وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
عورت سب سے پہلے ماں ہے‘ بہن ہے‘ بیٹی ہے‘ بیوی ہے‘ الغرض ہر روپ میں یہ عورت ہی ہے جس سے نہ صرف خاندانی نظام کی بقا اور خوبصورتی ہے بلکہ یہی معاشرے کو معاشرہ بناتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی کا کوئی ایک دن بھی عورت کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ صبح سویرے جب خاندان کے لوگ اٹھتے ہیں تو ان سب کے لیے خاتونِ خانہ ہی ناشتے کا اہتمام کرتی ہے، اس کے بعد گھر کی صفائی ستھرائی اور دیگر تمام امورِ خانہ داری سرانجام دیتی ہے، پھر دوپہر کے کھانے کا وقت ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں دن میں کئی بار مہمانوں کی چائے وغیرہ سے تواضع کرتی ہے اور رات کے وقت سب کو کھانا کھلانے کے بعد ہی وہ اپنے آرام کے لیے فراغت پاتی ہے۔ اسی طرح جو ملازمت پیشہ، کاروباری یا پروفیشنل خواتین ہیں‘ وہ بھی صبح پہلے بچوں اور اہلِ خانہ کے لیے ناشتہ بناتی ہیں، پھر بچوں کو سکول کیلئے تیار کرتی ہیں‘ ساتھ ساتھ وہ اپنی تیاری بھی کرتی ہیں، دن بھر سکول یا دفتر وغیرہ میں کام کرنے کے بعد شام کو گھر پھر سے ان کا منتظر ہوتا ہے اور یوں صبح سب کے جاگنے سے پہلے ایک عورت کا کام شروع ہو جاتا ہے جو رات کو سب کے سونے کے بعد ہی اختتام پذیر ہوتا ہے۔ لہٰذا حقیقت یہ ہے کہ عورت کے بغیر کوئی دن مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عالمی یومِ خواتین دراصل مغرب اور ان معاشروں کی ضرورت ہے جہاں خواتین حقیقی نسوانی حقوق سے محروم ہیں، جہاں خواتین کو احترام کا خصوصی درجہ تو درکنار‘ اپنے گھر میں بھی امتیازی و مرکزی حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ میں پہلے بھی کئی بار یہ لکھ چکا ہوں کہ عورت کو جو عزت‘ احترام‘ آزادی‘ تحفظ اور حقوق دینِ اسلام فراہم کرتا ہے‘ دنیا کا کوئی دوسرا مذہب یا معاشرہ وہ حقوق و احترام دے ہی نہیں سکتا۔ یہ محض خام خیالی ہے کہ مغرب میں خواتین کا بڑا احترام کیا جاتا ہے، یورپ اور امریکہ میں عورتوں کو بڑی آزادی حاصل ہے اور شاید وہاں پر خواتین انتہائی محفوظ ہیں۔ زمینی حقائق اس بیانیے کے یکسر الٹ ہیں۔ مغربی دنیا کام‘ کاروبار اور محنت مزدوری میں عورت کو نہ تو کوئی رعایت دیتی ہے اور نہ ہی کوئی خصوصی مراعات بلکہ خواتین ٹرک ڈرائیونگ سمیت وہ تمام سخت جان کام کرنے پر مجبور ہیں جو وطنِ عزیز میں نوے فیصد تک صرف مرد حضرات ہی کی ذمہ داری سمجھے جاتے ہیں۔ مغربی ممالک میں کوئی بھی عورتوں کو بسوں میں سیٹ نہیں دیتا۔ جہاں تک بات آزادیٔ نسواں کی ہے تو وہاں مادر پدر آزادی ضرور ہے مگر احترام کا درجہ بہت کمزور ہے۔ علاوہ ازیں ابھی تک خواتین کو پدر شاہی سوچ کا سامنا ہے، کام کی جگہوں پر انہیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں مردوں کے مقابلے میں کم اجرت ملتی ہے۔ بے شمار ایسے ہی دیگر مسائل کا مغرب و یورپ کو سامنا ہے‘ جن کا سامنا تیسری دنیا کو بھی ہے‘ مگر وہاں ان کا اس طرح ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا۔ پچھلے چند سال 'عورت مارچ‘ میں جو بینرز اور جو پلے کارڈز نظر آئے‘ ان پر جو نعرے درج تھے‘ ان کی اجازت دنیا کا کوئی بھی مہذب معاشرہ نہیں دیتا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں آئین و قانون‘ رسوم و رواج اور اقدار و ثقافت سے ماورا کسی اقدام کی آزادی نہیں دی جاتی۔ تحفظ کی بات کریں تو صرف اسلام ہی دنیا کا واحد مذہب ہے جو عورت کو سب سے زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسلام نے خواتین کو چودہ سو سال پہلے وراثت اور جائیداد رکھنے کا حق دیا تھا جبکہ حقوقِ نسواں کے نام نہاد علمبردار امریکہ میں عورتوں کو جائیداد رکھنے کا حق آج سے لگ بھگ سوا سو سال پہلے‘ 1900ء میں دیا گیا تھا۔
دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت کی فوج جو کچھ مقبوضہ کشمیر کی خواتین کے ساتھ کر رہی ہے‘ کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا ہے؟ نوبیل ایوارڈ یافتہ آنگ سان سوچی کی حکومت اور اس سے قبل و بعد جو کچھ میانمار میں روہنگیا عورتوں کے ساتھ ہوا‘ کیا حقوقِ نسواں کے کسی نام نہاد ٹھیکیدار نے ان مظلوم عورتوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کی؟ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا لیکن ہمارے پیارے آقاﷺ نے عورت کو عزت‘ تحفظ اور حقوق دیے اور عورت کو ماں‘ بہن‘ بیٹی اور دیگر خاندانی رشتوں کے تحت بہترین تحفظ سے نوازا۔ دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرکے نہ صرف انسان اپنی زندگی کو آسان بنا سکتا ہے‘ بلکہ اس کی آخرت بھی سنور جاتی ہے۔ بیٹیوں کا اسلام میں کیا مقام ہے‘ اس کے لیے یہ روایت بہت اہم ہے کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آئی تو انہوں نے اس عورت کو تین کھجوریں دیں۔ اس عورت نے ایک ایک کھجور اپنی دونوں بیٹیوں کو دی اور تیسری کھجور (بھی) دو ٹکڑے کر کے دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کر دی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس کے بعد جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپﷺ سے اس واقعے کا ذکر کیا‘ جس پر آپﷺ نے فرمایا: ''تمہیں تعجب کیوں ہے؟ وہ عورت تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہو گئی‘‘۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تم میں سے کسی کے پاس تین لڑکیاں (بیٹیاں یا تین بہنیں) ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ جنت میں ضرور داخل ہو گا‘‘۔ (صحیح مسلم) اسی طرح حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی کفالت کی تو میں اور وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے اور آپﷺ نے کیفیت بتانے کے لیے اپنی (شہادت اور درمیانی) دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم)
پاکستان میں جب سے عورتوں کے حقوق کی آڑ میں مغربی کتب سے لیا گیا ایک بدنام زمانہ نعرہ لگایا گیا ہے‘ تب سے لے کر آج تک اگر حقوقِ نسواں کی ان نام نہاد ٹھیکیدار تنظیموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے ثابت ہو کہ انہوں نے کسی ایک بھی مظلوم یا مجبور حوا کی بیٹی کے حقوق کے لیے عملی جدوجہد کی یا خاموشی اور باعزت طریقے سے کسی مستحق غریب عورت کو امداد فراہم کی بلکہ سال بھر متعدد خواتین گھریلو تشدد اور مالکان کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتی رہیں‘ ان کے حقوق پامال ہوتے رہے‘ ایک نہیں کئی بیٹیاں گھر چھوڑنے پرمجبور ہوئیں لیکن کسی نے ان کے مسائل کی حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی۔ کسی غریب متاثرہ لڑکی کو فنڈز جمع کرنے اور درپردہ مقاصد پورے کرنے کے لیے میڈیا کے سامنے پیش کرنا نہ تو سماجی خدمت ہے اورنہ ہی اس سے کسی غریب کی عزت واپس آتی ہے بلکہ اسے معاشرے اور خاندان کی نظروں میں مزید جھکا دیا جاتا ہے۔ معاشرے سے کٹے ہوئے ان معدودے چند لوگوں کو کوئی بتائے کہ پاکستانی عورت کا مسئلہ لباس نہیں ہے۔ ہماری بہنیں اور بیٹیاں پورے لباس میں خود کو زیادہ محفوظ سمجھتی اور اسی میں خوش رہتی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ خواتین کی الگ جامعات کے قیام کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ راولپنڈی میں شیخ رشید احمد کی کاوشوں سے جب خواتین کی پہلی 'فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی‘ قائم ہوئی تو اسے خوب پذیرائی ملی۔ اس کے بعد 'راولپنڈی ویمن یونیورسٹی‘ کا قیام ضروری سمجھا گیا اور اب رواں برس اسی شہر میں طالبات کیلئے تیسری جامعہ وقار النساء کالج میں قائم ہو چکی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ ہماری بچیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق خود کو زیادہ باسہولت تصور کرتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین کی اکثریت کا سب سے اہم مسئلہ خاندانی وراثت میں اپنے جائز و قانونی حق سے محرومی ہے جس کیلئے قانون تو موجود ہے‘ مگر اس کے باوجود آج تک اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ یومِ خواتین کے موقع پر ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کو وراثت میں قانونی حصے اور پسند کی شادی سمیت تمام جائز حقوق دینے کا نہ صرف عہد بلکہ عملی کوششیں بھی کی جائیں۔