی تعداد میں لوگ گرفتاریاں پیش کریں کہ جیلوں میں گنجائش ختم ہو جائے، لیکن اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ یہ سارے لوگ جس لیڈر کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے قید خانے میں جا رہے ہیں‘ وہ خود بھی گرفتاری پیش کرکے اس تحریک کو صف اول سے لیڈ کرے۔ البتہ موجودہ مشکل معاشی صورتحال میں پارٹی کارکنوں کو ایسے سخت امتحان میں ڈالنا شاید مناسب نہیں ہے لہٰذا خان صاحب کو چاہئے کہ کم از کم اس معاملے پر ضرور یوٹرن لیا جائے اور جیل بھرو تحریک کی کال واپس لے کر مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی جائے۔